جامعہ کراچی یا میدان جنگ؟


\"\"

(علی احمد جان گل جی)

جامعہ کراچی کا شمار ملک کی عظیم درس گاہوں میں ہوتا ہے۔ ایک برطانوی رپورٹ کے مطابق جامعہ کراچی دنیا کی صف اول کی 700 جامعات میں سے ایک ہے۔ ایشیا کی 300 بڑی اور معیاری جامعات کی درجہ بندی میں جامعہ کراچی 246 ویں نمبر پر ہے۔ اس عظیم تعلیمی ادارے کی بنیاد قیام پاکستان کے چار سال بعد جون 1951ء میں رکھی گئی۔ ابتدا میں صرف چار شعبوں میں درس و تدریس کا آغاز کیا گیا اور آج یہ ملک کی سب سے بڑی جامعات میں سے ایک ہے۔ 1279 ایکڑ زمین پر محیط موجودہ کیمپس کا قیام 1959 ءمیں عمل میں آیا تھا۔ جامعہ کراچی میں اس وقت مندرجہ ذیل چھے فیکلٹیز تدریس کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں:

فیکلٹی آف سائنس
فیکلٹی آف سوشل سائنسز(جو پہلے فیکلٹی آف آرٹ کہلاتی ہے)
فیکلٹی آف مینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریشن سائنس
فیکلٹی آف انجینئرنگ
فیکلٹی آف فارمیسی
اس کے علاوہ قانون کی تدریس کا بھی اجر کیا جاچکا ہے۔

ان چھے فیکلٹیز میں کل 52 شعبہ جات ہیں جن میں 31 ہزار سے زائد طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں طلبا جو ملازمت یا کسی اور وجہ سے باقاعدہ داخلہ نہیں لے سکتے وہ پرائیویٹ امتحانات دے کر ڈگری حاصل کرسکتے ہیں۔ جامعہ کراچی ہر سال ایسے ہزاروں پرائیویٹ طلبا کو ڈگریاں عطا کرتی ہے۔ جامعہ کراچی کے ساتھ الحاق شدہ کالجوں کی تعداد 145 ہے۔ ان میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان طلبا کے لیے امتحانی پرچے ترتیب دینا، نتیجہ تیار کرنا اور ڈگریاں فراہم کرنا جامعہ کے شعبہ امتحانات کی ذمہ داری ہے۔

جامعہ کراچی میں آمدورفت کے لیے پانچ داخلی دروازے ہیں۔ ان داخلی دروازوں پر سیکیورٹی اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے سیکیورٹیی عملہ موجود ہے جس کی تعداد 120 ہے جن میں 10 خواتین بھی شامل ہیں۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی یہ تعداد جامعہ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ناکافی ہے اور یہ عملہ غیر تربیت یافتہ ہے۔

جامعہ کراچی میں طلبا تنظیموں کے کارکنان میں لڑائی جھگڑوں پر قابو پانے اور امن امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے پہلی بارر 1989 میں 500 رینجرز اہلکاروں کو غیر معینہ مدت کے لیے تعینات کیا گیا تھا جو 26 سال گذرنے کے باوجود امن و امان کی فضا کو بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ رینجرز کی تعیناتی کے باوجود طلبا تنظیموں میں تصادم اور خونی واقعات کو روکا نہیں جا سکا۔
27 اکتوبر 2008 ءکو دو طلبا تنظیموں میں ہونے والے تصادم میں تین طالب علم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ان تنظیموں (اے پی ایم ایس او اور اسلامی جمعیت طلبا) کے درمیان ہونے والے تصادم کے دوران لوہے کی سلاخوں، پتھروں اور ڈنڈوں کے علاوہ اسلحہ بھی استعمال کیا گیا۔ مندرجہ بالا سانحہ اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی بھی فرد آسانی سے اسلحہ لے کر جامعہ کی حدود میں داخل ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل 2007 ءمیں اسی نوعیت کے واقعے میں 12 طالب علم زخمی ہوگئے تھے۔

28 دسمبر 2010 ءمیں اسی نوعیت کے ایک اور واقعے کے دوران ایک مذہبی طلبا تنظیم (آئی ایس او) کے سٹینڈ کے پاس عین اس وقتت دھماکہ ہوا جب اس مسلک کے طالب علم باجماعت نماز ادا کر رہے تھے۔ اس دھماکے میں پانچ طالب علم شدید زخمی ہوگئے تھے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق اس دھماکے میں 200 گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔

سال 2011 میں دو طلبا تنظیموں میں تصادم کے نتیجے میں 111 طالب علم زخمی ہوگئے تھے۔ دونوں گروہوں کی جانب سے لوہے کے راڈ، ، پتھر اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا اور فائرنگ بھی کی گئی۔ تصادم کی وجہ مختلف شعبوں میں کی جانے والی وال چاکنگ تھی۔

ان واقعات کے باوجود جامعہ میں مذہبی و سیاسی طلبا تنظیموں کو دیگر تعلیمی اداروں کی نسبت خاصی آزادی حاصل ہے۔ یہاں طلبا تنظیمیںں اپنے لیے ’سٹینڈ‘ بناتی ہیں جن کے گرد سیمنٹ سے بنی بینچ لگا کر ’قبضہ‘ کی ہوئی جگہ کو جھنڈوں سے سجایا جاتا ہے۔ یہ سٹینڈ تنظیمی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے۔ کسی بھی تنظیمی سٹینڈ کے آس پاس کسی دوسری تنظیم کا فرد پوسٹر نہیں لگا سکتا۔ ہر تنظیم ماہانہ بنیادوں پر کوئی نہ کوئی تقریب منعقد کرتی ہے۔ جس کے لیے باقاعدہ پوسٹر اور بینر لگائے جاتے ہیں۔ یہ پوسٹرز یونیورسٹی کے ہر شعبے کی دیواروں پر لگائے جاتے ہیں۔ وائس چانسلر کا دفتر، کینٹین اور غسل خانے بھی ان پوسٹرز سے محفوظ نہیں۔ یہ نہ صرف عمارتی حسن کو گہنا دیتے ہیں بلکہ اکثر تصادم کا باعث بھی بنتے ہیں۔ واضح رہے کہ جامعہ میں آٹھ مذہبی و سیاسی طلبا تنظیموں کے ”سٹینڈ“ موجود ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق طلبا تنظیموں کے علاوہ جامعہ کراچی میں دو کالعدم تنظیمیں (سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ) بھی سرگرم عمل ہیں جو نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف دیواروں پر چاکنگ کرتی ہیں بلکہ جامعہ کی حدود میں سٹڈی سرکلز کا انعقاد بھی کرتی ہیں۔ خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جامعہ کی ایک معلمہ ان سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ دوسری کالعدم تنظیم کی حمایت میں شعبہ انگریزی اور کیمسٹری کے دو اساتذہ کھلم کھلا بات کرتے ہیں۔ خبر کے مطابق ان میں سے ایک استاد دوران تدریس کھلم کھلا تنظیم سے وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔ ان کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ دونوں تنظیموں کے کارکنان کے مابین یونیورسٹی کی مرکزی مسجد پر غلبہ پانے کے معاملے پر تصادم بھی ہو چکا ہے۔

جامعہ کی حدود میں موجود ہاسٹل میں مقیم طالبات کے ساتھ نقدی اور قیمتی اشیا چھیننے کے دو مختلف واقعات حال ہی میں رپورٹ کیے گئے ہیں۔ فروری کے مہینے میں رات آٹھ بجے شعبہ حیوانیات کی طالبہ سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی گئی جبکہ دوسرے واقعے میں ایک نامعلوم مسلح شخص شعبہ انگریزی کی طالبہ سے موبائل فون چھین کر فرار ہوگیا۔

ان واقعات اور تنظیموں کی سرگرمیوں کے بارے میں جامعہ کے استاد، ماہر سماجیات و جرمیات ڈاکٹر فتح محمد برفت جو 1970ءکی دہائی میں جامعہ کراچی کے طالب علم بھی تھے کا کہنا ہے کہ ”کیمپس کے اندر لڑائی جھگڑے کا کوئی واقعہ خال خال ہی رونما ہوتا تھا۔ خصوصاً یونین کے انتخابات کے دوران لڑائی ہوتی تھی مگر کسی طالب علم کے جسم پر خراش تک نہیں آتی تھی۔ یہ نظریاتی لڑائی تھی۔ انتخابات کے بعد دائیں بازو اور بائیں بازو کی دونوں تنظیموں (این ایس ایف اور جمعیت) کے کارکنان ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے تھے۔ “ واضح رہے کہ 9 فروری 1984ءکو فوجی آمر ضیاالحق نے ملک بھر میں طلبا یونین پر پابندی عائد کردی تھی۔ بعد ازاں ترقی پسند طلبا تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے مذہبی طلبا تنظیموں کے کارندوں کو جامعہ کے اندر سرگرم ہونے کا موقع دیا گیا۔ صوبہ سندھ میں طلبا یونین کو 1979 ءمیں ہی غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔

رینجرز کی کارکردگی موثر کیوں نہیں؟

ان واقعات کے پیش نظر یہ بات پوچھی جا سکتی ہے کہ جامعہ میں رینجرز کی کارکردگی کتنی موثر رہی ہے اور وہ امن و امان کی صورتت حال بہتر بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ اول تو سیکیورٹی اہلکاروں اور رینجرز کی موجودگی میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آنا چاہیے اور اگر پیش آتا بھی ہے تو رینجرز کو فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ کر صورت حال کو قابو میں لانا چاہیے۔ تنظیموں کے مابین ہونے والے تصادم میں رینجرز پہنچنے میں اتنی دیر لگاتی ہے کہ تب تک حالات قابو سے باہر ہو چکے ہوتے ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار گھنٹوں بعد جائے واردات پر پہنچتے ہیں، وہاں آس پاس موجود کسی بھی طالب علم کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ مختلف واقعات کے دوران جامعہ کی حدود میں فائرنگ کرنے والے افراد میں سے کبھی کوئی گرفتار نہیں ہوا۔ رینجرز اور سیکیورٹی کا عملہ ڈیوٹی پر ہونے کے باوجود مسلح طلبا کا یونیورسٹی میں داخل ہونا ایک تشویش ناک امر ہے۔

جب یہ سوالات جامعہ کراچی کے سیکیورٹی سپروائزر آصف کے سامنے رکھے گئے تو ان کا یہ کہنا تھا کہ رینجرز صرف سیکیورٹی عملے کی ’معاونت‘ کے لیے موجود ہیں۔ سیکیورٹی عملے کے پاس تربیت اور جدید آلات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

رینجرز کے برتاؤ سے اکثر طلبا ناخوش نظر آتے ہیں۔ وہ طلبا جن کی کسی سیاسی و مذہبی طلبا تنظیم سے وابستگی نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ رینجرز کا رویہ تنظیموں سے وابستہ لڑکوں کے ساتھ اچھا ہوتا ہے جبکہ عام طالب علم کے ساتھ مختلف ہوتا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک طالب علم نے بتایا کہ داخلی دروازوں پر ڈیوٹی پر مامور رینجرز اور سیکیورٹی اہلکار عام طلبا کی موٹر سائیکل رکوا کر وہیں پارک کراتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں تقریباً آدھا گھنٹہ پیدل چل کر اپنے شعبے تک پہنچنا پڑتا ہے جبکہ طلبا تنظیموں سے منسلک افراد کی سواریاں روک ٹوک کے بغیر یونیورسٹی حدود میں داخل ہو جاتی ہیں۔ جب یہ سوال سیکیورٹی سپروائزر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ تنظیموں کے اراکین رینجرز کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہیں اور سلام دعا رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے دوسرے طلبا کو یہ لگتا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جامعہ میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے میں بعض طلبا تنظیموں کے اراکین کا اہم کردار ہے۔ جامعہ کے مرکزی دروازے اور تدریسی شعبہ جات کے درمیان ڈیڑھ سے دو کلو میٹر کا فاصلہ ہے جو اکثر طلبا پیدل طے کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک جامعہ کے اندر شٹل سروس موجود تھی جو طلبا کو داخلی دروازوں سے متعلقہ شعبوں تک پہنچاتی تھی۔

جامعہ کراچی؛ چند سماجی مسائل

جامعہ کی حدود میں سگریٹ، چھالیہ اور گٹکے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ تقریباً ہر کینٹین پر سگریٹ اور چھالیہ دستیاب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات کو بھی سیکیورٹی کے سلسلے میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا میں سے 60 فیصد سے زائد تعداد طالبات کی ہے۔ جامعہ کراچی میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی خبریں بھی اخباروں کی زینت بن چکی ہیں۔ اگرچہ ایسے واقعات کی تعداد اخباری اطلاعات سے کہیں زیادہ ہے لیکن بہت سی طالبات ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں کرتیں۔

گزشتہ برس 15 جنوری کی ایک خبر کے مطابق شعبہ سماجی بہبود (سوشل ورک) کے ایک استاد کے خلاف کچھ طالبات نے جنسی ہراسانیی کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس سے قبل شعبہ اردو کے ایک پروفیسر کے خلاف بھی جنسی ہراسانی کی شکایت سامنے آئی تھی۔ اعتراف جرم کے بعد سینڈیکیٹ کی میٹنگ میں پروفیسر صاحب کو عارضی طور پر معطل کیا گیا تھا جنہیں بعد ازاں بحال کر دیا گیا۔
ان دنوں جامعہ میں ’وین مافیا‘ سرگرم عمل ہے جو طلبا کو پک اینڈ ڈراپ کی ’سہولت‘ فراہم کرتا ہے۔ ہر وین سے یونیورسٹی انتظامیہ ماہانہ چھ روپے وصول کرتی ہے۔ سیکیورٹی سپروائزر آصف کے مطابق یہ پیسے جامعہ کے اکاؤنٹ میں ڈالے جاتے ہیں۔ یہ پیسے کہاں اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس سے انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ چند سال پہلے تک جامعہ کی درجنوں بسیں طلبا کو آمدورفت کی سہولیات مہیا کرتی تھیں جو یکایک غائب ہوگئی ہیں اور ان کی جگہ پرائیویٹ وین سروس والوں نے لے لی ہے۔ جامعہ کے کئی ملازمین کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ ان میں مالی اور چپڑاسی بھی شامل ہیں۔ مبینہ طور پر ایک تیر دو شکار کے مصداق یہ اپنی تنخواہیں بھی وصول کرتے ہیں اورساتھ ساتھ ڈیوٹی کے اوقات میں جامعہ کے اندر رکشہ بھی چلاتے ہیں۔ ان رکشوں کا کام چند سال پہلے تک شٹل سروس سے لیا جاتا تھا جو اب نظر نہیں آتی۔ رکشے والے ڈیپارٹمنٹ سے گیٹ تک 50 سے 100 روپے کرایہ لیتے ہیں۔ ان رکشوں سے متعلق سیکیورٹی خدشات پر سیکیورٹی انتظامیہ کا جواب سمجھ سے بالاتر ہے۔

سیکیورٹی حکام کے مطابق ’چند غریب لوگوں کی روزی کا انتظام ہورہا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘

گزشتہ دنوں جامعہ کی حدود میں ایک اور افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب پوائنٹس ٹرمینل کے قریب کچھ لڑکے اور لڑکیاں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق مذہبی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کے اراکین نے آکر لڑکوں کومارنا شروع کردیا۔ جب لڑکیوں نے بچانے کی کوشش کی تو وہ بھی زد میں آگئیں۔ اس کے بعد جمعیت اور آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے درمیان تصادم کے دوران تین طلبا زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد بھی سیاست دانوں کی جانب سے رسمی مذمت کی اطلاعات آئیں اور گورنر سندھ عشرت العباد نے شیخ الجامعہ کو واقعے کی ان کوائری کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ رینجرزاور سیکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری کی موجودگی میں جامعہ کے اندر ایسے واقعات کیسے ہوتے ہیں اور ذمہ داران کے خلاف بروقت کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ کچھ واقعات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جامعہ کا عملہ بالواسطہ یا براہ راست ان واقعات میں ملوث ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال رواں برس فروری میں وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے تحت جامعہ کراچی کے قابل اور اچھے نمبر حاصل کرنے والے طلبا کو ملنے والے لیپ ٹاپس میں سے درجنوں کا غائب ہونا ہے۔ گزشتہ برس اسی نوعیت کے ایک اور واقعے میں دو ہزار تیار شدہ ڈگریاں نامعلوم افراد رات کے اندھیرے میں چرا کر فرار ہوگئے مگر ان کا سراغ نہیں مل سکا۔ جہاں تک امن و امان کی صورت حال کا تعلق ہے اس کی خرابی کی گواہی تسلسل کے ساتھ آنے والے ناخوشگوار واقعات دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے جامعہ کراچی میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔

بقول جون ایلیا

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments