مذہب اپنا اپنا، پاکستان سب کا


\"\"وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’میں صرف مسلمانوں کا وزیراعظم نہیں ہوں بلکہ ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی اور بہائی سمیت تمام مذاہب کے ماننے والوں کا وزیر اعظم ہوں۔ ہمارا رب، رب المسلمین نہیں بلکہ رب العالمین ہے۔ بابا بلھے شاہ فرما گئے ہیں کہ مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے تے ڈھا دے جو کجھ ڈہندا پر ا ک دل بندے دا نہ ڈھائیں رب دلاں وچ رہندا۔ پگڑی والے ہوں یا ننگے سر داڑھی والے، داڑھی والے اور بغیر داڑھی والے، مسلمان ہوں یا غیر مسلم، میں سب کی خوشیوں میں شریک ہوتا ہوں۔ اپنے ہندو بھائیوں سے کہتا ہوں کہ مجھے دیوالی کی تقریبات میں بلایا کرو میں ہندو تہوار ہولی میں آئوں گا تو مجھ پر بھی رنگ پھینکا جائے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو عالمی سطح پر اقلیت دوست ملک کی حیثیت سے پہچانا جائے گا‘‘۔

وزیراعظم نواز شریف نے ہندوئوں کے تاریخی مقدس مقام ’’کٹاس راج مندر‘‘ میں منعقدہ خصوصی تقریب میں یہ بھی کہا کہ نہ صرف یہاں کٹاس راج مندر کی شایانِ شان تعمیر نو اور تزئین و آرائش کی جائے گی بلکہ اقلیتوں کے دیگر اہم مقامات بشمول بابا گورونانک یونیورسٹی اور گندھارا یونیورسٹی کی تعمیر میں بھی ہر ممکن معاونت کی جائے گی۔ تاریخی طور پر کٹاس راج مندر بڑی اہمیت کا حامل ہے جو چار تہذیبوں کا سنگم یا گہوارہ رہ چکا ہے جن میں ہندو، بودھ، سکھ اور مسیحی چاروں مذاہب کے تہذیبی اثرات نمایا ں ہیں یوںیہ مقام پانچ ہزار سالوں کی طویل تاریخ کا حامل ہے۔

متحدہ ہندوستان کے یہ خطے جو آج کے پاکستان میں شامل ہیں پارٹیشن سے قبل بھی ان کی تہذیبی اہمیت واضح رہی ہے۔ اگر انڈس ویلی سے انڈیا بنتا ہے تو پھر اصل انڈیا تو ہم ہیں۔ یہاں موہنجودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں ہی نہیں رہیں بلکہ دنیا کی معروف گندھارا تہذیب و ثقافت کا بھی یہ گہوارہ رہا ہے۔ ٹیکسلا کی تہذیب میں اشوکا اور گریٹ بدھا کی تہذیبی یادگاریں اگر آج اپنی اصلی حالت میں بحال کی جائیں تو عالمی سیاحت کے لئے اس میں بڑی کشش ہے۔ ہمیں گندھارا تہذیبی مقامات پر بدھا کے اسٹوپاز ملاحظہ کرنے کے مواقع ملے ہیں اور دو بار کٹاس راج مندر کی بھی یاترا کی ہے۔ بھگوان شیوا جی کی یہ یادگاریں محض ایک مندر نہیں مندروں کا ایک تسلسل ہیں۔ ضلع چکوال میں کلرکہار سے مشرق کی جانب کوئی دس میل کے فاصلے پر خوبصورت سٹرک کے کنارے ڈیڑھ ہزار سال سے ایستادہ ان مندروں کی کہانیاں پانچ ہزار سالوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ہندو متھ کے مطابق اپنی شریک زندگی ستی دیوی کی تڑپ اور جدائی میں بہنے والے بھگوان شیوا جی مہاراج کے یہ آنسو ایسے امر ہوئے کہ صدیوں پر صدیاں گزرتی گئیں لیکن آنسوئوں کی برسات سے رواں ہونے والا یہ چشمہ جل کبھی خشک نہیں ہوا اور آج صاحبِ فطرت نے یہ سعادت وزیراعظم نواز شریف کے نام لکھی کہ وہ یہاں آئیں اور اس تاریخی مقدس امرت دھارا کو جدید واٹر فلٹریشن پلانٹ میں بدل دیں۔

یہاں ہم چوہدری شجاعت حسین کا بھی ذکر کرنا چاہیں گے کہ انہوں نے بھی اس حوالے سے اچھی کاوشیں کی تھیں اور ایک طرح سے اس کا م کا آغاز کیا تھا جس کی تکمیل وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں ہونے جارہی ہے۔ ہم یہاں وزیراعظم کی توجہ اس طرف بھی مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ تاریخی مقامات کو ہر جگہ قبضہ گروپوں کی دہشت کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو سخت پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ کمزور حکومتوں کے لئے بڑے یا سخت اقدامات مشکل ہوتے ہیں اس لئے ہماری اپنے میڈیا سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس امر میں جمہوری حکومت کو مستحکم کرے۔

اب ہم وزیراعظم کی اصل بات پر آتے ہیں یہ کہ مذہب اپنا اپنا ہے لیکن انسانیت ہم سب میں سانجھی ہے۔ یہ بالکل ٹھیک بات ہے انسانیت میں ہم سب ایک ہیں جدید قومی ریاستوں کی بنیاد ہی اس اصول پر ہے کہ مذہبی، نسلی جنسی یا لسانی تفاوت جتنے بھی ہوں جب کسی بھی ملک کی شہریت حاصل کر لی تو آپ برابر کے شہری ہیں اور کسی شہری کے ساتھ کسی بنیاد پر بھی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا دیگر جتنے بھی اور جیسے بھی اختلافات ہوں گے، انہیں ابھارنے یا نمایاں کرنے کی بجائے مشترکہ اعلیٰ اقدار کو اجاگر کیا جائے گا۔ مذہبی اختلافات ہوں یا دوسرے، رواداری، برداشت اور تحمل سے کام لیا جائے گا۔ ایک دوسرے کی خوشیوں غمیوں میں شریک ہوا جائے گا کہ یہ کسی بھی سماج یا قومی ریاست کی تہذیبی اقدار ہیں قیامِ پاکستان کے بعد قائد ؒ کا بھی یہی سیاسی فلسفہ تھا اور اسی کا اظہار ہمارے وزیراعظم وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی یا بے گناہ اقلیتی افراد کو قتل کیا گیا تب بھی وزیراعظم نے یہ کہا کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان پر تمام اقلیتوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا اکثریت کا۔ وزیراعظم کو کافی سخت بیانات کا سامنا کرنا پڑا اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو ماڈریٹ لبرل اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔

اس تمام تر شکر و سپاس کے باوجود ہم یہاں اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ہنوز دلی دو راست۔ دنیا میں فی الوقت پاکستان کی پہچان ایک روادار ریاست کی حیثیت سے قطعی نہیں ہے۔ اپنے قریب ترین ہمسایہ انڈیا کے ساتھ ہمارے تعلقات اس سطح کے نہیں ہیں جس کا خواب قائداعظم اور مفکر پاکستان علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ قائد نے کہا تھاکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس طرح کے ہوں گے جس طرح کے امریکا اور کینیڈا کے ہیں جبکہ علامہ اقبال نے تو اس سے بھی بڑھ کر کہاکہ انڈیا کے شمال مغرب میں بننے والی یہ وحدت پورے ہندوستان کے لئے محافظ وحدت کا رول ادا کرے گی۔ ہندوستان پر ہمیشہ اسی جانب سے حملے ہوئے ہیں، یہ وحدت ان حملوں کو روکے گی جبکہ آج حالت یہ ہے کہ’’ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش‘‘ ہمارا برادر ہمسایہ ملک افغانستان ہم سے نالاں ہے۔

اندرون ملک بھی حالات کہیں مثالی نہیں ہیں عدم رواداری و عدم برداشت گویا ہماری پہچان بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہاں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ خیال کر رہی ہیں حریت فکر اور آزادیِ اظہار کوئی قابلِ فخر اقدار نہیں سمجھی جا رہیں۔ انسانی حقوق کے کئی کارکنان لاپتہ ہیں، بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے اظہارِ تشویش کیا جا رہا ہے۔ امریکی دفترخارجہ اور برطانوی ترجمان کے بیانات پوری دنیا میں شائع ہو رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ گمشدگی کا معاملہ سنجیدہ ہے۔ جلد بازیابی یقینی بنائی جائے۔ ہم آزادیِ اظہار کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ ہمارے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار اس مسئلے پر خاموش ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ دنیا ہماری باتوں کو نہیں ہمارے طرزِ عمل کو دیکھتی ہے۔ بحیثیت قوم ہم نے اپنے کردار سے یہ ثابت کرنا ہے کہ مذہب یا عقیدہ اگرچہ ہر کسی کا اپنا اپنا ہے لیکن یہ ملک پاکستان بلاتمیز ہم سب کا ہے۔ اگر بات بےبات اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو ہمیں کسی اقلیتی فرقے یا گروہ کے جذبات مجروح کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ مملکت کا ہر فرد، ہر شہری ہمارے لئے قابلِ احترام ہے۔ پرامن آزادیِ اظہار ہمارے ہر شہری کا بنیادی انسانی حق ہے جو اس کے آڑے آتا ہے قانون کو اس کی گرفت کرنی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments