مجسمے گرانے والے انقلابی – مکمل کالم


تین سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہیں۔ پہلا۔ کیا اخلاقی اقدار کا کوئی ایسا پیمانہ بنایا جا سکتا ہے جو آفاقی ہو اور جس پر کُل عالم کا اتفاق ہو جائے؟ دوسرا۔ کیا آج کے دور میں ایسی شخصیات کے مجسمے گرانا درست اقدام ہے جنہوں نے اپنے وقت میں غلامی اور نسل پرستی کو غلط سمجھنے کی بجائے الٹا اس کی ترویج کی ہو؟ اور تیسرا۔ کیا گوشت کے بغیر کریلے، شلجم اور بھنڈی کو اتنا خوش ذائقہ بنایا جا سکتا ہے کہ اسے کھانے کے بعد بندہ مدہوش ہو جائے؟ کشمیری نژاد ہونے کے ناتے (میری نسل پرستی کا ثبوت نوٹ فرما لیں) مجھے تیسرے سوال کے جواب سے شروعات کرنی چاہیے مگر چونکہ میں سوالوں کی ترتیب لکھ چکا ہوں تو گوشت خوروں کو ذرا صبر سے کام لینا پڑے گا۔
Black Lives Matter کی مہم بد ترین وبا کے اِس ہنگام میں بھی اپنے عروج پر ہے، میں آپ کو یہ لکھ کر بور نہیں کرنا چاہتا کہ یہ مہم کیسے شروع ہوئی، کیسے کروڑوں لوگ اِس کا حصہ بن گئے اور اب کون کون سے ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گوگل کا زمانہ ہے، موبائل فون آپ کی جیب میں ہے، انگشت شہادت کو اشارہ کریں، تمام معلومات آپ کو مل جائیں گی۔ البتہ ایک بحث جو اِس مہم کے نتیجے میں شروع ہوئی ہے اُس کا ذکر اہم ہے۔ بحث یہ ہے کہ کیا اُن شخصیات کے مجسموں کو گرانا درست ہے جو کسی نہ کسی طرح غلامی یا نسل پرستی کی توسیع اور پرورش میں ملوث رہے؟
چھ دن پہلے برطانیہ کے شہر برسٹل میں مظاہرین نے ایڈوروڈ کولسٹن کے مجسمے کو مسمار کیا۔ کولسٹن اپنے زمانے میں غلاموں کی تجارت میں ملوث تھا مگر ساتھ ہی وہ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا، برسٹل شہر میں اُس کا مجسمہ بظاہر اُس کی فیاضی کی وجہ سے ہی نصب کیا گیا تھا۔ اسی طرح سابق برطانوی وزرائے اعظم چرچل اور گلیڈسٹون پر بھی اُن کے نسل پرستانہ رویوں کی وجہ سے تنقید کی جا رہی ہے، گلیڈ سٹون کسی نہ کسی حوالے سے غلاموں کی تجارت میں شامل تھا جبکہ چرچل تو علانیہ نسل پرست تھا۔ امریکہ میں بھی اُن جرنیلوں کے مجسمے زیر عتاب ہیں جنہوں نے غلامی کے حق میں جنگ لڑی، اب عوام کا مطالبہ ہے کہ اِن مجسموں کو مسمار کیا جائے کہ یہ غلامی کے دور کی یاد گاریں ہیں۔
امریکی جریدے ’Spectator‘ میں ایک مضمون شائع ہو ا ہے جس میں مضمون نگار ساحل مہتانی نے سوال اٹھایا ہے کہ جس طرح یہ مجسمے مسمار کیے جا رہے ہیں تو کیا پھر ہم یہ سمجھیں کہ طالبان نے 2001میں بامیان بدھا کے مجسمے ڈھا کر درست اقدام کیا تھا؟ لکھاری کا استدلال یہ ہے کہ ملا عمر نے جو کام 2001 میں کیا وہی کام مغرب 2020 میں کر رہا ہے، یہ مجسمے دراصل ایک سیاسی علامت ہوتے ہیں اور کسی بھی سماج کے اقدار کا مظہر ہوتے ہیں جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سماج کن لوگوں کو احترام دینا چاہتا ہے، بامیان بدھا چونکہ افغان طالبان کے اقدار کی عکاسی نہیں کرتے تھے لہذا طالبان نے وہ مجسمے مسمار کر دیئے۔ اُس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ رویہ درست مان لیا جائے تو پھر ہمیں ہر مجسمے کو کوئی نہ کوئی محدود زندگی دینے پڑی گی کیونکہ آج کسی بھی عظیم شخصیت کے احترام میں اگرہم مجسمہ کھڑا کریں گے تو آنے والی نسل شاید اِس بنیاد پر ہی وہ مجسمہ گرا دے کہ کہ کیسے لوگ تھے جنہوں نے گوشت خور لوگوں کے مجسمے بنائے ہوئے تھے!
مجھے اِس استدلال سے کامل اتفاق نہیں ہے کیونکہ بامیان بدھا کسی ظلم کی یادگار نہیں تھے بلکہ ایک مذہب کے ماننے والوں کی برگزیدہ شخصیت کے مجسمے تھے، انہیں استعماری دور کی نشانی قرار دے کر نہیں گرایا گیا تھا بلکہ مذہبی تعصب کی بنیاد پر توڑا گیا تھا۔ تاہم یہ بات درست ہے کہ دنیا میں اخلاقی اقدار کا کوئی ایسا پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا ہے جوماضی، حا ل اور مستقبل کی تمام قدروں کا مرکب ہو اور جس پر ہر نسل اتفاق کر لے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہر نسل کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دور کے عظیم لوگوں کو اُس دور کی اقدار کے لحاظ سے پرکھ کر انہیں تعظیم دینے کے لیے مجسمہ بنانے یانہ بنانے کا فیصلہ کرے۔ اور یہ بات بھی درست ہے کہ ہر عظیم شخص میں ہر بڑائی نہیں ہوتی، بڑے سے بڑے شخص میں بھی کوئی نہ کوئی بشری کمزوری ہوتی ہے جس کا دفاع کرنا شاید ممکن نہیں ہوتا۔
مگر یہ تین باتیں درست ماننے کے بعد خاکسار کی رائے میں یہ مجسمے گرانا غلط اقدام نہیں ہے کیونکہ یہ مجسمے اُس دور کے ہیں جب غلامی یا نسل پرستی کے بارے میں فیصلہ ہو چکا تھاکہ یہ باتیں اعلی اخلاقی اقدار کے کسی بھی پیمانے پر پور ی نہیں اترتیں۔ ایڈورڈ کولسٹن 1721 میں فوت ہوا، اُس کا مجسمہ 1895 میں بنایا گیا، اِس وقت تک امریکہ میں خانہ جنگی ہو چکی تھی، با ضابطہ غلامی ختم ہو چکی تھی۔ کولسٹن کا مجسمہ اگر 1730 کے آس پاس بنایا گیا ہوتا تو شاید اسے گرانا مناسب نہ ہوتا بلکہ کسی عجائب گھر میں رکھنا بہتر ہوتا۔ اسی طرح کوئی بھی اہرام مصر کو اِس بنا پر مسمار کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ فرعونوں نے اپنے غلاموں پر ظلم کرکے بنوائے تھے کیونکہ یہ تاریخ کے اُس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب غلامی عام تھی اور ویلیو سسٹم کا حصہ تھی۔ بعینہ ایسے ہی آج آر ایس ایس کا مغل دور کی یادگاروں کو محض اِس بنیاد پر مسمار کرنے کا مطالبہ کہ یہ مسلمانوں نے تعمیر کروائی تھیں، غلط اور گمراہ کن ہے۔

آج کی تاریخ میں بہت سے ایسے لوگ زندہ ہیں جو اعلی اخلاقی اقدار کے علم بردار ہیں، مگر عین ممکن ہے کہ ایک سو سال بعد کی اخلاقی اقدار ایسی ہوں جن پر وہ پورے نہ اتریں تو ایسے میں کیا آنے والی نسل اُن کے مجسمے بھی انقلاب کے نام پر گرانے میں حق بجانب ہو گی؟جس طرح ایک زمانے میں ہم جنس پرستوں کو گناہ گار سمجھا جاتا تھا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ رویوں میں تبدیلی آئی اور انہیں فقط عجیب سی نظروں سے دیکھا جانے لگا، وقت مزید بدلا اور امریکہ اور مغرب میں انہیں قبول کر لیا گیا بلکہ اب تو ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اوربقول شخصے وہ وقت دور نہیں جب ہم جنس پرستی لازمی قرار دے دی جائے گی۔ یہی حاصل کلام ہے۔ ایک سو سال بعد کی اخلاقی اقدار تبدیل ضرور ہو چکی ہو ں گی مگر آج کے لوگ آج کی ویلیوز کے حساب سے پرکھے جائیں گے بشرطیکہ اُن کا انفرادی عمل کسی تاریخی فکری نظریے سے خلط ملط کرکے نہ دیکھا جائے۔
ایک مثال دیکھئے۔ فرض کریں کہ نوم چومسکی ایک عظیم آدمی ہے، فرض کریں کہ وہ گوشت خور ہے، فرض کریں کہ ایک سو سال بعد کا ویلیو سسٹم یہ طے کر دیتا ہے کہ گوشت خور انسان بہت ظالم تھے اور گزشتہ نسل نے ایسے انسان کو تعظیم دینے کی حماقت کی لہذا دریائے ہڈسن کے کنارے ایستادہ چومسکی کا مجسمہ گرا دینا چاہیے۔ یہ فیصلہ غلط ہوگا کیونکہ چومسکی کی عظمت کا فیصلہ اس کے افکار کی بنیاد پر کیا جائے گا نہ کہ اُس کی گوشت خوری کی بنیاد پر۔ ہاں اگر چومسکی ایسی کسی مہم کا حصہ بنے جو سبزی خوروں کی مخالف اور گوشت خوروں کی حامی ہو اور آنے والے وقت میں چومسکی کا نظریہ غلط ثابت ہو جائے تو پھر اُس کی تعظیم میں فرق آ جائے گا، لیکن محض گوشت خوری کا انفرادی عمل چومسکی کی عظمت گھٹانے کا سبب نہیں بن سکتا۔ میں نہیں جانتا کہ ایسی کسی مہم کا انجام کا کیاہوگا لیکن اگر سبزی خوروں کی مہم کامیاب ہو گئی تو میں کریلے گوشت، شلجم گوشت اور بھنڈی گوشت سے محروم ہو جاؤں گا۔ واضح رہے کہ میں دل سے شاکا ہاری ہو چکا ہوں اور یہ بات صرف ریکارڈ کی درستی کی غرض سے بیان کر رہا ہوں تاکہ آنے والی نسل کو میرا مجسمہ بنانے میں کوئی تعرض نہ ہو!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments