عقیدت نامہ بنام پنج استادِ من


میں لکھ سکتی ہوں، مجھے پڑھا جائے گا، ایک دن لاکھوں سراہیں گے۔ یہ سب میں نے سچ پوچھیے تو کبھی سوچا نہیں تھا۔ ایک دن یوں ہی قلم اٹھایا اور کاغذ پر کچھ ٹوٹے پھوٹے آڑے ترچھے لفظ انڈیل دیے۔ ان الفاظ کو تحریر بنانے والے کچھ اور لوگ تھے اور ہیں۔ وہ نہ ہوتے تو میں آج بھی اپنے کاغذ ہاتھ میں لیے خود ہی پڑھ رہی ہوتی۔ میرے دل کی آواز دل میں ہی گونجتی اور نغمہ نہ بن پاتی۔ یہ سب میرے استاد ہیں، میرے محسن ہیں۔ کچھ قرض واجب نہیں ہوتے اور کچھ احسان اتارنے والے نہیں ہوتے۔ تو ان کے لیے بس کچھ اور لفظ آج لکھے دیتی ہوں۔ آئیے، میرے عقیدت کدے کے مکینوں سے ملیے۔

وجاہت مسعود

میرے لیے ہم سب کا پلیٹ فارم ایک درس گاہ ہے اور وجاہت مسعود اس کے پرنسپل ہیں۔ ایسے پرنسپل صاحب جو تشدد پر تو یقین نہیں رکھتے مگر اپنے الفاظ سے ہی لوگوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ وہ اپنی درسگاہ میں ہر لکھنے والے کو بلا تخصیص داخلہ دیتے ہیں اور امتحانی پرچے میں اچھی کارکردگی پر داد سے بھی نوازتے ہیں۔ میں بھی ان ہی کے اسکول کی ایک شاگرد ہوں جو کسی بینچ پر بیٹھی ان کی باتوں سے گیان حاصل کرنے کی کوشش میں لگی تھی۔ ایک دن ان کی نظر مجھ پر پڑی تو انہوں نے بڑی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بقول رامش فاطمہ کے مجھے اپنے تیرہ انمول رتنوں میں شامل کرلیا۔ جس کی وجہ سے میں ان کی بہت ممنون ہوں۔

عدیلہ راشد

یہ محترمہ انور مسعود کی بڑی صاحبزادی ہیں ان کا مشغلہ بھی خوب ہے۔ موصوفہ کو سونا اکھٹا کرنے کاشوق ہے مگر ان میں انفرادیت یہ ہے کہ یہ سونا گولڈ میڈلز کی صورت میں اکھٹا کرتی ہیں۔ بڑی بہن کے ساتھ ساتھ اچھی دوست اور استاد کی کرسی کو بھی سنبھالے بیٹھی ہیں۔ سچ پوچھو تو مجھے اپنی ماں جیسی لگتی ہے۔ میرا ہر کالم سب سے پہلے ان ہی کے پاس جاتا ہے اگر ان کی طرف سے ہاں ہو تو کالم شائع کرنے کے لیے آگے بھیجتی ہوں اور اگر کوئی کمی ان کو نظر آئے تو اس کو دور کرکے آگے بھیجا جاتا ہے۔ ان کو بس ایک ہی شکایت ہے کہ میرے کالمز پڑھ کر لوگ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ ایک صبح تین چار بجے میں نے اپنا کالم ”انیقہ خالد کا جنت سے اپنے باپ کو خط“ ریکارڈ کرکے بھیج دیا اور انہوں نے بعد از فجر اس کو سنا اور تمام دن ڈپریشن کا شکار رہیں۔ دن بھر اسی کیفیت سے گذرنے کے بعد عزت افزائی بھی ہوئی کہ کیا دنیا میں غم کم ہیں کہ تم نے لوگوں کو مزید رلانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ انہوں نے سارا دن رو رو کے گذرا ہے۔ بس ان کی یہ ہی بات ایسی دل کو لگی اور پھر پکا ارادہ کر لیا کہ آئندہ الصبح کالمز بھیجنے کے بجائے بعد از عصر بھیجا جائے گا تاکہ دن اچھا گذر جائے۔

عدنان کاکڑ

ہمارے حساب سے یہ ہم سب کی کلاس کے ہیڈ ٹیچر ہیں۔ میں اپنی خوش نصیبی پر نازاں بھی ہوں اور ان کی شکر گزار بھی کہ مجھےایک اچھے استاد کے زیر سایہ بیٹھنے کا موقع ملا۔ بلا ناغہ اپنی جماعت کو سب سے پہلا سبق یہ دیا جاتا ہے کہ آج تم جو کچھ بھی ہو میری وجہ سے ہو اگر میں تم لوگوں کی سرپرستی نہ کرتا تو تمہارا کیا ہوتا۔ اس لیے ان کی کلاس کا ہر بچہ بڑی خاموشی سے ان کے وہ قصیدے سنتا ہے جو وہ خود ہی لکھتے اور گنگناتے رہتے ہیں۔ ان میں یہ قابلیت ہے کہ اگر کوئی ان کے لکھے کی تعریف کر دے تو وہ ہمیشہ اس تعریف کرنے والے کو اس بات پر قائل کر لیتے ہیں کہ اس نے تعریف میں کنجوسی سے کام لیا ہے۔ ان کی تحریروں سے عیاں ہے کہ وہ نہایت ہی خوش مزاج انسان ہیں۔ جو زندگی کے کسی بھی پہلو پر طنزومزاح کا تڑکا لگا کر کالم لکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان میں کالمز لکھنے کی اتنی صلاحیت ہے کہ عین ممکن ہے کہ اگلے سال ان کے کالمز کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کر جائے اور ہم سب ان کی اس کامیابی کا جشن منا رہے ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب کی کامیابی کا ہر سہرا ان ہی کے سر سے ہو کر گذرتا ہے۔ یہ واقعی بڑے استاد آدمی ہیں (برائے مہربانی اس جملے کا غلط مطلب نہ لیا جائے)

حاشر ابن ارشاد

ویسے تو یہ گھر کے پیر ہیں اور محاورے میں گھر کے پیروں کو خالص گھی کے حلوے وغیرہ کی بجائے تیل کا ملیدہ دینے کی روایت بیان کی گئی ہے، مگر ان کے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہیں تھا ان کو میں اس آسمان کا درجہ دیتی ہوں جس کے زیرسایہ تمام عمر سیکھنے کا عہد کر چکی ہوں۔ ان کے بارے میں زیادہ نہیں لکھ سکتی کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گھر میں ہی میری کلاس ہو جائے۔

عمار مسعود

یہ وقت بھی مجھے دیکھنا نصیب ہونا تھا۔ جن دو (عمار اور حاشر ) افراد سے لڑتے لڑتے میرا بچپن گذرا۔ آج ان ہی کے گن گا رہی ہوں۔ بچپن کے مار کٹائی سے بھرپور دن جس میں حاشر صاحب نے بچپن میں میرے بال خوب کھینچے اپنی اماں کے خوف سے شاید میرے بال پوٹنے ( بچپن میں کھینچنے کو پوٹتا کہتی تھی) کی خواہش پوری نہیں ہو سکی اسی لیے مجھے سے شادی کر لی اور اب وہ اپنے ہی بال پوٹتے پھرتے ہیں۔ عمار اور حاشر دونوں ہی عمر میں مجھ سے بڑے ہیں لہذا مار کٹائی میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔

لیکن اللہ کی کرنی یہ ہوئی کہ بچپن میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب میرا قد دونوں حضرات سے کوئی فٹ کے لگ بھگ دراز ہوگیا۔ بس اسی قد کی بدولت جب کبھی اپنے دل کی بھڑاس نکالنی ہوتی تو ان کی من پسند چیز اٹھا کر اپنا بازو آسمان کی طرف بلند کر دیتی اور پھر یہ دونوں چھلانگیں مارتے رہ جاتے۔ ان دونوں کو اچھلتا دیکھ کر بڑا اطمینان قلب نصیب ہوتا۔ جس جس طرح ان کا قد بڑھا میری نظروں میں ان کا رتبہ بھی بڑھتا چلا گیا۔ عمار ایک بھائی سے دوست اور دوست سے استاد کے درجے پر فائز ہوگیا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کامیابی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی میں عمار کو بھول جاوں۔ عمار نے واقعی بھائی ہونے کا حق ادا کیا۔ عمار نے اس لینہ کی انگلی پکڑی جو اپنے اندر ہی گم سم ہو کر رہ گی تھی۔ جو اپنی ڈائری کے اوراق پر لکھے لفظوں کو اپنے تک ہی محدود رکھنے کی قائل تھی۔ ایک لینہ وہ تھی جو اپنی ہر تحریر کو لفظوں سے بن کر بڑی احتیاط سے اپنے دل میں جمع کروا دیتی تھی اور بس اسی پر خوش ہو لیتی تھی۔ عمار نے مجھے اپنے گرد کے خول سے باہر آنے پر آمادہ کیا پھر وہ میری چھوٹی چھوٹی تحریروں پر اتنی شاباش دیتا کہ میرا قلم نئی تحریر لکھنے کے لیے بے تاب ہو جاتا۔ وہ مجھے لکھنے کے گر سکھاتا، لفظوں میں جان ڈالنے کے ہنر سے آشنا کرتا، لکھنے والے قبیلے کے لوگوں سے میرا تعارف کرواتا اور میں ایک اچھے شاگرد کی طرح محنت کرتی رہی اور پھر بیج سے درخت پھوٹا، درخت ثمر بار ہوا اور آج نہال ہے۔ اس کی سب سے پیاری بات جو میں نے پلے باندھ لی کہ انسان تمام عمر سیکھنے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ تو وعدہ کہ سیکھنے کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments