ہوسٹل میں خود کشی کرتی لڑکیاں


\"\"

حال ہی میں ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر ایک خبر بہت زیادہ گردش میں رہی کہ سندھ یونیورسٹی کے سندھی ڈپارٹمنٹ کی پوزیشن ہولڈر طالبہ نائیلہ رند نے ماروی ہوسٹل کے کمرے میں خود کو پھانسی لگا کر خودکشی کر ڈالی۔ نائیلہ رند کا قاتل یا قتل کا ذمہ دار انیس خاصخیلی بھی بلآخر پکڑا گیا جس سے اس کی دوستی سوشل میڈیا پر ہوئی تھی۔ دوستی محبت میں بدلی اور معاملہ تب خراب ہوا جب نائلہ نے اس سے شادی کا مطالبہ کر دیا جس کے بدلے انیس نے نائیلہ کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو نائلہ نے ہوسٹل کے بند کمرے میں خود کو پھانسی لگا دی۔
اس خبر نے مجھے اس لئے بھی دکھی کر دیا کہ جس یونیورسٹی سے میں نے گریجویشن کیا، یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس، اور نائلہ کی سندھ یونیورسٹی کے بیچ کا فاصلہ صرف چند پگڈنڈیاں ہیں۔ یہ دو تعلیمی ادارے صرف شعبے کے لحاظ سے الگ ہیں مگر ایسے ہیں، جیسے دو جڑواں بہنیں۔
ایس لئے نائیلہ مجھے کچھ اپنی اپنی سی لگی۔ نائیلہ رند تو خود کو پھانسی لگانے کے بعد جسمانی موت مر چکی، مگر کئی لڑکیاں ہر روز ایسی نفسیاتی موت مرتی رہتی ہیں۔
لیکن کیا صرف انیس خاصخیلی جیسے لڑکیوں کے شکاری ہی نائلہ جیسی لڑکیوں کی موت کا ذمہ دار ہوتے ہیں؟ نہیں ان کے گھر والے بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ انہوں نے نائلاؤں کو تنہا چھوٹے علاقوں سے شہروں میں پڑھنے کے لیے بھیجا ہوتا ہے اور وہ شہر میں تنہا اور آزاد ہوتی ہیں اور کوئی ان پر نظر رکھنے واالا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس لئے کہ ہمارے معاشرے میں بیٹی دوسرے درجے کی سی حیثییت رکھتی ہیں۔
ماں کے پیدا کیے ہوئے بچوں کی فوج اور باورچی خانے کی ذمے داریاں اور باپ اور بھائیوں کی نام نہاد عزت اور غیرت کا ٹھیکہ بھی انہی نے اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ ایک ہی احسان کیا جاتا ہے ان پر کہ انہیں سکول کالیج بھجا جاتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ تعلیم حاصل کرے بلکہ اس لئے کہ رشتے اچھے آئیں گے۔
ورنہ زندگی گزارنے کے لیے اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہے۔ سر کے دوپٹے سے لے کر پروفیشن تک اور یہاں تک کہ اس کی شادی کس سے ہونی چاہیے، یہ تمام فیصلے اس سے پوچھے بغیر کیے جاتے ہیں۔ یہ کسی کولہو کے بیل سے کم نہیں ہوتی ہیں۔ ان کی آنکھوں پر سماج اور گھر کی عزت کی پٹی بندھ دی جاتی ہے اور یہ آنکھیں بند کیے اسی سمت چلتی چلی جاتی ہیں جو ان کے لیے مقرر کی جاتی ہے۔ جن گھروں میں بیٹیوں پر نظر اٹھا کر کسی غیر مرد کی طرف دیکھنا بھی حرام ہوتا ہے وہاں ان ہی کے بھائیوں کو کھل کر جینے دیا جاتا ہے، جوکھلے عام عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں اور ایسی ہی پابندیوں کا شکار لڑکیوں سے رسم و راہ بڑھا رہے ہوتے ہیں۔
لڑکی جب جوان ہوتی ہے تو اس کے دل میں بھی قدرتی طور پر سراہے جانے کی خواہش جاگتی ہے۔ مگر گھر میں الٹا ہی ہوتا ہے اس کے ساتھ۔ باپ اس کے بڑھتے ہوئے وجود پر ہی نادم ہو رہا ہوتا ہے۔ ماں اسے دن رات کوستی رہتی ہے کہ اس سے بڑی کام چور، بدشکل، بے عقل دوسری کوئی نہیں۔ دن رات اس کا موازنہ اوروں کی بیٹییوں سے کرتی رہتی ہے اور دہائی دیتی رہتی ہے کہ یہ کند ذہن مخلوق صرف اسی کے نصیب میں آئی ہے۔ جب ان بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ دراصل تعلیم حاصل نہیں کرتیں مگر اپنے وجود کو منوانے کی جنگ لڑتی ہیں، اپنوں پر ثابت کرنے کے لئے کہ وہ بھی اپنے بھائیوں سے کم نہیں ہیں۔ انہیں گھر اپنے گھر سے سوائے احساس کمتری کے کچھ نہیں ملتا۔ لیکن جب یونیورسٹی جانے کا وقت آتا ہے تو گھر سے ایک اور حکم صادر کر کے بھیجا جاتا ہے کہ اب گھر والوں کی عزت اس کے ہاتھوں میں ہے۔ کچھ ایسا نہ کر ڈالے کہ اس کی وجہ سے دوسری بہنوں کے راستے بند نہ ہو جائیں۔
گاؤں اورچھوٹے شہروں کی لڑکیاں جب بڑے شہروں میں پہنچتی ہیں تو وہ مکمل طور پر ایک نئی دنیا میں آجاتی ہیں۔
ڈے اسکالرز کی چمچماتی گاڑیاں۔ اپنی کلاس فیلوز کے آنکھیں چندھیا دینے والے فیشن جو آج تک انہوں نے صرف رسالوں میں اور ٹی وی پر دیکھے ہوتے ہیں۔ ان کلاس فیلوز کی خود اعتمادی اور دولت، ان لڑکیوں کو خاموشی سے اپنا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ بھی کسی طرح اس چمکتی دھمکتی بھیڑ کا حصہ بن جائیں۔ جس کے لیے یا تو وہ شیطان کو اپنی روح تک بیچ ڈالتی ہیں یا پھر گھر کا لیکچر یاد کرکے، باپ کی اونچی ناک کا بوجھ کاندھوں پے اٹھائے، آگے بڑھ جاتی ہیں۔ یونیورسٹی میں باپ اور بھائی کے علاوہ یہ اور مرد بھی دیکھتی ہیں۔ ان میں ایسے اساتذہ بھی شامل ہوتے ہیں جو کسی شکاری سے کم نہیں ہوتے۔ جو ان معصوم تتلیوں کے پر نوچ کاٹنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ اساتذہ لڑکیوں کو تب تک نہیں پاس کرتے جب تک وہ ان کی آفس کے چکر نہیں کاٹتیں۔
ان لڑکیوں کو اپنی زندگی میں پہلے آئے مرد یعنی اپنے باپ سے نہ تو محبت ملتی ہے اور نہ ہی خود اعتمادی۔ سنا ہے جو بیٹیاں باپ کے بہت قریب ہوتی ہیں وہ زندگی کے فیصلے بہتر طریقے سے کر پاتی ہیں۔ ان کا مردوں کے معاملے میں معیار کافی بلند ہوتا ہے۔ مگر یہ محبت کی ماری لڑکیاں راِہ فرار تلاش کرنے لگتی ہیں کہ کوئی تو ہوگا جو اس سے محبت کرے۔ تعریف کے دو بول بولے۔ اس کو خود اعتمادی دلائے۔ تب کبھی یونیورسٹی اور کبھی سوشل میڈیا پر کسی انجان کے ساتھ دل لگا لیتی ہیں۔ وہ جو کسی فادر فیگر کی تلاش میں ہوتی ہیں، اکثر اسی وجہ سے کبھی لیکچرر، کبھی پروفیسر کے چنگل میں پھنستی ہیں یا سوشل میڈیا پر خوبصورت شہزادے کے لبادے میں چھپے بھیڑیئے کے۔
عورت محبت کی مٹی سے گوندھی گئی ہے۔ وہ دل و جاں سے اسی کی ہو کر رہ جاتی ہے جہاں سے اسے محبت ملے۔ اور اس کے لیے وہ محبت کے نام پر آگ کا دریا تک پار کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ آگ کا دریا ہی تو دراصل پار کرتی ہے اور وہ بھی تنہا۔ اس آگ میں سب سے پہلے اپنی عزتِ نفس جلاتی ہے۔ اپنے تمام اصول جلا ڈالتی ہے۔ اپنی جوانی کا سب سے خوبصورت اور قیمتی وقت راکھ کرتی ہے۔ اور جب دوسرے کنارے تیر کر پہنچتی ہے، تب اسے معلوم پڑتا ہے کہ محبت کے اس سفر میں وہ تنہا ہی تھی۔ وہ خوبصورت بھیڑیا تو وہیں پیچھے کنارے پر کھڑا اس کا تماشہ دیکھ رہا ہے اور اسے جلتے دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ تب تک سب کچھ راکھ ہو چکا ہوتا ہے۔
خوش نصیب ہوتی ہیں وہ بیٹیاں جن کو ماں باپ کھینچ کر اس آگ سے نکال باہر کرتے ہیں اور اسے سنگسار نیہں کرتے اس کے انجانے میں کیے ہوئے گناہوں کی سزا میں۔ ورنہ اگر دوسرے کنارے پر کوئی اپنا ہاتھ تھامنے کے لئے موجود نہ ہو تو وہ لاچار ہو کر تنہا ہوسٹل کے کمروں میں خود کو سنگسار کردیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments