بھینسا، موچی اور سماجی خوف


\"\"

ہر طرف ہو کا عالم ہے پہلے لوگ اتنے سہل پسند ہو گئے تھے کہ گائے، بکری، بھیڑ، مرغے، کتے، بلی، کوے، چڑیا، کبوتر، ڈریکولے، ہاتھی، بندر، شیر، ریچھ، بن مانس، اور کچھ زندہ دل تو ڈائنو سار کی تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر اسے زندہ تسلیم کر کے بڑے دھڑلے سے بین بجاتے تھے (معاف کیجیے گا میں کسی ایسی چیز کا نام نہیں لینا چاہتا جس کی شروعات ”بھ ” سے ہوتی ہے ورنہ میرا مطلب وہی تھا) مگر پانچ جنوری کی شام اور پھر جنوری کی صبح اب تو یہ عالم ہے کے بعد ٹائم لائن پرہو کا عالم ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی یہ سناٹا کیسا ہے۔

میرے ایک دوست گزشتہ ایک عرصہ سے میرے پاس فیس بک پر ایڈ ہیں اللہ کے بندے اتنے نیک اور پارسا ہیں کہ اپنا اصلی نام تک فیس بک پر نہیں لکھا ہوا، لڑکیوں کی ایک اچھی خاصی مقدار معاف کیجیے کا تعداد ان کی دوستانہ فہرست میں پھر بھی موجود ہے اور اچھے خاصی تعداد پیچھا کرنے والوں اور والیوں کی بھی ہے۔ یہاں میری مراد انگریزی والے فالور سے ہے۔ بڑے ہی نیک، شائستہ، اور مہذب ہیں ہر پوسٹ میں مذہب کو سرفہرست رکھتے ہیں۔ سماجی مسائل پر اگر کبھی لکھتے ہیں تو بندہ تحریر سے زیادہ ان کی معصومیت سے متاثر ہوتا ہے۔ تصویری خاکے کی جگہ کسی بابے کی تصویر زبردستی ڈالی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے بابے کو ادھر بٹھا کر ”ابھی پانچ منٹ میں آیا“ کہہ کر کہیں چلے گئے ہیں۔ انہوں نے کل فیس بک پر ”پوسٹا“ جس کا مفہوم یہ تھا کہ میرے کچھ دوست کچھ گروپس میں زبردستی مجھے دھکیل دیتے ہیں اگر کچھ پوسٹتے ہیں تو مجھے بھی ساتھ نتھی کر دیتے ہیں لہذا میں حلفا اقرار کرتا ہوں کہ جو بھی چیز میری ”ٹائم لائن ” سے پکڑی گئی جو کہ خلاف قانون و اداراجات ہو وہ بندہ پرور کی ملکیت تصور نہیں کی جائے گی اور گنہگار اس کا کسی طرح سے حصہ نہیں ہو گا۔ یہی نہیں انہوں نے ساتھ سب کو نصیحت بھی کی تھی کہ اس کو ہوبہو نقل کر کے اپنی اپنی ”ٹائم لائن ” پر پوسٹیں۔ نتیجتا سو میں سے ستر لوگ گزشتہ دو دن سے روزانہ دن میں تین دفعہ یہ نسخہ ہر نئی پوسٹ کے ساتھ آزما رہے ہیں کچھ نے کہا ہے کہ اب افاقہ ہے۔

ایک اور دوست جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اکثر جذبات کی رو میں بہہ کر بہکی بہکی باتیں اپنی ”فیس بک“ پر پوسٹ کر دیتے تھے اور وہ گزشتہ سات سال سے بلاناغہ فیس بک کا استعمال کر رہے ہیں مگر گزشتہ ایک ہفتہ لگا کر انہوں نے سابقہ ریکارڈ کھنگال ڈالا اور جو بھی خلاف شرع وہ ممنوع مواد تھا اسے بغیر وقت ضائع کیے ہمیشہ کے لیے ضائع کر دیا۔ اب وہ لگتا آب حیات نہ سہی عمر دراز پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

بات سے بات نکلی ہے تو ایک قصہ اور سنادیں کہ ہمارے راستے میں ایک دودھ والا پڑتا ہے ہر وقت اپنی ”بھینسوں“ کو کوستا رہتا ہے۔ باقی تو معلوم نہیں مگر اس نے ان بھینسوں کا ایک شوہر بھی پالا ہوا ہے اور اس کی خوب خاطر داری کرتا ہے۔ کل اور آج صبح خلاف معمول اسے اپنی جگہ پر نہ پایا وہاں سے گذرتے ہوئے ہمارے کانوں میں آواز پڑی کہ گوالا اپنے بیٹے کو ڈانٹ رہا تھا کہ اس ”۔ کے پتر بیل کو باہر نہیں لانا“ ہم حیران ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہےابھی کل تو اس کے پاس کوئی بیل نہیں تھا آج کہاں سے آ گیا۔ اس کے غصے سے ڈر تو لگ ہی رہا تھا کیونکہ وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا ہم نے ڈرتے ڈرتے استفسار کیا ”جناب وہ آپ کا بھینسا۔ “ یہ سننا تھا کہ اس نے کانوں کو ہاتھ لگا لیا اور اٹھ کر اندر بھاگا میں اپنے پریشان ہو گیا کہ ماجرا کیا ہے میں نے کچھ غلط تو نہیں کہہ دیا۔ ابھی تھوڑی دیر گذری تھی کہ اس کی واپسی ایک عدد رائفل کے ساتھ ہوئی وہ سیدھا ہم پر تانتے ہوئے بولا ”یہاں سے دفع ہو جائو آئندہ اگر اس منحسوس کا نام میرے سامنے لیا تو گولی مار دوں گا“ میں پریشان ہو کر رفو چکر ہو گیا۔ شام کو پتا چلا کہ محلے کے تمام گوالوں نے اپنی بھینسوں کے شوہر قصائی کو بیچ دیے ہیں اور جنہوں نے پالے ہوئے ہیں وہ ان کا نام لینے سے گھبراتے ہیں۔

ہم سب دوست شام کو ایک کپ چائے اگٹھے پٹھان کے ہوٹل پر پیتے ہیں۔ وہاں ایک بارہ پندرہ سال کا بچہ پالش اور برش اٹھائے روز ہی آ جاتا ہےاور کوئی نہ کوئی پندرہ بیس روپے کے عوض اپنے جوتے اس سے پالش کروا لیتا ہے۔ ابھی شام کا ذکر ہے کہ وہ ہمارے پاس آیا اور بولا ”صاب پالش کروائیں گے“ ہم سب نے منع کر دیا اچانک میرا ایک دوست بولا ”بیٹا تم یہ کام کیوں کرتے ہو کوئی اور کام کر لو یہ کام تو موچی کا“۔ اتنا سننا تھا کہ اس کے چہرے بالکل سرخ ہو گیا آنکھیں جیسے خوف سے پھٹ گئیں اور پتلیاں سفید ہو کر باہر کو نکلنے لگیں سانس یکدم رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ حواس بحال ہوئے تو ادھر ادھر دیکھا اور بھاگتے بھاگتے کہنے لگا کہ ”صاحب خود تو مرو گے ہی ہمیں بھی مرواؤ گے“۔

(نوٹ: یہ ایک تخیلاتی کالم ہے کسی بھی واقعے کا اس سے ملنا قطعاً اتفاقیہ ہو گا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments