سی آر اسلم۔۔۔ یہ شہر تمام اندوہ میں ہے


15 جنوری سی آر اسلم کا جنم دن ہے۔ پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کے یہ عظیم رہنما 15 جنوری 1913 کو پیدا ہوئے تھے۔ 10 جولائی 2007ء کو وفات پائی۔ محترم سی آر اسلم کے انتقال پر درویش کی تحریر کردہ تعزیتی سطور پڑھنے والوں کے لئے حاضر ہیں۔۔۔۔ یہ تحریر  بی بی سی اردو آن لائن پر 12 جولائی 2007 کو شائع ہوئی۔

\"\"دس جولائی 2007 کا دِن خوشگوار نہیں رہا، ایک طرف اسلام آباد میں دن بھر لاشیں گرتی رہیں کانوں میں دھماکے اور نتھنوں میں بارود کی اس سوختہ نصیب بو کے بھبھکے آتے رہے جو موت کی عمل داری کا سندیس لاتی ہے تو اسی شام لاہور کے تاریخی ٹمپل روڈ کی خاموش گلی پارک لین کے ایک خستہ حال مکان میں 94 سالہ سی آر اسلم نے زندگی اور یاروں سے پیمانِ وفا ختم کر دیا۔

پاکستان میں مزدوروں، کسانوں اور افتادگانِ خاک کے حقوق کے لیے ایک صدی پر محیط داستان کی آخری سطریں بہت خاموشی سے تحریر ہوگئیں۔

سیاست کے سینے میں دِل نہیں ہوتا اسی طرح صحافت کی لغت میں ٹکسالی معیار نہیں، سنسنی کا سکہ چلتا ہے۔ عبدالرشید غازی کی موت ایک چنگھاڑتی ہوئی سرخی ہے، ادھر سی آر اسلم کی زندگی قرینے، استقامت اور بصیرت سے عبارت تھی۔ اعلٰی فنی شاہکار بہت خاموشی سے تکمیل کو پہنچتے ہیں اور بہت دیر تک زندہ رہتے ہیں۔

سی آر اسلم ایسے سیاسی رہنما تھے جو چکاچوند مناصب کے تام جھام کو تو نہیں پہنچتے لیکن ان کی ریاضت اور مساعی سے قوموں کا تاریخی کردار اور اجتماعی روایت تشکیل پاتے ہیں۔

انیسویں صدی کی آخری دہائی میں انگریزسرکار کی پیش بینی اور سرمالکم ڈارلنگ کی فنی مہارت کے نتیجے میں پنجاب میں آب پاشی کے لیے نہری جال بچھایا گیا تو زیر کاشت آنے والے علاقوں میں آ کر آباد ہونے والوں میں جالندھر کے محمد اولیا بھی تھے جو شیخو پورہ کے قریب شاہ کوٹ میں آباد ہوئے۔ یہیں ان کے بیٹے چودھری رحمت اللہ جو سیاسی حلقوں میں سی آر اسلم کے نام سے جانے گئے، 15 جنوری 1913 کو پیدا ہوئے۔ حسن اتفاق ہے کہ پنجاب میں کسانوں کے ایک اور بے مثل رہنما شیخ محمد رشید بھی شیخوپورہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔

سی آر اسلم نے میٹرک کی تعلیم 1930 میں سانگلہ ہل کے گورنمنٹ ہائی سکول سے مکمل کی۔ شفیق استاد عبدالحکیم کی توجہ سے کچھ روز\"\" مشرقی علوم بالخصوص فارسی شاعری کی طرف میلان رہا۔ منشی فاضل کا امتحان پاس کیا مگر باقاعدہ تعلیم کاتسلسل قائم رہا اور 1936 میں قانون کی تعلیم مکمل کرلی۔

ان دنوں پنجاب کی سیاسی فضا پر اقبال کی قد آور شخصیت کی چھاپ ایسی تھی کہ اس سے بچ نکلنا محال تھا۔ نوجوان سی آر اسلم طالب علم سیاسی ساتھیوں عبدالستار نیازی، شبّر حسن اور حمید نظامی کے جلو میں حضرت علامہ کی مجلسوں میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے تھے۔ اسلامیہ کالج لاہور کے ان طالبعلموں نے مل کر ریلوے روڈ پر ایک مکان کرائے پر لیا جسے’یاغستان‘ کا نام دیا گیا۔ یہاں دن رات ادبی، سیاسی اور صحافتی مباحث گرم رہنے لگے۔ سی آر اسلم کے ذوق نے ایسی ترقی کی کہ کلام اقبال سے ’نوائے وقت‘ کی ترکیب مستعار لے کر ایک ہفت روزہ کا ڈیکلریشن لے لیا۔ روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے موجودہ رنگِ صحافت کو ذہن میں رکھیں تو یہ تاریخ کی ستم ظریفی معلوم ہوتی ہے کہ ’نوائے وقت‘ کے پہلے ناشر اور مدیر سی آر اسلم تھے۔

دوسری عالمی جنگ سر پر کھڑی تھی۔ فاشزم کی مخالفت اور قومی آزادی کے خواب اس نسل کے آدرشوں پر یوں مرتسم تھے کہ یہ لوگ گویا اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ جنت کو چھو رہے تھے۔ مارکس اور لینن کی دو تین کتابیں سی آر اسلم کے ہاتھ لگ گئیں جن کے مطالعے سے پنجاب کا ایک دیہاتی مسلمان روشن خیال اور انسان دوست عالمی شہری بن گیا۔

1940 میں آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کی۔ اجے کمار گھوش، سردار تیجا سنگھ سترتن اور فیروزالدین منصور جیسے جید علماءکی رہنمائی میں یہ ذہنی کایا کلپ ایسی دیرپا تھی کہ اگلے ستر برس سی آر اسلم انسانی وقار اور مساوات کے مورچے پر ڈٹے رہے۔

آبائی پس منظر اور رجحان طبع کا تقاضا تھا کہ سی آر اسلم کسانوں میں کام کرتے۔ پارٹی نے انہیں محنت کشوں کی تنظیم کا کام سونپ دیا۔ ایک بائیسکل ان کے پاس تھی، انتظامی صلاحیت کی کمی نہ تھی، جذبہ فراواں تھا۔ ٹریڈ یونین سرگرمیاں سی آر اسلم کو1948 میں پسِ دیوار زنداں لے گئیں۔ دانیال لطیفی کا تحریر کردہ مسلم لیگ کا منشور از کارِ رفتہ ہو چکا تھا۔\"\"

پھر 8 مارچ 1951 کوجنرل ایوب کی مدوّن کردہ کہانی کے طفیل ’راول پنڈی سازش کیس‘سامنے آیا۔ مفروضہ فوجی سازش کا یہ ناٹک گویا جان فاسٹر ڈلس کی عالمی صف بندی کا پیش خیمہ تھا۔ دو دن بعد پنجاب کے صوبائی انتخابات منعقد ہونا تھے جن میں پہلی بار ’جھرلو‘ کی اصطلاح سامنے آئی۔ ’ جھرلو‘ انتخابی بدعنوانی میں باریک نقش کاری کو کہتے ہیں۔ اس شعبے میں ہماری فنی مہارت اب درجہ کمال کو پہنچ چکی ہے۔

اندھا دھند گرفتاریوں کی لہر میں سی آر اسلم، سبط حسن اور دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ اسی کوٹھری میں رکھے گئے جہاں بھگت سنگھ کو قید کیا گیا تھا۔ یہیں حسن عابدی نے لکھا تھا:

کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے

ہائے کیا لوگ تھے زنداں میں بھی ہم سے پہلے

سی آر اسلم نے1953 میں شادی کی۔ ان کے جڑواں بچے قیس اور سفیان پیدا ہوئے تو قتیل انسانیت سی آر اسلم پھر سے نظر بند تھے۔ سنہ 1948 سے54 تک سی آر اسلم نے جہاں نما، سحر، سازِ نواور نیا وطن کے نام سے یکے بعد دیگرے کئی ہفت روزہ اخبار نکالنا چاہے مگر سرکار کی مہربانی مسلسل تھی اور عتاب بے اماں۔ تنگ آکر انہوں نے مختلف اخبارات کے جزوی حصے خرید کر اپنا کام جاری رکھا۔

1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی تو نیشنل عوامی پارٹی کے بھاشانی گروپ میں شامل ہوئے۔ اس دھڑے کے مغربی پاکستان میں \"\"مرکزی رہنما تسلیم کیے جاتے تھے مگر نظریاتی اصابت کا یہ عالم تھا کہ پیکنگ اور ماسکو کی تقسیم کے خلط مبحث میں نہیں الجھے۔ سنہ 60کی دہائی کے آخری برسوں میں ویت نام اور کیوبا جیسے ممالک میں خیال پیدا ہوا کہ روس چین مناقشے میں چین کا ساتھ دیا جائے۔ سی آر اسلم کا بین الاقوامی محنت کش سیاست میں یہ مقام تھا کہ وہ اس کوشش کے مویدین کو اس اقدام سے باز رکھنے میں کامیاب رہے۔ 1969 میں ہفت روزہ عوامی جمہوریت شروع کیا جو ان کے آخری سانس تک جاری رہا سوائے ایک موقع کے جب سی آر اسلم نے بلوچ قوم پرستوں کی حمایت میں’خدارا پاکستان کو بچا لیجئے‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا۔ پاکستان بچانے کا مطالبہ ایسی تخریب کاری سمجھا گیا کہ عوامی جمہوریت پر پابندی لگا دی گئی۔

بھٹو صاحب ڈاکٹر مبشر حسن کے توسط سے سی آر اسلم کو پیپلز پارٹی میں لانے کے لیے بھی کوشاں رہے مگر وہ اِس دام میں نہیں آئے۔

1969 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس کے بعد سی آر اسلم کی زندگی کا نمایاں ترین کام خانیوال سے چنی گوٹھ اور اوکاڑہ سے گوجرانوالہ تک کسان کانفرنسیں منعقد کرنا تھا۔ بھٹوصاحب سے ان کا سیاسی اور فکری اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کی سیاسی دیانت داری اور وضع داری کا یہ عالم تھا کہ ضیاالحق کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی سی آر اسلم نے اس شدو مد سے فوجی اقتدار کی مخالفت کی کہ پیرانہ سالی میں جیل پہنچ گئے۔

جماعتی وابستگی سے قطع نظر سی آر اسلم کا پاکستان کے ہر سیاسی کارکن سے ذاتی تعلق تھا۔ ان کے گھر کے دروازے سب کے لیے کھلے \"\"تھے اور ان کے علم سے استفادہ گویا ہر سیاسی کارکن کا استحقاق تھا۔ غوث بخش بزنجو، محمود قصوری اور قسور گردیزی سے بے تکلف مراسم تھے مگر عملی سیاست میں ان کے دست و بازو مطلبی فرید آبادی اور میاں محمود تھے۔ عابد حسن منٹو سے بھی طویل تعلق رہا لیکن دونوں کی افتادِ طبع کا فرق وارفتگی کو جگہ نہیں دیتا تھا۔

سنہ 1980 کی دہائی میں عابد منٹو صاحب نے ورکرز پارٹی بنالی۔ اب سی آر اسلم عمر کے اس حصے میں تھے کہ سرگرم سیاست کے تقاضے نہیں نبھا سکتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے سوویت یونین کے سیاسی انہدام کے بعد افتادگان خاک کی سیاسی شناخت برقرار رکھنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ 1999 میں پاکستان نیشنل ورکرز پارٹی وجود میں آئی تو اس کی مرکزی کمیٹی میں شامل تھے۔

10 جولائی2007 کی شام سی آر اسلم نے آنکھیں موند لیں۔ ان کے ساتھ ہی گویا دادا امیر حیدر، فیروزالدین منصور، قربان الٰہی، میاں محمود، قسور گردیزی اور حبیب جالب کی روایت اپنے اختتام کو پہنچی۔ دِگر دانائے راز آید نہ آید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments