خیال سے اظہار تک تم نے کیا پایا؟


\"\"بے ضرر اور معصوم مخلوق سے کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا کوئی انسان بے ضرر ہوسکتا ہے؟ یہ جو تیز دھار والی زبان ہمارے دانتوں میں خدا نے قید کرنا چاہی کیا یہ واقعی قید تنہائی کا دکھ اٹھا سکی؟ کیا دانتوں کی مضبوط دیوار ہماری زبان کو قابو کرسکتی ہے؟ زبان کی تخلیق کی وجہ کیا ہے؟ بہت سی باتیں ہم بغیر زبان کا استعمال کئے بھی تو کہہ دیا کرتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی سوچا جذبات کی ترجمانی کس کے ذمے ہے؟ دل کے؟ دماغ کے؟ ہم کیوں کہتے ہیں دل سے نہیں دماغ سے سوچو؟ جذباتی مت بنو؟ کیا دل سے بھی سوچا جاتا ہے؟ دل اور دماغ کی سوچ میں فرق کیا ہوتا ہے؟ ہم اپنے دماغ کو بھی تو خیالات کی دنیا سے آباد کرتے ہیں، خیالات کا تعلق دل سے ہے یا دماغ سے؟ دل کی نہ تو آنکھیں ہوتی ہیں ،نہ ہی کان ، لیکن دل میں جذبات کا سیلاب ضرور ہوتا ہے، اس سیلاب کا کنارہ آنکھیں ہیں اور زبان کشتی۔
کشتی صرف آپ کو سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچا سکتی ہے،یا یہ سمجھ لیجئے ایک منزل سے دوسری منزل تک، صرف آپ کے خیالات کے تبادلے کاذریعہ ہوتی ہے،جذبات کی ترجمان نہیں۔زبان کی کوئی شخصیت نہیں ہوتی۔نہ ہی لباس ہوتا ہے،نہ ہی جذبات ہوتے ہیں۔ زبان جذبات کی نہیں خیالات کی ترجمان ہوتی ہے، جذبات کا کوئی تعلق زبان سے نہیں ہوتا، یہاں زبان سے مراد صرف گوشت پوست سے بنا ایک لوتھڑا ہے جس کو صرف خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا گیا، جیسے کاغذ جو قلم کو حیات بخشتا ہے،فکر کو انداز بخشتا ہے۔
ہماری آواز، ہماری آنکھیں،ہمارا چہرہ ہی دراصل ہمارے خیالات کی ترجمانی کرسکتا ہے۔اظہار اور ترجمانی میں بہت فرق ہوتا ہے، اظہار کرنے کیلئے صرف ماحول سے آشنا ہونا ضروری ہوتا ہے، اس کا حصہ ہونا نہیں۔ہم ایک موحول میں رہ کر بھی بعض اوقات اس ماحول کا حصہ نہیں بن پاتے، ہماری اپنی شخصیت کا بھی ایک خول ہوتا ہے، جو ہمیں باہر کے ماحول سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے، ہم اس ماحول میں رہ کر اس ماحول کے ظاہری خدوخال کا اظہار تو کرسکتے ہیں کیوں کہ ہماری آنکھیں سارے ماحول کی منظرکشی میں ہر وقت مصروف عمل رہتی ہیں لیکن ترجمانی نہیں کی جاسکتی۔کسی بھی واقعے کی منظر کشی کے عمل کو الفاظ کا لباس تو پہنایا جاسکتا ہے،لیکن ترجمانی پھر بھی نا ممکن ہوگی۔
بنیادی فرق ہے کیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ کسی بھی واقعے کی ترجمانی کیلئے ہمارا خود اس واقعے کا حصہ ہونا یا اس عمل سے گزرنا لازم ہوتا ہے،یا یہ کہہ لیجئے خود تجربہ کئے بغیر ترجمانی نہیں کی جاسکتی۔ہمارے خیالات کے اظہار کا پیدائشی مرحلہ ،آنکھوں اور کانوں سے شروع ہوکر،ماحول سے رابطہ پیدا کرکے ،دماغ میں ایک فکری کیفیت کوجنم دیتا ہے،جس کے بعد ہم سوچنا شروع کردیتے ہیں اور پھر اظہار کرنے کا ذمہ ہمارے منہ میں قیدزبان کے سر آجاتا ہے۔
ترجمانی کرنے کیلئے سوچنے کے عمل سے گزرنا نہیں پڑتا جبکہ کسی بات کے اظہار کیلئے بہت دقت و دشواری پیش آتی ہے،پہلے دیکھو،پھر سنو ،پھر ماحول سے رابطہ قائم کرو یعنی سمجھو پھر اظہار کرو۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں کو ایک دوسرے سے شکایت ہوتی ہے کہ ہماری زبان اچھی نہیں،اصل میں بات زبان کی نہیں ماحول کی ہوتی ہے۔ ماحول اگر مہذب نہ ملے تو زبان آوارہ ہوجاتی ہے، شائستگی کا عنصر پیدا ہونے سے قبل ہی ہماری زبان ذہنی پسماندگی کی نذر ہوجاتی ہے۔الفاظ سوچ سے فکر کا سفر طے کرنے سے قبل گرد وغبار کی تہہ میں اٹ کر آلودہ ہوجاتے ہیں۔
ہمیں اچھا بولنے کیلئے اچھا پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے، پڑھنے کیلئے ماحول کی شرط لازمی ہوتی ہے، ماحول انسان کی فکر سے تشکیل پاتا ہے، ہمارا خاندان ہماری فکرو شعور کا پہلا دروازہ ہوتا ہے، آخری نہیں ، بے شمار دروازے اور قفل توڑنے کا عمل ہی ہمیں اور ہماری شخصیت کو علم و شعور کے زیور سے آراستہ کرپاتا ہے۔آپ نے خود بھی سنا ہوگا، فلاں شخص نے خاندان کے برخلاف جاکر تعلیمی سفر مکمل کیا۔فلاں شخص کے ہاں تو رجحان ہی نہیں پڑھائی لکھائی کا، اللہ جانے اس نے پڑھ کیسے لیا۔
شوق کیا چیز ہے؟کیا پیدا کیا جاسکتا ہے؟شوق ایک جذبے کا نام ہے،یہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ ہمیں علم شوق کی بنیاد پر ہی حاصل ہوسکتا ہے،اگر شوق نہیں ہے تو ہم جستجو ضرور کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ماحول درکار ہوتا ہے۔
اب نئی نوجوان نسل کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف دل کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں، جستجو کا نہیں اور ماحول بھی وہی بھاتا ہے، ہم اپنی ذہنی نشوونما کی فکر سے آزاد زندگی کے خواہش مند ہوتے جارہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم وہ خواہشیں رکھتے ہیں جن کا پورا ہونا ناممکنات میں سے ہوتا ہے یا یہ کہہ لیجئے کہ خیالی دنیا میں حقیقت کے رنگ دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
ہمارا عمل صفر اور خواہشات کی لمبی فہرست ہمیں حال میں رہتے ہوئے بھی ماضی کا حصہ بنادیتی ہے، ہم حقیقت اور حالات سے منہ موڑنا شروع کردیتے ہیں، راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ جہاں ذمہ داریاں ہمارے استقبال کیلئے نہ کھڑی ہوں، وقت کا ،پیسے کا، اپنی صلاحیتوں کا زیاں شروع کردیتے ہیں۔ہمیں اپنا ماحول بہتر کرنا ہے اگر ہمیں اپنی سوچ سے شکایت ہے۔ فکر سے ندامت ہے۔
اگر آپ کی زبان شائستہ نہیں ہے، آپ کو تمیز نہیں اس کے استعمال کی تو آپ اپنے اوپر چڑھے خول کو اتار پھینکئے۔علمی کتب کا مطالعہ کیجئے، اپنا تعلیمی سفر آگے بڑھائیے، مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو پڑھئے، آپ کی ذہنی نشوونما ہو گی۔ ہمیں اپنی فکر کو حیات بخشنی ہیں، ہمیں بولنے کا سلیقہ نہیں آتا، درد سہنا، برداشت کرنا نہیں آتا، تہذیب کا رشتہ زبان سے جوڑنا نہیں آتا۔ ہم بول تو رہے ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں پتہ ہوتا، کیا بول رہے ہیں؟ کیوں بول رہے ہیں؟اور کس سے بول رہے ہیں؟ اور بولنا چاہیے بھی یا نہیں؟
ہمیں اپنے مستقبل کو سنورانے کیلئے اپنے انداز میں تبدیلی لانی ہے۔ مہذب انداز اپنانا ہے، دوسرے کی بات سننی ہے،تحمل سے برداشت سے تہذیب سے اخلاق سے۔دوسروں کی عزت کرنی ہوگی، خیال کرنا ہوگا، غصے پر بھی قابو کرنا ہے زبان پر بھی۔اپنی زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔ فضول بولنا کم علمی کا ثبوت ہوتا ہے۔ ضرورت کے وقت بولئے، اچھا بولئے، با ربط بولئے، ورنہ خاموشی اختیار کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments