میں اب چائے میں چمچ نہیں ہلا سکتا


\"\"چند دنوں سے ایک عجیب واقعہ ہوا ہے کہ میں چائے میں چمچ نہیں ہلا سکتا۔ یہ کوئی اتنا بڑا عارضہ نہیں ہے کہ اس پر بہت پریشان ہوا جائے۔ کالم لکھا جائے۔ دوستوں سے بات کی جائے یا پھر ماہر نفسیات سے مشورہ کیا جائے۔ بہت سے لوگوں کو اس طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کومسلسل ہاتھ دھونے کی عادت ہے اور وہ ہر وقت رگڑ رگڑ کر ہاتھ ہی دھوتے رہتے ہیں۔ نت نئے صابن آزماتے ہیں، دھو ، دھو کر اپنی جلد زخمی کر لیتے ہیں مگر ہاتھوں سے خیالی غلاظت دور نہیں ہوتی۔ ایک اور صاحبہ ہیں جو ہر وقت ٹائم کے بارے میں متفکر رہتی ہیں، دو منٹ ٹائم نہ دیکھیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے۔ گھر میں، دفتر میں اور موبائل میں ہر طرح کی گھڑی ان کے پاس ہے مگر کہیں مصروف ہوں اور وقت دیکھنے کا ٹائم نہ ملے تو پریشان ہو جاتی ہیں ۔ ایک اور دوست ہیں جو کالی بلی جس رستے سے گزر جائے اس رستے سے گزر نہیں سکتے۔ انکے پائوں جم جاتے ہیں ۔ پھر وہ رستہ بدلتے ہیں اور کسی طویل رستے سے منزل پر پہنچتے ہیں۔ میں ہمیشہ ان لوگوں کی کمزوریوں پر ہنستا رہا ۔ مذاق اڑاتا رہا۔ مجھے کیا علم تھا کہ میں خود اسی طرح کے عارضے کا شکار ہوجائوں گا۔ میرا مسئلہ اگرچہ بہت معمولی ہے بس اتنی سی بات ہے میں چائے میں چمچ نہیں ہلا سکتا۔

یہ نہیں کہ میں اب چائے نہیں پیتا ، چائے سے محبت اسی طرح قائم ہے۔ ایک نہیں دن کے دس ، دس کپ چلتے ہیں۔ ناشتے کے بعد، دوستوں کے ساتھ، دفتر کے امور میں، شام کو گھر والوں کے ساتھ اور پھر رات کے کھانے کے بعد چائے کا ایک بڑا مگ اسی طرح چل رہا ہے۔ بس چائے میں چمچ ہلانے کی استطاعت نہیں رہی۔ چمچ پکڑا ہی نہیں جاتے۔ ہاتھ بے جان ہو جاتے ہیں۔ جسم بری طرح کانپنا شروع کر دیتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ چائے کا کپ موت کا کنواں دکھائی دینے لگتا ہے۔ میں جلدی سے چائے کے کپ کو دور پھینکتاہوںاور پرچ پیالی کو توڑ دیتا ہوں اور گھر والوں پر ناراضی کا اظہار کرتا ہوں کہ جب میں نے کہا ہے کہ مجھے چائے کے ساتھ چمچ نہیں دینا تو پھر ایسی غلطی کیوں ۔ میری کمزوری کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ مجھے تنگ کیا جا رہا۔ سب گھر والے مجھے سمجھاتے ہیں آخر ہوا کیا ہے۔ چائے کے ساتھ زہر تو نہیںدے دیا بس ایک چمچ ہی پرچ میں دھرا ہے۔ اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے۔ اس میں حرج ہی کیا ہے؟

کچھ دوست میرے اہل خانہ سے مشورہ کر کے مجھے ایک ماہر نفسیات کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے دفتر کے باہر بورڈ پر اتنی ڈگریاں لکھی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب کا نام ہی چھپ گیا تھا۔ طویل انتظار کے بعد جب باری آئی تو ڈاکٹر صاحب مجھے خشمگیں نگاہوں سے دیکھ کر بولے ۔ ہوں ۔ ہو جاتا ہے۔ کوئی پرانی عادت جب پختہ ہو جاتی ہے تو لاشعور میں خوف پیدا کر دیتی ہے۔ اس موقع پر میری بیوی تڑخ کر بولی پرانی عادت تو نہیں ہے۔ اچھے بھلے ٹھیک ٹھاک تھے اب ہی پاگلوں جیسی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر نے پھر مجھے انہی نگاہوں سے دیکھا جن کا پہلے حوالہ آچکا ہے اور کہا کب سے یہ کیفیت ہے ۔ میں نے فورا جواب دیا کہ اٹھائیس دسمبر دو ہزار سترہ کی شام سے ایسا ہورہا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اس قدر درست جواب پر حیران رہ گئے۔ اتنے میں میرے دوستوں کے توسط سے ڈاکٹر کے کلینک میں ہمارے لئے چائے آگئی۔ صاف ستھرے کپ پرچ پر سلیقے سے دھرے تھے۔ ہر کپ کی پرچ میں ایک چمچ بھی دھرا تھا۔ مجھ سے یہ منظر برداشت نہ ہوا اور میں نے بچوں کی طرح دھاڑیں مار مار کررونا شروع کر دیا اورڈاکٹر، دوستوں اور گھر والوں کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گیا۔

فیاض محمود ہمارے بہت اچھے دوست ہیں۔ ایک بہت اچھے نشریاتی ادارے میں رپورٹر ہیں۔ جرائم کی دنیا کی ہر خبر انکے پاس پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ وہ طیبہ کیس کے بارے میں بتا رہے تھے کہ یہ کیس سب سے پہلے سوشل میڈیا پر منظر عام پر آیا ۔ کچھ اہل محلہ نے بھی شکایات کی اور پھر ہیومن رائٹس کمیشن نے اس بچی کی تصاویر کا نوٹس لے لیا۔ تھانہ آئی نائن پولیس کو تحریری شکایت دی، یوں دکھوں کی ماری بچی کو آئی ایٹ سے حاضر سروس جج کے گھر سے برآمد کرلیا، بچی نے ابتدائی بیان میں بتایا یہ زخم تو سیڑھی سے گرنے اور چائے کے گرنے سے آئے، پمز اسپتال بچی کا طبی معائنہ کرایا گیا، پھر ایگزیکٹو مجسٹریٹ نشااشتیاق کے روبرو پیش کیا،جہاں بچی نے سار ا پول کھول دیا۔ جس کے بعد بچی وومن کرائسز سینٹر منتقل کردی گئی۔ کیس اتنا ہی تھاکہ سیشن جج خرم علی خان کی اہلیہ ماہین ظفر المعروف مانو باجی نے مبینہ طور پر اپنی ملازمہ بچی پر اتنا تشدد کیا ہے بچی کی آوازیں پورے محلے میں گونجتی رہیں۔ اہل محلہ کے مطابق یہ واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔ طیبہ کو دو سال پیشتر سیشن جج صاحب اور انکی اہلیہ اپنی کفالت میںلائے تھے۔اس وقت بچی کی عمر آٹھ سال تھی۔ جب اس کیس کا زیادہ شور مچا اور میڈیا نے آواز بلند کی تو ایڈیشنل جج عطا ربانی کی عدالت میںدعویدار والد اعظم کی درخواست پر بچی کو پیش کیا گیا۔ فوری طور پر بچی کا ایک والد اعظم بھی منظر عام پر آگیا۔ عطا ربانی صاحب نے جھٹ سے فیصلہ لکھوانا شروع کر دیا ۔ فوری طور پر اعظم نامی والد کے ساتھ صلح ہوئی شنیدہے کہ صلح کی قیمت پچاس ہزار روپیہ طے کی گئی۔ میڈیا سے بچنے کے لیے بچی کو جج کے چیمبر کے پچھلے دروازے سے والدین کے ساتھ فرار کروا دیا۔ تاثر ہے کہ سیشن جج صاحب نے دوستی اس حد تک نبھائی کہ کیس کی فائل بھی بغل میں دبا کر گھر چلے گئے۔وہ تو بھلا ہو چیف جسٹس ثاقب نثار کا جنہوں نے اس کیس کا سوموٹو لیا اور کیس اب سپریم کورٹ میں پہنچ گیاہے۔اس دوران بچی غائب بھی ہو گئی اور کئی دن کے بعد اچانک عدالت میںپیش کر دی گئی۔ کچھ ذرائع بتاتے ہیں کہ اس تمام گمشدگی کے عرصہ میں بچی کو وکیل راجہ ظہور الحق کے پاس چھپایا گیا تھا۔

معصوم بچی کی ابتدائی طبی رپورٹ کے مطابق شقی القب ماہین ظفر نے بچی کی کمر پرآگ میں دہکتے ہوئے لوہے کے راڈ مارے ۔ہاتھ کے زخم کی وجہ یہ ہے کہ دس سالہ بچی کو سزا دینے کی غرض سے طیبہ کے ننھے ہاتھ کو گرم توے پر رکھ دیا گیا تھا۔ اور آنکھ کے زخم کی وجہ یہ ہے ایک نازک سی بچی کے چہرے پر چائے کے گرم چمچ اس طرح مارے گئے کہ خون رکتا نہ تھا، چہرے کی کھال پھٹ گئی اور نیچے سے چربی پگھل گئی ۔ معصوم سے چہرے پر سے آنکھ کے پاس سے خون آلود ہڈی باہر نکل آئی۔

یہ واقعہ اٹھائیس دسمبرکا ہے۔ اس واقعہ پر سارا پاکستان ماتم کر رہا ہے۔سب ہی ایک معصوم جان پر اتنے بھیانک ظلم پر رنجیدہ ہیں۔ مجھ پر ایسی خبروں کا اثر کم ہی ہوتا ہے لیکن کیا کروں اس بچی کی تصویر بار بار ذہن میں آتی ہے تو دل دہل جاتا ہے۔ کانوں میں دس سالہ بے قصور بچی کی چیخیں گونجنے لگتی ہیں، اور تڑپتے معصوم جسم کی آہیں سنائی دینے لگ جاتی ہیں۔ایسے میں کوئی پھر چائے کے کپ کے ساتھ چمچ لا کر رکھتا ہے تو میں چمچ ہلا نہیں سکتا ، بس چیخیں مار کر رونا شروع کر دیتا ہوں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments