تازہ خان سے نمٹنے کے لئے سیاست کا دل بڑا چاہیے


\"\"

یوں تو قمر عباس صوبائی وزیر بھی رہے لیکن ان کا حوالہ سیاسی کارکن ہونا ہی تھا۔ ان کو براہ راست دیکھا تھا، ان کی تقریر سنی تھی۔ پشاور میں وہ پیپلز پارٹی کی پہچان تھے۔ پسند مجھے وہ تب آئے جب اپنے والد فارغ بخاری کی ایک ہندکو نظم سنا رہے تھے۔ کمال ادائیگی تھی، انداز تھا کہ زبان و لہجے سے پیار ہو جائے۔

تازہ خان ہمارے گھر کا فرد تھا۔ جب عقل تقسیم ہو رہی تھی تو پتہ نہیں کس بات پر اس کے عقل بانٹنے والے فرشتے سے ان بن ہوئی کہ تازہ خان نے اسے کہہ دیا زہ مڑہ اخپل کار کوا۔ جا اپنا کام کر، اب میں تم کو زندگی عقلوں بغیر ہی بسر کر کے دکھاؤں گا۔ فرشتہ اجل نے اس کی جان لینے کا بھی جو طریقہ اختیار کیا وہ غم کے ساتھ مسکراہٹ بھی لاتا ہے۔

تازہ خان سیڑھی پر کھڑا دوسری منزل پر چڑھا کھڑکی ٹھیک کر رہا تھا جب اسے نیچے سے آواز دی گئی کہ بات سننا اس نے کام چھوڑ کر قدم اٹھایا، پہلے سیدھا نیچے آیا اور وہیں سے اوپر چلا گیا۔ تازہ خان قمر عباس مرحوم کے ساتھ ایک ایسے تنازعے میں ملوث ہوا کہ جس میں پھنس کر قمر عباس بھی مدتوں ہنسا کرتے۔

ترانوے میں نوازشریف حکومت ختم ہوئی تو پتہ نہیں ایسا کیا ہوا تھا کہ ہمارا تازہ خان نوازشریف کو دل دے بیٹھا۔ میرا خیال یہی ہے کہ اس سال وہ پہلی بار ہمارے ساتھ گاؤں گیا تھا وہیں کسی کی باتوں میں آ کر یا مہمان نوازی سے خوش ہو کر اس نے میاں صاھب کو اپنا لیڈر قرار دے دیا۔

قمر عباس پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے اور ان کا مقابلہ ایک ن لیگی امیدوار سے تھا۔ اس سیٹ پر مسلم لیگ کوئی دال دلیہ کر لیا کرتی تھی لیکن حلقہ بہرحال قمر عباس ہی کا تھا اور وہی زیادہ تر جیتا کرتے تھے۔ تازہ خان نے اپنے طور پر قمر عباس کے خلاف ایک بھرپور الیکشن مہم چلائی اپنے رہائشی علاقے میں۔

الیکشن سے کوئی ایک ڈیڑھ دن پہلے اس نے مجھے بتایا کہ قمر عباس ہمارے محلے سے بری طرح ہارے گا میں نے اسے شاباش دی اور بتایا کہ چاچا جہاں تم مہم چلا رہے، قمر عباس اس سے تین حلقے دور الیکشن لڑ رہا ہے۔ پہلے تو تازہ خان نے اس کو قمر عباس صاھب کی بزدلی سے تعبیر کیا۔ پھر بیان بدل کر کہا کہ وہ ہار دیکھ کر بھاگ گیا۔

پھر مجھے کہنے لگا لیکن میں ووٹ تو شہر میں ہی ڈالتا ہوں جو جگہ اس نے بتائی وہ قمر عباس کا ہی حلقہ تھا۔ تازہ خان نے عزم ظاہر کیا کہ وہ اب قمر عباس کو چھوڑے گا نہیں۔ الیکشن کے دن اور اس کے بعد بھی ایک آدھ دن حضرت غائب رہے واپس ہوئے تو ہلکی پھلکی سوجن تھی چہرے پر۔

پوچھا کیا ہوا کہنے لگا لڑائی۔ پوچھا کس سے تو بتایا کہ قمر عباس سے اور کس سے۔ کہا کہ فوری قصہ بیان کرو۔ تو بولا یارا کچھ نہیں بس گھر والی بیمار تھا میں نے کوشش کی لیکن وہ ووٹ ڈالنے کے بھی قابل نہیں تھا جا نہیں سکتی تھی تو میں اپنی بھتیجی کو لے گیا۔ اب تازہ خان کی گھر والی چالیس سال کی تھی اور بھتیجی بارہ پندرہ سال کی۔ جعلی ووٹ ڈالتے پولیس نے پکڑ لیا اور خوب بجایا۔ تازہ خان نے بھی بھرپور پولیس مقابلہ کیا۔

تھوڑی ہی دیر میں ہنگامے کا پتہ لگنے پر دونوں امیدوار بھی پہنچ گئے۔ قمر عباس نے تازہ خان کو دیکھتے ہی اس کی عقل کا درست اندازہ لگا لیا۔ اس سے پوچھا کہ کیوں ووٹ ڈالا تو تازہ خان نے ایک تاریخی جواب دیا کہ گھر والی بیمار تھا۔ ووٹ اس کا اصلی ہے۔ اگر اس ایک ووٹ سے نوازشریف ہار گیا تو تم ذمہ دار ہے۔

قمر عباس صاھب نے کہا کہ اس کو ووٹ بھی ڈالنے دیا جائے اور اس کو چھوڑ بھی دیا جائے۔ ایک دہائی گذر گئی۔ تازہ خان ہمیں بتایا کرتا تھا کہ اس دن سے ایسا ڈرایا کہ جب بھی قمر عباس صیب کہیں دیکھ لیتا ہے تو مجھے رک کر حال چال پوچھتا ہے اور مجھ سے کام خدمت بھی پوچھتا ہے۔

لوگوں کے ساتھ رہنے والے سیاستدان لوگوں کو ان کی عقل کے مطابق ہی ڈیل کرتے ہیں کہ پبلک ڈیلنگ ہی ان کا فن ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments