بلبل کو اندھیرے کی سزا کیوں ملی؟


\"\"کسی پڑھے لکھے دوست سے سنا تھا کہ اندھیرے کا کوئ وجود نہیں ہوتا، روشنی کا نہ ہونا اندھیرا کہلاتا ہے۔ اندھیرا خود کچھ بھی نہیں۔ میں حیران تھا کہ اندھیرا سرے سے ہوتا ہی نہیں؟ اُس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؟

بات تھی تو معقول اور ہر عقل مند کو سمجھ میں بھی آنی چاہیے تھی، مگر میری حیرانی کی وجہ کچھ اور تھی۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب ہر شام سورج ڈوبتا ہے تو رات آتی ہے اور رات اپنے ساتھ کالا اندھیرا لاتی ہے۔ کئی بھوکے بھڑیوں کا دن اس اندھیرے ہی سے تو شروع ہوتا ہے، جُھنڈ کے جھنڈ بھڑیوں کے، رال ٹپکاتے بھڑیے، نہ جانے کہاں ہوتے ہیں یہ دن میں، اجالے سے کیسی وحشت تھی ان کو؟ بس رات کی  کالی چادر اوڑھے ٹولیوں میں شکار کے لیے نکلتے تھے۔

عجیب سحر تھا اندھیرے کا، شکار گاہ  پر بھی خوب جادو تھا اندھیرے کا، بڑی شان و شوکت سے سجتی تھی شکارگاہ، ہرنیاں بن ٹھن کر شکار ہونے کا انتظار کرتیں، اندھیرے کا سحر ایسا تھا کہ شکار شکاری کا انتظار کرتے، شکاری کو کوئی تکلیف نہ ہو اس کا پورا انتظام کیا جاتا اور اندھیرے ہی اندھیرے میں  آبرووں کا شکار ہوتا۔ بھڑیے آبرو کا شکار قیمت کے ہتھیار سے کرتے اور بڑی شان و شوکت سے اندھیرے اندھیرے میں ہی گم ہو جاتے ۔

اندھیرے میں ناجانے کیا سے کیا ہوتا، کئی بے چاری بلبلیں ریاکاریوں کا شکار ہوتیں۔ ان کا شکار بازکرتے۔ بلبل کا جنگل کے قانون کے مطابق باز سے نکاح کرایا جاتا۔ بے چاری بلبل  نہ چاہتے ہوئے بھی رات کے اندھیرے میں باز کے لیے سجتی، ہائے رات کا جادو بیچاری بلبل ہر رات دلہن بنتی، باز رات میں آتا اور بلبل کا شکار کرتا، پر بلبل پر تو رات کا جادو نہیں تھا؟ اور نہ ہی وہ ہرنیوں کے قبیلے سے تھی، ہاں مگر باز تو بھڑیے کا دوسرا روپ تھے، فرق صرف اتنا تھا کہ باز دن میں اڑتے اور شکارصرف بلبل کا ہی کرتے، جبکہ بھڑیے کو صرف شکار سے مطلب تھا  بلبل ہو یا ہرن اُس کو ہر رات اپنی پیاس بجھانے کے لیے شکار درکار تھا۔

سسکیوں بھری بلبل کی رات کا اندھیرا، کھنکھناتی چوڑیوں کی آواز کا اندھیرا، اکتائی ہوئی بلبل کا اندھیرا، باز کی ہوس کا اندھیرا، لٹتی ہے کئی بار بلبلوں کی آبرو اس اندھیرے میں، بس بلبل کی آبرو کی قیمت نہیں ہوتی، باز جو اُس کی حفاظت کا ڈھونگ رچائے بیٹھا تھا، اُس کو بس باز ہی اندھیرے میں لوٹتا۔

مگر اندھیرا تو ہوتا ہی نہیں؟ پھر اُس کا جادو کیسے ہوگا ؟ بھڑیے کی مکاری کیسی؟ ہرنیوں کا سجنا، باز کا شکار اور بلبل کی بیچارگی، یہ سب اندھیرے کا جادو تو تھا، بڑی کھوج کے بعد معلوم ہوا کہ بھڑیے تو دن میں جنگل کے کرتا دھرتا تھے، وہ تو بازکے بھی آقا تھے، دن میں باز اُن کے غلام تھے۔ کئی بازوں نے تو جنگل میں منصب حاصل کرنے کے لیے بھڑیوں کو اپنی بلبلیں بھی پیش کی ہوئیں تھیں اور انہی بھڑیوں نے دن میں ہرنیوں اور بلبلوں کی عزت کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی کر رکھی تھی، بھڑیے اپنے ہی خلاف روشنی میں قانون بناتے، منصف بھی خود تھے مجرم بھی خود تھے، کیا غضب کا جنگل ہے۔

اگر اندھیرے کا جادو نہیں تھا تو یہ بھڑیے اجالے میں کیسے منصف بن جاتے؟ باز شکار کے بجائے رزق حلال کے حصول کے لیے کیوں اُڑانیں بھرتا، چکر کیا تھا؟

کسی سیانے نے کہا تھا کہ دوزخ میں آگ نہیں ہے، سب اپنی آگ لے کر جائیں گے۔ ٹھیک اُسی طرح میں نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیا کہ اندھیرا نہیں ہوتا، بس سب اپنے اندر کا اندھیرا جب سامنے لاتے ہیں تو روشنی شرما کر چھپ جاتی ہے اور اندرکے اندھیرے اپنے آس پاس سب کو اندھیرے میں لے جاتے ہیں، مگر بیچاری بلبل۔۔۔ اُس کے اندر تو اندھیرا نہیں، پر اُس کا قصور یہ ہے کہ اُس نے باز کو اپنا محافظ بنایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments