پاک چین معاشی راہداری اور ترقی کا سراب


\"\"نفع و نقصان معاشی سرگرمیوں کا ناگزیر حصہ ہے۔ صرف نجی منصوبوں میں نہیں، سرکاری منصوبوں میں بھی نقصان ہوتے ہیں بلکہ اکنامکس کی رو سے تو سرکاری منصوبوں میں نقصان کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایک نجی کمپنی جب مسلسل نقصان میں جاتی ہے تو دیوالیہ ہو کر منظر سے غائب ہو جاتی ہے یا کوئی نیا کارجو )Entrepreneur( اسے خرید کر وسائل کی نئی منصوبہ بندیوں سے اس میں نئی جان ڈالنے کی جستجو کرتا ہے مگر جب ایک سرکاری ادارہ نقصان میں جاتا ہے تو اسے ختم کرنا یا بیچنا حکومتوں کے لئے ایک مشکل ترین کام ہے-

سرکاری معاشی منصوبوں کو اگر معاشیات تک ہی محدود رکھا جائے تو شاید یہ منصوبے بہت زیادہ مسائل پیدا نہ کریں مگر المیہ یہ ہے کہ حکومتی معاشی منصوبے پارٹی کے یا ریاست کے بیانیہ کا درجہ حاصل کر جاتے ہیں۔ پرائیویٹائزیشن کا مسئلہ دیکھ لیں۔ پی آئی اے ایک عرصہ سے خسارے میں ہے- اگر یہ ایک نجی ادارہ ہوتی ، یا تو نفع میں چل رہی ہوتی یا دیوالیہ ہو کر منظر سے غائب ہو چکی ہوتی مگر عوام کے ٹیکسز کا اربوں میں ضیاع ہے جو مسلسل ہو رہا ہے باوجود اس کے کہ پی آئی اے کی سروسز میں کوالٹی بھی نجی ایئر لائنز سے کمتر ہے اور قیمتیں بھی نجی ایئر لائنز سے زیادہ ہیں۔ … یہی معاملہ دیگر سرکاری کمرشل اداروں کا ہے۔

اگر ہم بین الملکی معاشی منصوبہ بندیوں کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ علاقائی تجارتی معاہدے مفید بھی ہوتے ہیں اور نقصان دہ بھی ، جس کا بنیادی انحصار ان شقوں (Term & Conditions) پر ہوتا ہے جو ان معاہدوں میں طے کی جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ علاقائی تجارتی معاہدوں کا رواج بھی ایک حد تک ختم ہو گیا ہے جس میں جنگ عظیم دوم کے بعد بالعموم اور یورپی یونین کے قیام کے بعد بالخصوص تیزی آئی تھی۔ خود یورپی یونین ماڈل بحران کا شکار ہے ، آسیان میں پیشرفت رک گئی ہے ، نافٹا کو ٹرمپ ختم کر رہا ہے اور دنیا میں کہیں بھی \”ٹریڈ ریجنلائزیشن\” کی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی سوائے ان چینی عزائم کے جو معاشی راہداریوں سے لاجسٹک سپورٹ چاہتی ہیں۔ مشہور معیشت دان دانی روڈرک اپنے مضمون \”مردہ علاقائی تجارتی معاہدوں پر رونا بند کرو \” کو اس طرح سمیٹتے ہیں \” ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ علاقائی تجارتی معاہدوں کا دور مایوسی سے اختتام پر پہنچ گیا ہے ، اگر ہم اپنے ملک کی معیشت کا بہتر بندوبست قائم کر لیتے ہیں تو نئے تجارتی معاہدے بے کار ہیں\” …یاد رہے کہ دنیا میں علاقائی تجارتی معاہدوں کے اس رجحان میں کمی کی بنیادی وجہ معاشی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔

یہی معاملہ پاک چین معاشی راہداری کا ہے۔ یہ راہداری معیشت دانوں کی نظر میں معاشی طور پر ایک مفید منصوبہ ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر جس درجہ کے دعوے اس سے متعلق کئے جا رہے ہیں وہ ناممکن ہیں۔ ساری دنیا میں معاشی ترقی کا ایک بھی ماڈل ایسا نہیں جس کی رو سے ایک تجارتی گزرگاہ معاشی کایاپلٹ کی ضمانت دے سکے۔ جی ڈی پی میں زیادہ سے زیادہ 0.5 سے ایک فیصد اضافہ ممکن ہے اور یہ بھی ان شقوں پر منحصر ہے جو طے ہونی ہیں یا ہو چکی ہیں- یہ رسک بھی موجود ہے کہ جب راہداری پر اٹھائے جانے والے اخراجات کے پیسے مع سود واپس کئے جائیں گے تو کہیں ملک \”کرنٹ اکاؤنٹ بحران \” میں مبتلا تو نہیں ہو جائے گا – راہداری کی فیزیبلٹی یا نفع و نقصان کے تجزیہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس راہداری سے متعلق بنیادی معلومات کی عدم فراہمی ہے جسے ریاست نے ایٹمی ہتھیاروں کی طرح رازداری میں رکھا ہوا ہے۔

دوسری بات یہ کہ راہداری اب ایک معاشی مسئلہ کے بجائے سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ نواز شریف حکومت اس کی بنیاد پر اور ان وعدوں کے ساتھ آئندہ الیکشن لڑنے جا رہی ہے کہ پاک چین معاشی راہداری ایک بڑا کارنامہ اور گیم چینجر منصوبہ ہے۔ موجودہ ریاستی بیانیہ اس کی بنیاد پر حب الوطنی کی تعریف و تشریح کر رہا ہے، صوبے اپنا اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے دست و گریباں ہوتے نظر آ رہے ہیں اور عسکری ادارہ خود کو ملک کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے ساتھ ساتھ راہداری کا محافظ بھی قرار دے رہا ہے۔ اس صورت میں معاشی شماریات اور نفع و نقصان کے تخمینے گئے بھاڑ میں ، جب ایک راہداری ہی ریاست کی طرف سے شہریوں کے ایمان و کفر کا معاملہ بن جائے۔

سیاست و معیشت کا یہ کھیل صرف پاکستان میں نہیں کھیلا جا رہا بلکہ یہ پوری دنیا میں کم و بیش پایا جاتا ہے۔ امریکہ کی مثال لیجئے۔ معیشت دانوں کی شماریات کہتی ہے کہ نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ (NAFTA) امریکی معیشت کے لئے فائدہ مند ہے اس میں ملک کا کوئی نقصان نہیں۔ مگر گزشتہ الیکشن میں ٹرمپ کے مشہور دعووں میں ایک دعوی یہ بھی تھا کہ نافٹا کی وجہ سے ہماری Jobs شمالی امریکہ کے ممالک میں منتقل ہو گئی ہیں اس لئے میں اقتدار میں آ کر نافٹا کو ختم کر دوں گا اور اب وہ اسے ختم کرنے جا رہا ہے۔ معیشت دان ریکارڈو ہاسمین نافٹا سے متعلق بحث سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں \” تمام حکومتیں جھوٹ بولتی ہیں مگر چند ہی حکومتیں ایسی ہیں جو اپنے جھوٹ پربھی یقین کر لیتی ہیں۔ یوں ان کا انجام انتہائی خطرناک ہی ہوتا ہے۔\” پاکستان میں بھی خطرہ قائم ہے کہ موجودہ حکومت اپنے ہی دعوؤں کے سراب کو حقیقت نہ سمجھ بیٹھے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی راہداری کو بطور ایک معاشی منصوبے کے ہی دیکھا جائے اور سیاسی مبالغہ آرائیوں اور نعروں سے پرہیز کرتے ہوئے تمام معلومات عوام کے سامنے رکھی جائیں تاکہ ملک کے معیشت دان آزادانہ طور پر نفع و نقصان کا تخمینہ بھی لگا سکیں اور معاہدے کی شقوں پر اپنی ماہرانہ رائے سے حکومت کی مدد بھی کر سکیں۔ راہداری کے نام پر عوامی جذبات سے کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ جب امیدیں پوری نہیں ہوں گی تو یہی عوام اسے اپنے سازشی نظریات کا حصہ بنا لے گی کہ یہود و ہنود و نصاری، راہداری کے منصوبے کو ہائی جیک کر گئے یا سیاست دانوں نے راہداری بیچ کھائی – اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک ملک کی معاشی ترقی کے امکانات بنیادی طور اس ملک کی عوام ، مارکیٹ اور ثقافت سے ہی جنم لیتے ہیں – ایسا بندوبست ضروری ہے کہ ملکی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو نہ کہ ان میں کمی آئے – بنیادی اہمیت راہداری کی نہیں بلکہ پاکستان میں معاشی امکانات اور ان کی تسخیر میں آزادی کی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ عالمی مسابقتی انڈکس میں پاکستان 135 ممالک کی درجہ بندی میں آخری بیس ممالک میں آتا ہے – اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی مسابقتی پوزیشن کیسے بہتر بنا سکتے ہیں نہ یہ کہ راہداری کی آمدن کو ہی معاشی ترقی کا اکسیر اعظم سمجھ بیٹھیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments