مضامین ہائے گم گشتہ


\"\"

ان دوستوں کے نام جن کے قلم کی روانی سے طبیعت نے جولانی کشید کی

پہلے پہل تو یوسف ابنِ یعقوب کی الہامی کہانی کو ”یک جزو از اساطیر الاولین“ سمجھ کر گذر جاتی تھی۔ کبھی دل کے نہاں خانوں میں یعقوب کے ”ہجرِ جانِ پدر“ کو محسوس نہ کر سکی۔ قرآنی آیات کے بین اسطور میں پنہاں ایک گمشدہ بیٹے کے غمزدہ باپ کا سوزِدروں میرے احساسات پہ ضربِ کاری نہ لگا سکا۔ اور نہ ہی کبھی ہجر کے درد کو سمجھنے کی جرأتِ رندانہ کر سکی۔ کچھ تو اپنے دل کا کٹھور پن تھا جو الہام کی زبان میں بھی گمشدگی پہ کیے جانے والے خاموش ماتم اور لسانِ اشک ہائے رواں کے نوحوں کی صدا سے نابلد رہا۔ اور کچھ درد کی اس لازوال داستان میں صاحبانِ جبہ و دستار کی صناعی نے زلیخا کو یوں زیبِ داستان بنایا کہ یعقوب کا غم، یوسف کی تڑپ، ہمجولیوں کی اپنے منجھلے بھائی سے رقابت، بھیڑیوں کی انسانیت اور انسان کی وحشت جیسے آفاقی دروس بصارت سے اوجھل اور بصیرت کے طاق پہ ملفوف جزدان کی طرح سجے رہے۔

اب جب خود ہجر آشنا ہوئی تو سمجھ میں آیا کہ قرآن نے یعقوب اور یوسف کی کہانی کو احسن القصص کیوں کہا۔ احسن القصص کی تشریح و تعبیر کا معاملہ آئندہ کسی روز کے لئے اٹھا رکھتی ہوں۔ سرِدست اپنی داستانِ ہجر پہ کچھ ماتم اور کچھ قلم زنی کہ جس نے روح کو غم سے مخمور، دل کو لاچارگی سے چور، جسم کو نقاہت سے مقہور اور شاید زندگی کو ٹھہر جانے پہ مجبور کر دیا۔
گھٹن زدہ ماحول میں سانسوں کی ڈوری کو برقرار رکھنے ہی کو زندگی سوچا، سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے اور اگر سانسیں کچھ بے ترتیب اور سست رفتار ہو جائیں تو پھر ہمارے جیسے معاشرے میں زندگی کو پرکھنے کا واحد پیمانہ دل کی دھڑکن ہے۔ چاہے ایک صحت مند تنفس والے تنومند جسم کی مردہ روح چیخ چیخ کر ہی کیوں نہ کہہ رہی ہو

زندگی تو کب کی ہو گئی خاموش
دل تو بس عادتاً دھڑکتا ہے

کسی باپ کے بیٹے کی گمشدگی کے غم کا فکری طور پر احاطہ کرنا اور اس کےجذبات کو الفاظ کی شکل دینا قلمِ یزداں کو ہی زیب دیتا ہے کہ انسانی قلم تواپنی تمام تر جولانی کے باوجود غم کے اس بپتا کو بیاں کرنے سے قاصر ہے۔ کسی اپنے کے گم ہو جانے کا خیال ہی انسان کو جنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے تو اس کی گمشدگی کے روز و شب کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے۔ دعا ہے کہ دنیا میں کوئی باپ اپنے بیٹے کے ہجر، کوئی ماں اپنے لختِ جگر کی گمشدگی، کوئی بہن اپنے بھائی کی آمد کے انتظار اور کوئی بیوی اپنے سہاگ سے دوری کے غم سے دوچار نہ ہو۔

انسانی رشتے جو عمر بھر کے پیار، احساس اور طبیبِ خاطر سے پروان چڑھتے ہیں کی قدر و منزلت کتنی بلند ہو گی کہ یہاں تو بہار کی رخصتی پہ کہیں بلبل ماتم کناں ہے تو کہیں بلبل کے ماتم پہ قلمِ انسانی خونچکاں ہے۔ وابستگی ایک ایسا دھاگہ ہے جو قلم کو الفاظ، الفاظ کو احساس سے، احساس سے انسان اور انسان کو نہ صرف انسانیت سے بلکہ خوبصورت مظاہرِ فطرت، چرند و پرند اور یہاں تک کہ رخصت ہونے والی بہار کے پیچھے چمن کی ویرانی پہ بھی مغموم کر دیتی ہے۔

وطنِ عزیز میں چہار سو پھیلی تاریکی اور ویرانی سے بچنے کے لئے میں نے بھی اک وابستگی میں گوشہِ عافیت ڈھونڈا تھا اور یہ وابستگی انسانی قلم سے نکلے بیش قیمت مضامین، خوبصورت نظمیں، غزال غزلیں، آبِ رواں جیسی ٹھنڈک اور تازگی رکھنے والی نثر سے تھی۔ اور یہ وابستگی خونِ جگر دے کر اس لئے سینچی تھی کہ زندگی اپنی تمام تر اٹھکیلیوں اور رعنائیوں کو سمیٹتے ہوئے بالآخر قلم و حرف اور ان سے پھوٹتے الفاظ سے ہمکنار ہوتی تھی۔ ان ہی الفاظ سے بنے گئے مضامین، فکائیے، انشائیے، افسانے، المیے، نوحے، مرثیے اور ان میں کہیں جھلکتی زندگی پہ انبساط کشید کر لیتی تھی تو کہیں سسکتی بلکتی انسانیت پہ آنکھیں اشکبار کر کے غبارِ خاطر نکال لیا کرتی تھی۔

جہاں میڈیا صرف مالیاتی فوائد ہی کو پیشِ نظر رکھے تو وہاں سوشل میڈیا کی موجودگی ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے کیونکہ سماجی ویب ساٸٹس پہ چند پڑھی لکھی اور حساس طبیعتوں کے قلم سے نکلے مضامینِ نو کا مطالعہ بیمار دل کو بلا وجہ قرار دینے کی سبیل تھا۔

اپنے مختصر سے گوشہِ عافیت میں بیٹھے ان مضامینِ نو کا انتظار رہتا تھا کہ چلو کہیں تو حرف و لفظ کی حرمت برقرار ہے، کہیں تو علم و آگہی کا اظہار ہے، کہیں تو کوئی انسانیت کے لئے بےقرار ہے اور کہیں کوئی بےقراری اور تڑپ الفاظ کا روپ دھار کر ہماری بےقراری کو دو اتشہ کر دیتی ہے۔

وطنِ عزیز جو بم دھماکوں کی وجہ سے اپنی شہرت رکھتا ہے اور ہر بم دھماکہ ہی اپنے اندر ویرانیاں سمیٹے آتا ہے لیکن

اب کے بم جسموں پہ نہیں قلموں پہ گرا ہے
اب کے جسموں کے چیتھڑے تو کہیں نہیں اڑے بلکہ روحیں کرچی کرچی ہو گئیں ہیں۔
اب کے کہیں کوئی دھمک تو نہیں سنائی دی لیکن پھر بھی دھنک غائب ہے
اب کے کوئی کوچہ، کوئی بازار، کوئی خانقاہ، کوئی مسجد نشانہ نہ تھی لیکن پھر بھی یہ تمام جگاہیں ویراں ویراں سی لگتی ہیں۔
اب کے نہ میڈیا پہ چنگاڑ ہے، نہ اقتدار کے ایوانوں میں مذمتی بیانوں کی تکرار ہے لیکن پھر بھی ہر اک ذی شعور افسردگی سے دوچار ہے۔
اب کے ٹی وی سکرینوں کے سائرن کی آواز تو نہیں لیکن شعور کے گوش پہ صورِ اسرافیل مسلسل سنائی دے رہی ہے۔
اب کے درودیوار تو سلامت ہیں لیکن گھر اجڑ سا گیا ہے
اب کے چمن کی رعنائیاں جوبن پر ہیں لیکن بلبل آمادہِ نغمہ سرائی نہیں
اب کے بچے تو کھیل رہے ہیں لیکن ”باشعور بڑے“ سہم گئے ہیں
اب کے کوہساروں پہ برف کے گالے گرے تو ہیں لیکن انگاروں سی گرمی لئے ہوئے
اب کے شاہراؤں پہ شور تو بہت ہے لیکن کوئی شناسا آواز سنائی نہیں دے رہی
اب کے قبرستان میں قبر تو کوئی نہیں کھدی لیکن حساس دلوں میں مقبروں نے سر اٹھا لیا ہے
اب کے چشمِ فلک یوں برسی کہ سالِ گزشتہ کی خشک سالی کو اپنے اشکوں سے کافور کر دیا
اب کے نشانہ درسگاہ نہ تھی بلکہ قلم اور قلم گاہ تھی
اب کے قید ہوتے پرندوں پہ آنسو بہانے والے الفاظ خود مقید ہو گئے
اب کے کہیں کوئی ایف آئی آر درج نہ ہوئی کیونکہ ڈاکہ سیم و زر پہ نہیں بلکہ الفاظ، خیالات اور انسانی سوچ و فکر کے بال و پر پہ پڑا ہے
اب کے عدل کے ایوان پانامہ کے ہنگام میں غلطاں ہیں اور یہاں ناطقہ سربگریباں ہے کہ مقدمہ کس کے آگے پیش کرے کہ چند بلین کی منی لانڈرنگ نہیں ہوئی بلکہ سامانِ زیست اور متاعِ حیات ہی اچک لئے گئے ہیں۔
الفاظ کا فسوں بھی سوزِدروں کو بیان کرنے سے قاصر ہے کہ
اب کے شکاری ہاتھ میں جال لئے قلم و حرف کے تعاقب میں ہے
اب کے کوئی خون آلود قمیض بھی نہیں ملے گی کیونکہ اس دفعہ یلغار بھیڑیوں نے نہیں انسانوں نے کی ہے
یعقوب کو کھوئی ہوئی بینائی تو یوسف کے کرتہ کے لمس نے لوٹا دی تھی۔ میری روح کی تسکین کے لئے چند برمحل جملے، برجستہ فقرے، دامن میں وزن و بحر لئے ہوئے چند غزلیں، رواں نثر، پیچ و خم کھاتی ہوئی نکتہ دانی اور منظوم و غیر منظوم نوحے کون لائے گا؟
لہٰزا میں بھی بزبانِ قرآن اپنا غم متمکن عرشِ بریں کے سپرد کرتی ہوں

میں تو اپنی پریشانی اور غم کا اظہار اللہ ہی کے سامنے کرتا ہوں۔ (سورہ یوسف۔ آیت نمبر 86)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments