اپنے ظالم ہونے کا اعتراف کریں


\"\"بڑے ظالم لوگ ہیں ہم۔ ہر سو ،ہر جا ظلم کرتے ہیں اور رونا بھی مظلومیت کا خود ہی روتے ہیں۔ جب عافیہ صدیقی کو اٹھا لے جانے پر ایک طرف سے احتجاج ہوتا تھا تو دوسری جانب سے سوالات اٹھتے تھے۔ آج بلاگرز کی گمشدگی پہ ایک جانب سے آواز اٹھے تو دوسری طرف کی خود ساختہ عدالت سے فیصلہ آتا ہے کہ گستاخ تھے، بھینسا تھے، غدار تھے۔ ارے جب آپس میں ہی لکیر کھینچ کر تقسیم ہو جاتے ہو، ایک دوسرے کی تکلیف پر شادیانے بجاتے ہو اور خود ہی گالم گلاچ، فیصلے، فتوے کر لیتے ہو تو انگلی امریکا، سعودیہ اور ایران پر کیوں اٹھاتے ہو؟ وہ سب تو سوچتے ہوں گے یہ آپس میں لڑنا مرنا کم کریں تو ہمارا نمبر لگے۔ یعنی کہ پاکستان کا نظام انصاف اتنا بانجھ ہو گیا ہے کہ کسی ملزم پہ جرم ثابت نہیں ہو سکتا اس لئے وہ غائب ہو جائے تو اچھا ہے۔ خیر آج وہ، کل تم اور پرسوں میں۔ سوال مگر یہ ہونا چاہیے کہ کوئی پاکستانی سرزمین پاکستان سے کیونکر غائب ہوا؟ کیا عدالتیں اس کے معاملے میں انصاف نہ کر سکتی تھیں یا جرم ثابت نہ ہو سکتا تھا؟
ایک طیبہ پر ظلم ہوا۔ نظر آگیا تو تھوڑا چیخ پکار کر لی۔ گلا بھی صاف ہو گیا۔ ان ہزاروں طیباﺅں کا کیا کریں جو آج بھی بیگم صاحباﺅں سے مار کھا رہی ہیں؟ کچھ نہیں کریں کیوں کہ ان کی بیگم صاحبائیں ہم میں سے ہی ہیں۔ ارے بھئی کیا جج صاحب کی بیگم کسی کی بہن، بھابی، چاچی، مامی، خالہ، پھوپھی نہیں ہیں؟ ان کے رشتہ دار یا ہمسائے سوشل میڈیا پر تو ہوں گے؟ کیا ان میں سے کسی ایک میں بھی اتنی اخلاقی جرات ہو گی کہ ان کے ظلم پر ان سے قطع تعلق کر چکے ہوں؟ نہیں۔ جہاں اپنے ہی خاندان میں بریانی میں بوٹی نہ ملنے پر بڑی محفل میں بڑے پھڈے ہوتے ہوں وہاں ایک ایسی طیبہ کے لیے کون کھڑا ہوگا جس کے والدین کا ہی کنفرم نہیں۔ وہ تو ہماری کچھ نہیں تھی۔ ہاں مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ طیبہ پر شاید ظلم نہ ہوتا اگر ہم اقبال مسیح کو مثال بنا کر قوانین پر عمل یقینی بناتے مگر اقبال مسیح کو کیوں؟ وہ ایک ’چوڑا‘ تھا بھئی۔ ہاں اس پر ظلم کرنے والا شاید اپنا ہو۔ خیر کس قانون نے جج کے خلاف مرے مکوں کو انصاف دلانا ہے۔ ہمارے بانجھ نظام انصاف کو سلام پیش کرتی دو مثالیں کافی ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس اور شاہ زیب قتل کیس۔ ایک نے پیسے اس لیے پکڑ لیے کہ انہیں پیسوں کی ضرورت تھی۔ دوسرے شاہ زیب والے یوں باہر کو چل دیئے کہ شاید انہیں عزت اور جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ بد دعا زبان سے تو نہیں دی جاتی۔ وہ تو دل سے نکلتی ہے اور یقینا کسی کے دل سے نکل کرعرش کو پہنچی ہے جبھی تو ہمارا یہ حال ہے۔ سچ میں بڑے ظالم ہیں ہم۔ ظلم کرتے بھی ہیں تو مذہب، عقیدے، قانون، آئین، روایات اور معاشرے کا نام لے کر۔
زبردستی کو مردانگی اور خرافات کو روایات کا نام دیتے ہیں۔ ہماری قوم کا وہ حال ہو گیا ہے جیسے ہم بال پوائنٹ کے اٹکنے پر اسے زور سے جھٹکا دیتے ہیں اور وہ دوبارہ چلنے لگتا ہے ایسے ہی اس قوم کو بھی زوردار جھٹکے ہی چلا رہے ہیں۔ دیکھیں کب تک چلے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کے سائیکل اور اسکوٹی چلانے سے اسے اس کا معاشرے میں حق مل جائیگا اور خواجہ سرا کا نادرا میں شناختی کارڈ بننے سے۔ مجھے دونوں ہی پر پہلے ہنسی آتی ہے اور پھر ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔ اگر ہمیں پتہ چل گیا کہ ہمارا اصل مقام اور اصل حقوق کیا ہیں تو کیا ہم مانگنے کھڑے نہ ہو جائیں گے؟ اسی لئے ہمیں ’ششکوں‘ میں مشغول رکھتے ہیں سیانے۔
خیر میں جہاں ملازمین اور خواجہ سراﺅں کو رو رہی ہوں کیا وہاں مالکوں کے بچے محفوظ ہیں؟ بی بی صاحباﺅں کو طیباﺅں کی پھینٹی لگانے سے فرصت ملے تو جو وقت بچتا ہے وہ دوسروں کی زندگی میں دخل اندازی میں ہی صرف ہو جاتا ہے ورنہ کبھی وہ بھی اپنے بچوں کو بتاتیں کہ ڈرائیور، قاری صاحب، سکول ٹیچر یا گلی میں انکل جب ضرورت سے زیادہ چپکنے لگیں یا گھورنے لگیں تو سب سے پہلے کسے بتانا ہے؟ ابھی تو خیر ہمیں اس حوالے سے بھی آگہی کی ضرورت ہے کہ بچوں کی بھی اتنی ہی حفاظت لازم ہے جتنی بچیوں کی۔ پھول تو دونوں ہیں۔ مسلنے والے پھول کی اقسام کہاں دیکھتے ہیں۔ اور جس دن والدین یہ سمجھ لیں گے اس دن انہیں یہ بھی سمجھ آجائیگا کہ بھیڑئیے صرف باہر والے نہیں اصل شیطان تو قریبی ہوتے ہیں۔
بہر کیف جب تک تقسیم ہونے کو کوئی نیا بہانہ نہ ملے پرانوں پر ہی اکتفا کیجیے۔ کیونکہ اگر مل بیٹھے تو شاید ہم تعلیم اور تربیت پر غور کرنا شروع کر دیں گے اور اگر آگہی کو پا لیا تو بہت سے لوگ بے نقاب ہونا شروع ہوجائیں گے۔ چلتے چلتے ساحر لدھیانوی کا ایک شعر آئینہ دکھاتا ہے:
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments