افغانستان: نئی سردجنگ کا میدان


\"\"

چند دن قبل افغانستان کے دارلحکومت کابل میں قائم پارلیمنٹ کی شاندار عمارت کے پہلو میں طالبان کے حملے میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوگئے۔ ایک طویل عرصہ بعد کابل میں اتنا مہلک حملہ ہوا جس نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کو سوگوار کردیا۔ ابھی اس حملے کے زخم تازہ تھے کہ قندھار میں گورنر کے دفتر کے نزدیک ایک اور حملہ ہوا جس میں متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارت کاربھی جاں بحق ہوگئے۔ حسب معمول افغان حکومت نے پاکستان میں موجود شدت پسند گروہوں کو اس کا ذمہ دار قراردیا۔ کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر ایک مظاہرہ بھی ہوا جس میں پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔

ان حملوں نے افغانستان کی حکومت اور ریاستی اداروں کی صلاحیتوں کی قلعی کھول دی کہ وہ اہم تنصیبات اور شخصیات کی حفاظت کی بھی اہل نہیں۔ حالانکہ امریکہ نے گزشتہ چودہ برسوں میں 64 ارب ڈالر کی امداد افغان حکومت کو دی کہ وہ ملک میں امن وامان کی صورت حال بہتر بنائے۔ محض گزشتہ سال ساڑے تین ارب ڈالر کی امداد دی گئی تاکہ افغان فورسز کو متحرک اور فعال بنایا جا سکے۔

ایسا محسوس ہوتاہے کہ امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلاء کے بعد افغان فوج اور پولیس کی دھاک کا پول کھل گیا اور طالبان اور دوسرے شورش پسند گروہ دیدی دلیری سے ریاستی اداروں کو ہدف بنانے لگے۔ طالبان کی کارروائی میں اضافہ ہوچکا ہے اور ان کے کئی ایک علاقائی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی استوار ہوچکے ہیں۔

کابل میں مقیم تجزیہ کاراورمبصرین میں سے اکثر کی رائے ہے کہ صدر اشرف غنی کی حکومت میں شامل مختلف دھڑے بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر طالبان کی درپردہ حمایت کرتے ہیں تاکہ امریکہ اور اشرف غنی کی حکومت کو دباؤ میں رکھا جاسکے اور حکومت سے رعایتیں حاصل کی جا سکیں۔

امریکہ کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص روس اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں آنے والے بگاڑ نے بھی افغانستان کو عدم استحکام کا شکار کیا۔ علاوہ ازیں خطے میں داعش کے ظہور نے بھی علاقائی طاقتوں بالخصوص روس کے زیراثر مسلمان ریاستوں اور چین کو سخت خطرات سے دوچار کیا۔ ان ممالک کو خطرہ لاحق ہوا کہ داعش ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں قدم نہ جمالے۔ طالبان نے داعش کے مقابلے میں حیرت انگیز سرعت کا مظاہرہ کیا۔ داعش کا فوجی اور نظریاتی محاذ پر مقابلہ کیا گیا۔ اسی اثنا میں صدراشرف غنی یمن کے خلاف قائم اتحاد کا حصہ بھی بن گئے جس کی بدولت ایران ان سے ںاراض ہوا اور اس نے طالبان کے ساتھ قائم رابطوں میں بہتری لائی۔

داعش کے خلاف مشترکہ محاذ قائم کرنے کے لیے روس نے بھی طالبان سے روابط استوار کیے اورامداد بھی فراہم کرنا شروع کردی۔ چین کے طالبان کے ساتھ تعلقات پہلے ہی سے قائم تھے۔ چنانچہ اب سرکاری سطح پر روس، چین اور پاکستان نے افغانستان میں استحکام لانے کے حوالے سے مشاورت کا سسلسلہ شروع کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ دسمبر میں ان ممالک کا ماسکو میں افغان امور پر ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں امریکہ اور بھارت کو سرے سے مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا گیا اور داعش کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا۔ روس اور چین نے اقوام متحدہ میں افغان شخصیات پر لگی ہوئی پابندیاں ختم کرانے میں بھی مدد کا وعدہ کیا ہے۔

ایسا لگتاہے کہ افغانستان میں ایک بار پھر عالمی سردجنگ کا آغاز ہونے کو ہے۔ عالمی دھڑا بندی جو سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی دم توڑ گئی تھی اب ایک نئی شکل میں ابھر رہی ہے۔ امریکہ کے مخالفین گہری چالین چل رہے ہیں جو خطے میں امریکہ کے لیے مشکلات پیداکرسکتی ہیں خاص طور پر افغانستان میں اس نے جو کامیابیاں حاصل کیں انہیں گزند پہنچا سکتی ہیں۔ وہ امریکہ سے اپنے سیاسی اختلافات اور معاشی مسابقت کی جنگ افغان سرزمین پر لڑنے کے لیے کمر بستہ ہوچکے ہیں۔

کل تک پاکستان کو طالبان کا پشتی بان قراردیا جاتاتھا لیکن اب صورت بدل چکی ہے۔ طالبان تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ایران اور روس کے ساتھ تعلقات ہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران روس اور طالبان کے درمیان تعلقات کا چرچا ہوا۔ اب دونوں فریقین تسلیم کرتے ہیں ان کے مابین گزشتہ دس برس سے روابط قائم ہیں۔ بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس طالبان کو شہ دے رہاہے کہ وہ کابل حکومت یا امریکہ کے ساتھ مصالحت نہ کریں۔

ترکی میں روس کے سفیر نے ایک انٹرویو میں برملا یہ استفسار کیا کہ آخر امریکہ کیوں افغانستان میں مستقل طور پر رہنا چاہتا ہے۔ اسی سفیر نے کہا کہ اگر چہ امریکی افواج کی ایک بڑی تعداد افغانستان سے رخصت ہوچکی ہے لیکن وہ کسی بھی وقت واپس آسکتے ہیں اور ان کے پاس ایک لاکھ افراد کو افغانستان میں رکھنے کا انفراسڑکچر موجود ہے۔

پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بہت سارے حل طلب مسائل ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صدر اشرف غنی کی حکومت نہ صرف بھارت کی اسٹرٹیجک شراکت دار ہے بلکہ وہ کئی مرتبہ بھارت کی سرزمین پر کھڑے ہوکر پاکستان کو جلی کٹی سنا چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بعض اوقات بھارتی لیڈروں سے زیادہ طنزیہ لب ولہجہ اختیار کرتے ہیں جو اسلام آباد اور کابل کے درمیان پائی جانے والے سردمہری کو گہرا اور تعلقات میں مزید زہر گھول دیتا ہے۔

امریکہ بھی پاکستان اور افغانستان کو ایک صفحے پر لانے اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں ٹھہراؤ پیدا کرانے میں کامیاب نا ہوسکا۔ امریکی جلد جھنجھلا جاتے ہیں اور پاکستان کو یاد دلانا شروع ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو اب تک 49 ارب ڈالر کی مالی امداد دی ہے۔ خاص کر گزشتہ پندرہ سال میں پاکستان کو خوش کرنے کے لیے نہ صرف مالی وسائل فراہم کیے بلکہ اسے نان نیٹو اتحادی بھی قراردیا لیکن جوابی طور پراس نے امریکہ کو مطلوبہ مدد فراہم نہیں کی۔ چنانچہ اب امریکی افغانستان میں بھارت کے کردار میں اضافہ کرانے کی سرکاری سطح پر کوشش کررہے ہیں۔ ردعمل کی نفسیات نے جہاں پاک امریکہ تعلقات میں پائے جانے والے جمود کو مزید گہرا کیاوہاں بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے امکانات بھی کم کردیئے۔

اس حقیقت سے مفر نہیں کہ افغانستان میں امن واستحکام قائم کیے بغیراس پورے خطے کے مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیرہوسکتا ہے جب تمام علاقائی طاقتیں اور امریکہ مل کر یہاں امن قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ ممالک متحارب مقاصد کے لیے سرگرم رہیں گے تو افغانستان عدم استحکام کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکے گا۔
ابھی جو منظر نامہ ابھر رہاہے وہ کافی خطرناک نظر آتا ہے۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ روس کے ساتھ کشیدگی بڑھا دیں اور پاکستان کے خلاف بھی سخت اقدامات کریں۔ اس سیناریو میں عالمی طاقتوں کے مابین جاری محاذ آرائی میں مزید شدت آسکتی ہے۔ پاکستان کو چوکسی کے ساتھ اپنے پتہ کھیلنے ہوں گے۔ اس کی سیاست کا بنیادی مقصد خطے میں امن واستحکام کا قیام ہونا چاہیے کیونکہ اسی کی کوکھ سے خوشحالی جنم لیتی ہے۔

کالم پر تبصرے کے لیے لکھیں:ershad.mahmud@gmail.com

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments