روہی سے وادی بولان تک…. آزادی ٹرین (2)


  سمہ سٹہ\"\"

ٹرین رات سوا آٹھ بجے سمہ سٹہ ریلوے جنکشن پر پہنچ گئی۔ سمہ سٹہ جنکشن جو قیام پاکستان سے قبل بہت مصروف ریلوے اسٹیشن تھا۔ اس رات اس کے اسٹیشن ماسٹر سعید اختر بتارہے تھے کہ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی تک کراچی سے آنے والے مسافروں کے لیے براستہ بہاولنگر، میکلوڈ گنج ، فورٹ عباس اوربٹھنڈہ مختصرراستہ تھا اور یہ لائن دہلی لائن بھی کہلاتی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ میٹرک کا امتحان وایا بٹھنڈہ پاس کرنے والا محاورہ بھی شاید اسی گزر گاہ کے حوالے سے بنا ہو گا۔ سعید صاحب کا کہنا تھا کہ اس ریلوے لائن کے ذریعے متعدد مسافرریل گاڑیاں ہندوستان سے تقسیم کے وقت مہاجرین کو لے کر سمہ سٹہ پہنچ کر کراچی یا لاہور کا رخ کرتی تھیں\"\" اور میں چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ جونہی کوئی مسافر ٹرین ہندوستان سے مسلمانوں کو لے کر پاکستان کی حدود میں داخل ہوتی تو فضا پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی اور لاکھوں مسلمان پاک سر زمین پر اترتے ہی شکرانے کے نفل ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے آگے سر بسجود ہو جاتے ہوں گے۔ کیا روح پرور اور ایمان افروز منظر ہو گا۔ اور اگر آج بھی ہم ان لاکھوں شہید ہونے والوں اور پاکستان کے لیے اپنا گھر کاروبار عزیزو اقارب اورآبائی علاقے ہندوستان میں چھوڑ کر آنے والے مسلمانوں کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں تو اقوام عالم میں پاکستان کا نام ہمیشہ سر بلند رہے گا۔

\"\"سعید صاحب کا کہنا تھا کہ سابقہ ریاست بہاول پور کی حدود میں قائم ریلوے اسٹیشن کی عمارات برصغیر کے دیگر ریلوے اسٹیشن کی عمارات کے برعکس مسلم طرز تعمیر کا مرقع ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ تقسیم سے قبل بھی بہاول پور کی ریاست کا اسلامی ریاست ہونا تھا جس کے باعث انگریزوں نے ان عمارات کی تعمیر مسلم طرز تعمیر کی مناسبت سے گنبد نماعمارات کی صورت میں کیا۔ سعید صاحب سے ابھی گفتگو جاری تھی کہ آزادی ٹرین کے سفری طعام خانے (ڈائیننگ کار) میں تعینات خوبصورت نیلی وردی میں ملبوس ایک اہلکار نے رات کے کھانے کا بلاوا دیا۔ ڈائینگ کار پہنچ کر معلوم ہوا کہ محکمہ ریلوے نے جدید سہولیات بشمول مائیکروویواون ، فریج ، کوکنگ رینج اور واٹر ڈسپنسر سے مزین یہ خصوصی ڈائینگ کارتیار کی ہے جو ہر بڑی مسافر گاڑی کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ اور آزادی ٹرین کی ڈائیننگ کار کی انتظامیہ نے ہفتہ وار خصوصی مینو ترتیب دیا ہوا تھا۔ جو روایتی نان چنے، فرنچ ٹوسٹ یا سلائس بمعہ جام و مکھن فرائی انڈے کے ناشتے سے لے کر چکن و مٹن قورمہ ، کوفتے ،چکن بریانی، سبزی، چنا پلاﺅ اور بھگار والی دال سمیت شام کی چائے \"\"پر مشتمل تھا تاکہ آزادی ٹرین کے مسافروں کو سفرمیں گھر کی کم سے کم یاد آئے ویسے یہ ٹرین عام مسافر ٹرین سے مختلف تھی کیونکہ اس میں عام مسافر سوار نہیں ہو سکتے تھے۔ بلکہ یہ ٹرین 2 حصوں پر مشتمل تھی ایک حصہ ٹرین کے انتظامی عملے، پاکستان نیشنل کونسل آف پاکستان کے طائفہ کے اراکین جن میں چاروں صوبوں کی ثقافت اورموسیقی کو اجاگر کرنے والے لوک فنکار، موسیقار، سازندے بچوں کے لیے پتلی تماشہ پیش کرنے والے پتلی گھر کے اراکین، ریڈیو پاکستان، اے پی پی، آزادی ٹرین کی حفاظت پر مامور محکمہ ریلوے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے لیے ائیر کنڈیشنڈ کوچز اور ایک بوگی سفری طعام خانے پر مشتمل تھی جبکہ چھ بوگیاں آرٹ گیلریز اورچھ اوپن فلوٹس کے لیے مخصوص تھی اور یوں یہ ٹرین تقریباَ 14 بوگیوں پر مشتمل تھی اور دراصل ایک موبائل MINI PAKISTAN تھی جو ملکی یکجہتی بین الصوبائی ہم آہنگی اور اتحاد کی حقیقی معنوں میں چلتی پھرتی تصویر تھی۔۔۔۔ (جاری ہے)

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments