اب لبرل انتہا پسند بھی پیدا ہوئے ہیں


\"\"مجھے نہیں معلوم کہ ’بھینسا پیج‘ کون چلا رہا تھا لیکن ’بھینسا‘ جیسا پیج کسی بھی طرح سیکولر اقدار کا نمائندہ پیج نہیں ہو سکتا۔ کسی کو گالی دینے کا اور بے عزت کرنے کا سیکولر اقدار سے بالکل ایسے ہی کوئی تعلق نہیں جیسے کوئی صاحب مذہب شخص کسی کو گالیاں دے اور ایسی گالیوں کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے حالات نے جہاں مذہبی انتہا پسندوں کو جنم دیا ہے، وہاں لبرل انتہاپسند بھی پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے مذہب کا امیج خراب ہو رہا ہے، ویسے ہی لبرل انتہاپسند سیکولرزم کا چہرہ بھی داغ دار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ایسے مذہبی اور لبرل انتہاپسند بھول چکے ہیں کہ کسی کو دوسرے کو گالی دینا نہ تو مذہبی اقدار کے مطابق ہے اور نہ ہی سیکولر اقدار اس کی اجازت دیتی ہیں۔
غیرقانونی حراست یا جبری گمشدگی ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے چاہے یہ کسی کی بھی کیوں نہ ہو؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کا لبرل طبقہ ایمل کانسی کی امریکا حوالگی پر احتجاج کرتا لیکن یہ اس وقت خاموش رہا۔ نظریات چاہے جو بھی تھے اصولی طور پر لبرل طبقے کو عافیہ صدیقی کے حق میں بولنا چاہیے کہ کس طرح اسے بغیر ٹرائل کیے انہیں امریکا کے حوالے کر دیا گیا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لبرل طبقہ کسی مولوی، یا کسی دوسرے کی گمشدگی پر احتجاج کرتے لیکن تب خاموشی چھائی رہی۔ میرے خیال سے صرف اس وقت گمشدگیوں پر واویلا کرنا یہ لبرل ازم کا دوغلہ پن ہے اور یہ نام نہاد ’سکیولر افراد‘ کی منافقت ہے۔
دوسری جانب یہ انتہا بھی دیکھی جا رہی ہے کہ گمشدگیوں پر آج کچھ مذہبی حلقے بالکل ایسے ہی خوشی منا رہے ہیں، جیسے دو سال پہلے انتہاپسند لبرل مذہبی شخصیات کے گم ہونے پر منا رہے تھے۔ آج کے انتہاپسند یہ بھول چکے ہیں کہ انسانی اقدار، عزت و احترام، تحمل و برداشت ہر نظریہ کے بنیادی جزو ہیں۔ غیر آئینی اور غیرقانونی گشمدگی کسی کی بھی ہو، گالی کسی کو بھی دی جائے، چاہے دوست کو یا دشمن کو، اس کا ساتھ نہیں دیا جا سکتا۔
ایک وقت تھا جب پاکستان کے لبرل یا ملحد کسی کی وفات پر اظہار افسوس کرنے کے لیے جاتے تو فاتحہ پڑھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے تھے۔ آج کے لبرل اسلام سے جڑی تو ہر روایت کو مسترد کرتے ہیں لیکن موم بتی جلانے والی مسیحی مذہبی روایت کو بغیر کسی سوالیہ نشان لگائے گلے سے لگا لیتے ہیں۔
میرے خیال سے جیسے کم علم انتہا پسند مذہب کو ہائی جیک کرنے کی کوشش میں ہیں اسی طرح انتہا پسند لبرل بھی سیکولرازم کو ہائی جیک کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ایسے پیج جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کسی کو گالی دے رہے ہیں یا ایسے پیج جو سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے گالیاں دے رہے ہیں ان کا نتیجہ ایک ہی ہے، مزید انتہا پسندی، مزید انتہا پسندی مزید قتل و غارت۔
ایک دوسرا سب سے اہم مسئلہ یہ پیدا ہوا ہے کہ ہم مخالف یا کسی دوسرے کی بات سننے کے قائل نہیں رہے۔ اسی کی دہائی سے پہلے کے مذہبی رہنما اور سیکولر ایک دوسرے کی عیادت کرتے تھے، مل کر کھانا کھاتے تھے اور بڑے احترام اور عزت کے ساتھ اپنا اپنا موقف بھی بیان کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ ایسی شخصیات اب نہیں رہیں لیکن کم ہوتی جا رہی ہیں۔ بہ قول معروف شاعر جون ایلیا کے ان کی تربیت مذہبی افراد نے کی۔ اس دور میں کمیونسٹ نوجوان مذہبی اکابرین کی جوتیاں سیدھی بھی کرتے تھے اور مذہبی افرد ان نوجوانوں سے نئی مغربی کتب کے بارے میں معلومات بھی حاصل کرتے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ جوش صاحب سیکولر شخص تھے لیکن ان کے مولانا مودودی سے بھی اچھے روابط تھے۔ علمی شخصیات، چاہے وہ مذہب کی ہوں یا سیکولرازم کی وہ اب بھی تحمل اور برداشت سے بات کہنے اور سننے کا فن جانتی ہیں۔
خاموش ہو کر کسی مخالف یا دوسرے کی بات سننا بہت بڑا فن ہے۔ ایک ایسا فن جو مجھ سمیت بہت سے لوگوں میں ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ میں کچھ سیکھنا چاہتا ہوں، اس بات کا اظہار ہے کہ میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں، اس بات کا اظہار ہے کہ آپ بھی ٹھیک ہو سکتے ہیں، اس بات کا اظہار ہے کہ مجھ میں برداشت ہے، اس بات کا اظہار ہے کہ میں حرف آخر نہیں ہوں اور اس بات کا اظہار ہے کہ میرا علم محدود ہے۔ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ میرے پاس علم ہے اور میں آپ کی بات سننے کی استطاعت رکھتا ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے بات سننے اور کچھ دیر خاموش رہنے کا فن ختم ہوتا جا رہا ہے، رواداری اور برداشت کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے دوسرے کے جھوٹے خدا کو برا بھلا نہ کہنے کا بنیادی اصول دم توڑتا جا رہا ہے۔ دونوں حلقوں میں مذہبی اور لبرل حلقوں میں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مکالمہ کیا جائے۔ ہر موضوع پہ بات کی جائے، تاہم احترام کے ساتھ اور انسانیت کو مقدم رکھتے ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments