گرلز ہوسٹل کے روم نمبر تھری ڈی کے نام


\"\"

اے میرے ہاسٹل کے کمرے! سوچتی ہوں جب سے تم وجود میں آئے تب سے کتنی کہانیاں کتنے رشتے کتنی تکراریں اور کتنے ہی گرم سرد رویے دیکھ چکے ہوگے۔ بلکہ یہ سب دیکھ دیکھ کر تمھاری پرانی اور نئی نسل کا موازنہ کرنے کی بصیرت میں بھی کتنا اضافہ ہو چکا ہوگا۔ اے بے جان مٹی گارے!

جب کوئی نیا بیچ آکر تمھیں اپناتا اور اپنے طریقے سے سنوارتا ہوگا، تو تم کیسی کیسی امیدیں رکھتے ہوگے۔ ہر بار الماریاں وہی مگر سامان اور سپنے نئے نئے۔

ثروت کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے جب ہم ایک دوسرے کے منہ پر کریم مل رھے تھے تو تصویر بنانے کے لئے کھڑی تنوین کی حیرانی یاد ہے، کہ کیک بے چارہ تو پیٹ پوجا کرنے کی بجائے ایک دوجے کی بیوٹی ٹریٹمنٹ کے کام آ رہا تھا۔

اور وہ سین یاد ہے جب ہر بار عائشہ آکر میرا ہیئر کیچ نیچے کر کے بھاگ جاتی، اور میں اسے بدلہ لینے کی دھمکی دیتے ہوئے زیر لب کیسے مسکرایا کرتی۔ جب کھانے میں بوائل انڈہ ملتا تو اس پر پنسل سکیچ بناتی عائشہ کو کوئی کیونکر نہ یاد رکھے گا۔

اور تم ش م روزینہ کو کیسے بھول سکتی ہو، جو دیکھنے میں جتنی معصوم اور بے ضرر لگتی اصل میں اتنی ہی شرارتی تھی۔ اور اسی لئے اس کا نام ’شکل مومناں، کرتوت کافراں‘ کا مخفف رکھا گیا تھا۔ کاریڈور میں پتے کو ہتھیلی پر رکھ کر اس کا ایسا پٹاخہ بجاتی کہ لڑکیاں باہر نکل آتیں۔

اور میس کی وہ کھڑکی جسے کھول کر ’چا‘ کرنے پر عائشہ ککڑ نے مجھے کہا تھا کہ آپ کو دیکھ کر مجھے وہ کلاون کھلونا یاد آ رہا جو ڈبہ کھولنے پہ سر نکال کے میوزک بجاتا ہے۔ اسی کھڑکی سے جب پین باہر گرا تو اسے لینے گئے تھے اور کھٹیاں توڑی تھیں۔ آکر انہیں پانی میں مکس کر کے بنا تھا لذیز شربت۔ اے پیارے گراونڈ! شہتوت توڑتے ہوئے گر کر کھنے سکوانا تم کیسے بھول سکتے ہو؟

اور وارڈن کا بی ایس سی کو کھڈے جیسے کمرے دینے اور اس پر ہمارے احتجاج پر ہمیں رات بھر کمرے میں بند کر دینا۔ اور جب صبح پرنسپل کمرے کی حالت دیکھ کر ہمی پر برس پڑی تھیں، کیا بتاتے انہیں کہ ایک کمرے میں 10 لڑکیوں کو ’ڈک‘ دیا جائے تو صبح ایسی ہی حالت ہو سکتی ہے۔

اور سردی کی وہ رات جب پڑھ پڑھ کے پیٹ میں چوہے ناچ رھے تھے، تو نیو سے اولڈ ہاسٹل میں ایک آواز گئی تھی، عائشہ شتونگڑی!
اور وہ بولی تھی پریزینٹ!
پھر ہمیں کچن میں ایک آدھا پیڑا مل گیا تھا جسے سب کو ٹھنڈے ہوتے تندور میں لگانے کا شوق اٹھ رہا تھا۔ کسی انجان ملک کے نقشے جیسی روٹی جب بنی تو سمیرا اس سے کٹنگز نکال کر آنکھیں اور ہونٹ بنانے لگی تھی۔

آلو مٹر سنڈی گوشت کا تو کوئی ذکر ہی نہی۔ بے سرا سا کھانا بھی کھا ہی لیا کرتے تھے۔ شاید اسوقت پزا ڈلیوری کا رواج نہ تھا۔ ہمسایوں کی افطاریاں کرنا اور کسی کو ٹریٹ ملتے دیکھ کر روزینہ کا لہک لہک کر گانا کہ،
بلانا اے تے آآآآ
نہی بلانا تے جاااا

کیسے بھول سکتے ہو تم جب صائمہ روز آکر اپنا بیگ اور فائل کمرے کے ٹیبل پر رکھ کر اس کیارینجمنٹ خراب کرنے سے نہ رکی تو نتیجتا اس کا بیگ ہم نے بحق سرکار ضبط کر لیا تھا۔
ڈرامے کے دوران چپکے سے جا کر لڑکیوں کے دوپٹے آپس میں باندھ دینا۔ اور اٹھنے پر ان کے ایکسپریشنز دیکھنا۔ اور دوپٹہ باندھتے ہوئے عین اوپر سے وارڈن کا آجانا۔

دوستیاں، جیلسیاں سب کچھ کیسا جذباتی سا ہوا کرتا تھا ناں۔ اور اب۔ کوئی کہاں تو کوئی کہاں۔ زندگی نے کس کو کس سانچے میں ڈھالا بس چند کلاس فیلوز ہی کے بارے میں کچھ علم ہے۔
یہ سب پڑھ کر ہرگز بھی مت سوچئیے گا کہ ہم یہی کچھ کرنے ہاسٹل گئے تھے۔ اجی تو کیا بی ایس سی کی 9 پریکٹیکل کاپیاں آپ نے ہمیں بنا کر دی تھیں؟

اے کمرہ نمبر 3D کیسے بھلا پائیں گے تمھیں۔
فقط:عظمیٰ ذوالفقار

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments