ذبح کرنے کی کیا جلدی ہے؟


\"\"ایک زمانے میں کوئٹہ میں بلوچ پشتون لسانیت عروج پر تھی۔ جناح روڈ پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دفتر پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔ کافی لوگ شہید ہو گئے۔ سول ہسپتال جناح روڈ پر خلقت جمع تھی۔ ان دنوں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جو افغان جہاد سے خان بنے تھے۔ نام خان صاحب فرض کر لیجیے۔ خان صاحب خود کو جماعت اسلامی سے جوڑتے تھے مگر اسلامک فورس جیسے نام سے ایک الگ تنظیم بھی چلاتے تھے۔ خان صاحب سوشلزم کو کفر گردانتے تھے۔ سیکولر ازم کو لادینیت کہتے تھے جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ترقی پسند بائیں بازو کی صف کا دعوہ رکھتی تھی۔خان صاحب اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں خود چھتیس کا آکڑا چلتا رہتا تھا۔ جیسے پشتو میں کہتے ہیں کہ \” د سپی او د فقیر وا\” یعنی کتے اور فقیر جیسا بیر تھا آپس میں۔لوگ ابھی ہسپتال میں تھے کہ خان صاحب ایک جلوس لے کر پہنچ گئے۔ مریضوں اور شہدا کے لواحقین کے درمیان کھڑے ہو کر نعرے بازی کرنے لگے۔ ہم پشتونوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ ہم بدلہ لے کر رہیں گے۔ دیکھتے دیکھتے لوگ جذباتی ہو گئے اور خان صاحب نے آواز لگائی \” رازئی\” چلو۔

جلوس نعرے لگاتا ہوا صاحب کے پیچھے چلنے لگا۔ خان صاحب جلوس کو لے کر سائنس کالج کی طرف روانہ ہو گئے جو یہاں سے بمشکل پانچ سو قدم کے فاصلے پر تھا۔ وہاں سے وہ نعرے لگاتے ہو ئے پرنس روڈ میں داخل ہو گئے۔ پرنس روڈ پہنچ کر خان صاحب کے کسی سمجھدار اخروٹ نے نعرہ بلند کیا کہ \” یہ بلوچ ہم پشتونوں کو کمزور سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہم بھی ان کو بتا دیں گے ہم خوشحال خان خٹک اور احمد شاہ ابدالی کی نسل سے ہیں\”۔ جلوس میں بلوچ مردہ باد کے نعرے لگنے شروع ہو گئے۔ پرنس روڈ پر غریب بلوچوں کے بہت سارے بلوچی چپل بنانے کے کھوکھے تھے۔ اب جب بلوچ مردہ باد کے نعرے شروع ہو گئے تو جلوس کھوکھوں تک پہنچ گئی تھی۔ کسی دوسرے اخروٹ نے ایک کھوکھے کی جانب پتھر پھینک دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ جلوس نے بلوچ بھائیوں کے کھوکھوں پر ہلہ بول دیا۔ کوئی کسی کو مار رہا ہے۔ کسی نے پٹو(چادر) بچھا اس میں چپل بھرنے شروع کر دیئے۔ادھر سے حبیب نالے کے مستقل باسی ہیروئینچی بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے ہزارہ برادری کے ایک کریانہ سٹور پر ہلہ بول دیا۔ کوئی ہاتھ میں ٹوتھ پیسٹ پکڑے بھاگ رہا ہے۔ کسی کے ہاتھوں میں شیمپو کی بوتلیں ہیں۔ کسی نے کاندھے پر چینی کی بوری اٹھائی ہوئی ہے اور کوئی ترازو کے وٹے لے کر کباڑی بازار کی جانب بھاگ رہا ہے۔

اگلے دن کچھ سمجھدار لوگ سائیں کمال خان شیرانی مرحوم کے پاس پہنچ گئے۔کسی نے پوچھا سائیں یہ کیا ماجرا تھا؟ سائیں دھیرے سے مسکرائے اور پھر اپنے انداز میں بولے۔ زورآور! بات یہ ہے کہ خان صاحب کو پشتونوں کے خون سے کچھ نہیں لینا تھا۔ خان صاحب کو بس پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے اپنی دشمنی نبھانی تھی۔ اپنا خنس نکالنا تھا۔ ابھی تو لاشیں ہسپتال میں پڑی تھیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے کسی کی طرف انگلی نہیں اٹھی تھی مگرخان صاحب نے دشمن کا تعین کر دیا۔ خان صاحب رسی ڈال کر پشتون بلوچ کو لڑانا چاہتے تھے۔

بھائیو بات یوں ہے کہ کچھ لوگ غائب کئے گئے ہیں۔ان کے غائب ہونے کے بعد ایک فضا یوں بنا دی گئی کہ یہ لوگ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد لگانے والے پیجز چلاتے تھے۔ معلوم نہیں یہ لوگ ایسے پیجز چلاتے تھے یا نہیں۔ یہ تو جب واپس آئیں گے تب معلوم ہو گا۔ اگر ان میں سے کوئی بھی ایساکرتا تھا تو ہمارا شروع دن سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ان پر الزامات چارج کر کے عدالت کے رو برو پیش کر دیا جائے۔ جہاں تک ان پیجز کا تعلق ہے تو یہ ایک ناپسندیدہ اور مجرمانہ عمل تھا۔ ان کے پیچھے جو بھی لوگ تھے یا ہیں، ان کو قانونی تقاضوں کے مطابق گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔

ہم جیسے لوگ شروع دن سے اس فکر کی پرچار کرتے چلے آئے ہیں کہ صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ کسی بھی مذہب کے مذہبی شعائر کا مذاق اڑانا یا مذہبی اقدار کی توہین کرنا ایک قبیح عمل ہے۔ عقیدہ جس شخص کا جو بھی ہو ، وہ قابل تنقید نہیں ہوتا۔ عقیدہ کی تردید و اثبات معروضی دلائل کی بنیاد پر نہیں کی جاتی ۔کسی شخص کو بھی یہ حق نہیںدیا جا سکتا کہ وہ کسی بھی مذہبی عقیدے کا ابطال اپنے قائم کردہ مفروضوں کی بنیاد پر کرے۔ توہین و تضحیک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عقید ہ صحافت کا موضوع نہیں ہے۔ایک سماج یا ریاست میں مذہبی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد کو عقیدے کا حق ہے اور ریاست اس حق کی حفاظت کا ذمہ اٹھاتی ہے۔ ہم اس بات کی پرچار کرتے چلے آئے ہیںکہ پاکستان کے ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہیں۔ سماج میں کسی بھی فرد کے عقیدے، ثقافت اور زبان کی نفی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی عقیدے، زبان، ثقافت یا جنس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز رکھا جائے۔

اس بیچ چونکہ ہڑبڑی کا سا ماحول بن گیا تو صالحین کے پردہ اخفا میں ملبوس کچھ لوگوں نے خان صاحب کی طرح ڈھاٹا باندھ ہلہ بول دیا۔ اور گستاخانہ مواد شائع کرنے والے پیجز کی آڑ میں ہمارے کچھ دوستوں کا نام لے کر مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔کسی نے دہائی دی کہ فلاں بھی فوج کے خلاف ہے۔ چلو پتھر مارنا شروع کر دو۔ کوئی چلایا کہ فلاں نے جو خواجہ سرا والی تحریر لکھی تھی میں نے اس میں سے بین السطور کی گمراہی برآمد کر لی۔ چلو پٹو بچھاﺅ۔ اب کسی کاندھے پر آٹے کی بوری ہے اور کوئی ٹوتھ پیسٹ لے کر بھاگ رہا ہے۔ عرض مدعا یہ ہے کہ کسی سیاسی بندوبست کے لئے چاہے وہ سیکولز ازم ہو، سوشل ازم ہو یا خلافت ہو، دلیل دینے والے کسی بھی سماج میں نہ مجرم ہوتے ہیں اور نہ ہی ملزم۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی سماج میں یکجہتی پیدا کرنے کے لیے تنوع اور اختلاف کو احترام دینا لازم ہے۔ سماج میں

 زبردستی نہ یک رنگی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی آج تک جبر سے سماج یک رنگ ہوا ہے۔ سیاسی بندوبست کے لئے کسی نظام کے حق میں دلائل دینا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے اپنے پٹو اپنے کاندھوں پر رکھیے اور دلیل و مکالمہ کے میدان میں اپنی رائے پر اصرار کیجیے۔ہڑبڑی میںخان صاحب کے اخروٹوں کی طرح ادھر ادھر پتھر مارنے سے باز آجائیں۔

یادش بخیر۔ قندھار میں ایک زمانے میں ایک گروہ پائیلوچ کے نام سے مشہور تھا۔ آسان فارسی میں مفہوم لچہ لفنگا سمجھ لیں۔ یہ لوگ بڑے بڑے چھرے لے کر ایک دوسرے کو لڑنے کی دعوت دیتے تھے۔گئے دنوں کی بات ہے ایک پائیلوچ نے کسی شریف آدمی مگر صاحب اسطاعت آدمی کو گھورا۔ اس نے پوچھا بھائی خیر ہے؟ پائیلوچ نے نیفے میں اڑسا چھرا نکالا اور کہا، دل کر رہا ہے کہ تمہیں حلال( ذبح ) کر دوں۔ وہ شریف آدمی زمین پر لیٹ گیا اور کہنے لگا، بھائی جلدی حلال کرو۔ اگر خوف سے کہیں میں ایسے ہی مر گیا تو میرا گوشت حلال نہیں رہے گا اور تم بھوکوں مر جاﺅ گے۔ بھائی لوگوں آپ اپنے اپنے چھرے واپس نیفے میں اڑس لیجیے ہمیں نہ حلال ہونے کا شوق ہے اور نہ ہی ہم خوف سے مرنے والے ہیں۔ شانتی رکھیے۔ ہم دلیل کے میدان میں منافرت و کم ظرفی پر یقین نہیں رکھتے۔

 

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments