ہدایت نامہ برائے مِسنگ پرسن


ہر مہینے دو مہینے بعد فون آتا ہے۔ کِسی دوست کے دوست کا۔ کِسی جاننے والے کے جاننے والے کا۔ فلاں فلاں کو اُٹھا لیا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں اُس نے کبھی کوئی ایسا ویسا کام نہیں کیا، آپ کچھ مدد کر سکتے ہیں کِسی سے بات کر سکتے ہیں، کچھ مشورہ ہی دے دیں۔

دِل میں پہلا خیال آتا ہے کہ بھائی آپ نے مجھے فون کیوں کیا۔ کبھی نوجوانی میں مِسنگ پرسنز پر دو ڈھائی خبریں چلائی ہوں گی۔ میں کیا مِسنگ پرسنز کا ماما لگتا ہوں؟

ایک مسنگ پرسن کا اصلی اور بڑا ماما تھا جو ایک سبزی والی رہڑی پر اپنے گمشدگان کی تصویریں سجائے پورے ملک میں گھومتا رہا۔ اب میں نے بھی باقی صحافیوں کی طرح اُس کا فون نمبر تک ڈیلیٹ کر دیا ہے۔

لیکن ظاہر ہے ایسی باتیں کِسی ایسے شخص سے نہیں کی جا سکتیں جس کا پیارا تازہ تازہ مِسنگ پرسن بنا ہو۔ دل میں خیال آتا ہے کہ اگر گھر کا پالتو جانور یعنی کتا، بِلی بھی کہیں گم ہو جائے تو گھر میں کھانا نہیں پکتا، یہاں تو جیتا جاگتا ٹویٹ کرتا، فیس بک پر رہتا، میسج کا فوراً جواب دینے والا اِنسان غائب ہوا ہے۔

گھر والوں پر دہشت طاری ہے، دوست سوچ رہے ہیں کہ کاش ہم نے اُسے سمجھایا ہوتا۔ لیکن بندہ غائب ہے، اب کریں تو کیا کریں۔ میں چند اِنتہائی پریکٹیکل مشورے دیتا ہوں، جو میں نے ماضی میں مسنگ ہو جانے والے پرسنز کے والدین، ماموؤں، بھانجوں، یاروں سے سُنے ہیں ہو سکتا ہے اِن میں آپ کو کچھ منطق نظر آ جائے۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ کوئی گارنٹی نہیں کہ اِن مشوروں پر عمل کرنے سے آپ کا بندہ زندہ سلامت واپس آ جائے گا لیکن جب کِسی کی جان کا مسئلہ ہو تو ہمیں باتیں مذاق میں نہیں اُڑانی چاہییں۔ آپ کے پاس وقت کم ہے اور مسنگ پرسن کے مسنگ ہونے کے بعد پہلے 72 گھنٹے اِنتہائی اہم ہیں۔

جیسے ہی آپ کو یقین آ جائے کہ آپ کا بندہ اپنی مرضی سے غائب نہیں ہوا بلکہ اُسے غائب کیا گیا ہے تو سب سے پہلے۔۔۔۔۔

1: شور مچائیں

کوئی ٹی وی والا دوست ڈھونڈیں، مِنت کریں کچھ اور نہیں تو ٹِکر ہی چلا دے۔ اخبار والوں کو پریس ریلیز بھیجیں جِس میں الزام تراشی سے گریز کریں۔ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان کا فون نمبر، ای میل کِسی سے لیں اور اُن کو طویل کہانی مت سُنائیں، بنیادی حقائق بتائیں۔ اُنھیں ایسے بہت پیغام آتے ہیں۔ کوئی رحم دِل تھانیدار ایف آئی آر درج کرنے کو تیار ہے تو کروا لیں لیکن اِس سے کوئی فوری فائدہ نہیں ہونے والا۔ اپنے مسنگ پرسن کی کوئی اچھی تصویر ڈھونڈ کر پینا فلیکس والے کے پاس جائیں، پریس کلب کے باہر احتجاج پر کام آئے گی۔ موم بتیاں نہ خریدیں اور دُعا کریں کہ آنے والے دِنوں میں بھی نہ خریدنی پڑیں۔

اگر، اور یہ کم ہوتا ہے لیکن ہوتا ہے کہ آپ کو مسنگ پرسن کے فون سے ایک کال آ جائے تو۔۔۔۔

2: خاموش ہو جائیں

بندہ اُٹھانے والوں نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ کا بندہ زندہ ہے۔ اِس کو خوشخبری سمجھیں، یہ اعلان جنگ نہیں ہے۔ آپ یقیناً پوچھیں گے کہ کیوں اُٹھایا ہے کب چھوڑیں گے۔ پہلے سوال کا جواب آپ کو پتہ ہے، دوسرے سوال کا جواب وُہ نہیں دیں گے۔ اِس حِدادب کا تقاضہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔

3: نام مت پوچھیں

آپ کو شاید یہ لگے گا کہ آپ کا مسنگ پرسن اِتنا بھی مِسنگ نہیں ہے۔ تو آپ شاید مسنگ کرنے والے سے فری ہونے کی کوشش کریں۔ اُن کا نام پوچھیں۔ وُہ اپنا نام ساجد، ظفر یا اکبر بتائیں گے بہتری اِس میں ہے کہ آپ کو اُس کا صحیح نام پتہ نہ چلے وہ بھی اپنی نوکری کر رہے ہیں آپ بھی وہی کر رہے ہیں۔ آپ بھی وہی کر رہے ہیں جو آپ کو کرنا ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ 72 گھنٹے گزر گئے، آپ کو آپ کے مسنگ پرسن کے فون سے کِسی ساجد، ظفر یا اکبر نے فون نہیں کیا۔ بینر، پوسٹر، نعرے تیار ہیں، ضرور کریں دوستوں سے مشورے اُس کے بعد احتجاج کا وقت طے کریں۔ لیکن اُس سے پہلے۔۔۔۔

4: دُعا کریں

ہو سکتا ہے آپ کا مسنگ ہو جانے والا عزیز مذہب بیزار ہو، دُعاؤں سے زیادہ شاعری پر یقین رکھتا ہو لیکن فی الحال وہ غائب ہے۔ آپ کی دُعا شاید سُنی جائے شاید نہ سُنی جائے لیکن اِس سے آپ کو تھوڑا ذہنی سکون مِلے گا، خوف میں کمی واقع ہو گی۔ اِس کے بعد احتجاج پر نکلیں گلا کھول کر نعرے لگوائیں لیکن اِس احتجاج کے دوران ایک خیال رکھیں کہ۔۔۔۔

5: غائب کرنے والے کا احترام کریں

آپ اپنے بیانات میں اور تقریروں میں یقیناً اداروں پر الزام لگائیں گے لیکن ادارہ بھی افراد سے مِل کر بنتا ہے۔ جو چار پانچ لوگ ایک ویگو پر آئے تھے اور آپ کے بندے کو اُٹھا کر لے گئے وہ بھی یقینا پاکستانی ہیں اور امکان غالب ہے کہ کم تنخواہ پر نوکری کر رہے ہیں۔ وہ بھی اپنے آپ کو اچھا پاکستانی سمجھتے ہیں، کوئی سرکاری نوکری اِس لیے نہیں کرتا کہ وُہ اغوا کار بن جائے اور اپنے ہی ہم وطنوں کی ہڈیاں توڑے۔ وہ صِرف اُوپر والوں کے احکامات بجا لا رہا ہے، اوپر والے اپنے سے اوپر والوں کو خوش کر رہے ہیں۔ آپ بھی کِسی ادارے میں کام کرتے ہوں گے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ ادارے ایسے ہی چلتے ہیں۔ اِس لیے لازم ہے کہ

6: فضول بحث سے پرہیز کریں

آپ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ہمارا بندہ معصوم ہے اِس نے کچھ نہیں کیا۔ اگر کچھ کیا ہے تو عدالت میں پیش کرو۔ دوسری طرف سے دلیل ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب نے بڑی خوبصورتی سے ٹی وی پر دی کہ ہماری ایجنسیاں بندے نہیں اُٹھاتیں اور اگر اُٹھایا ہی ہے تو ظاہر ہے اغوا برائے تاوان کے لیے نہیں اُٹھایا۔ کوئی وجہ ہو گی۔

دونوں طرف سے بات ایک جیسی ہو رہی ہو، یہ ایک ہولناک ڈیڈ لاک ہے۔ اِس میں جان کا زیاں ہو جاتا ہے۔ بنیادی بات یاد رکھیں کہ آپ کے پاس اپنے بندوں کی تصویروں والے پوسٹر اور اخلاقی برتری ہے۔ بندہ اب بھی اُن کے پاس ہے۔ آپ کو بندہ واپس چاہیے یا ساری زندگی پوسٹر ہی لہراتے رہو گے۔ اِس لیے ہر صورت میں۔۔۔

7: اداروں سے ٹکراؤ سے بچیں

مِسنگ پرسنز کے ماما کا ایک بھانجا ہے نصر اللہ بگلزئی۔ اُس کا چچا غائب ہو گیا تھا۔ آپ کو احتجاج کرتے ابھی ہفتہ ہی ہوا ہے نصراللہ نے سالہا سال، پوسٹر لہرائے پٹیشنز کیں پھر ایک دِن اُس کی سُنی گئی، اُسے ایک میٹنگ میں بُلایا گیا جِس میں اتفاق سے ساجد، ظفر اور اکبر سب موجود تھے۔ نصر اللہ نے کہا کہ آپ لوگ میرے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ آپ نے میرے چچا کو نہیں اُٹھایا میں آپ کو کبھی تنگ نہیں کروں گا۔ اگر آپ نے میرے چچا کو مار دیا ہے یا غلطی سے آپ کے ہاتھوں مارا گیا ہے تو مجھے وُہ جگہ دکھا دو جہاں اُس کو دبایا ہے میں فاتحہ پڑھوں گا اور گھر چلا جاؤں گا۔ ساجد، ظفر اور اکبر نے سر ہلاتے ہوئے کہا، افسوس ہے ہم آپ کو ایسے لگتے ہیں۔ نصر اللہ کو دس سال بعد بھی اپنا چچا نہیں مِلا۔

لیکن آپ مایوس نہ ہوں۔ جدوجہد جاری رکھیں اور جب آپ کا مسنگ پرسن واپس آ جائے تو خدا کا اور اداروں کا شکریہ ادا کریں لیکن اُن سے۔۔۔۔

8: سوال مت پوچھیں

آپ کے ذہن میں سیدھے سے سوال ہوں گے کیوں اُٹھایا تھا، کیا پوچھتے تھے، کھانے کو کیا دیتے تھے زیادہ ٹھکائی تو نہیں ہوئی وغیرہ لیکن جانے دیں۔ مسنگ پرسن اِن سب سوالوں کا جواب اِس لیے نہیں دے گا کیونکہ وہ دوبارہ مسنگ نہیں ہونا چاہتا۔ میں نے ایسے ہی خوش قسمت مسنگ پرسن سے ایسے سوال پوچھے تھے۔ اُس نے کہا جو بھی ہوا وہ زندگی میں ایک ہی بار ہونا چاہیے، دوبارہ کی ہمت نہیں ہے۔ وہ اِس شعر کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا، نہیں دیکھنا اُنھیں غور سے

جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

9: دعا کرنا مت بھولیں

کچھ سال پہلے ہمارے ایک ہندو دوست مِسنگ ہو گئے تھے ہم جب بھی اُن کے گھر حال احوال کے لیے جاتے تو وہاں کبھی ختم قرآن ہو رہا ہوتا تو کبھی محفل میلاد۔ مجھے یقین ہے کہ کِسی اندر کے کمرے میں بھگوان کی پوجا بھی چل رہی ہو گی لیکن یاد رکھیں کہ اِس ملک میں رہ کر ہندوؤں نے بھی سیکھ لیا ہے کہ نجات کا ذریعہ یہی ہے۔ آپ بھی سیکھ لیں اور ہاتھ اُٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments