کیا آزادی رائے کو سرکاری تحویل میں دے دیا جائے؟


\"\" ایک ایسے ملک میں جہاں اکثریتی حمایت یافتہ بیانیہ سے اختلاف کرنے یا سوال اٹھانے والے کو ہلاک کر دینا جائز سمجھا جاتا ہو، آزادی رائے کے حوالے سے بحث کا تصور بھی محال ہے۔ یہی صورتحال اس وقت پاکستان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بعض آزاد آوازوں کو دبانے کےلئے جب بدترین ریاستی استبداد کا مظاہرہ ہوا تو اس ظلم کو مسترد کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ یہ لوگ بھی خود پر غیر ملکی ایجنٹ یا مذہب دشمن ہونے کی تہمت لگوانے کا خطرہ مول لے کر ایک سادہ اور آسان بات سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سادہ بات اس بنیادی اصول سے مشتق ہے کہ اگر کوئی غلط کار ہے۔ کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ قومی مفاد پر سودے بازی کی ہے تو اسے مملکت کے قوانین کے مطابق مجاز عدالت سے سزا دلوانے کا اہتمام کیا جائے۔ اسے اس ملک کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائے گا کہ اس سادہ اصول کو تسلیم کرنے اور اس پر صاد کہنے کی بجائے، اس بحث کا آغاز کر دیا گیا ہے کہ یہ سارے لوگ چونکہ مذہب دشمن ہیں، اس لئے گردن زدنی ہیں۔ حالانکہ جواب دعویٰ تو سادہ اور سہل ہے۔ اس ملک میں توہین مذہب کے نام پر ایسے قوانین نافذ ہیں اور ان کی آڑ میں ایسے اقدامات کا مظاہرہ کیا جا چکا ہے کہ جن لوگوں سے ایسا کوئی قصور سرزد ہوا ہے، انہیں صرف باقاعدہ گرفتار کرنا ہوگا، اس کے بعد انہیں کسی عدالتی کارروائی کے بغیر برس ہا برس جیلوں میں قید رکھا جا سکتا ہے۔

تو پھر پریشانی کس بات کی ہے۔ ان سطور کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان میں ریاستی فسطائیت کا مظاہرہ کرنے کےلئے سابقہ فوجی آمر کے دور میں جس طرح مذہب کو سیڑھی بنایا گیا تھا اور متعلقہ قوانین میں جو ترامیم کی گئی تھیں، ان کی توثیق کی جائے۔ لیکن جمہوری انتظام مملکت میں کسی قانون کو تبدیل کروانے کی کوشش کا یہ مطلب بھی نہیں ہو سکتا کہ اس قانون کو ماننے سے انکار کر دیا جائے۔ اس لئے ملک کے توہین مذہب کے قوانین گو کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی زبان میں انسان دشمن ہیں اور ان کی وجہ سے متعدد بے گناہ یا تو برسوں سے قید ہیں یا انصاف کی امید پوری ہونے سے پہلے ہی حب رسولؐ کے کسی داعی کے ہاتھوں داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ تو کہا جائے گا کہ حکومت وقت ان قوانین کو تبدیل کرے اور ان پر عملدرآمد کو سہل بنائے۔ یہ اہتمام بھی کیا جائے کہ ان رویوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا درست قرار دیتے ہیں۔ اور کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کے قصور وار کو باقاعدہ کارروائی کے ذریعے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کرسکے۔

توہین مذہب کے قوانین کے حوالے سے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو یہی اعتراض ہے کہ ان کے تحت ملزموں کو انصاف ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ادھر الزام عائد ہوا تو ساتھ ہی اسلام کی سربلندی کےلئے سر کٹانے کے شوقین سر کاٹنے کےلئے پہنچ گئے اور ملک بھر سے واہ واہ کے ڈونگرے برسنے لگے۔ دوسری صورت میں کسی بھی جگہ ، کسی بھی موقع پر، کسی بھی وجہ سے ، کسی بھی بھلے آدمی پر توہین مذہب کا الزام عائد کرو اور پولیس کو موقع دو کہ اسے گرفتار کرے۔ ایسا کوئی عالی مقدر ہی ہوگا جو یہ الزام عائد ہونے کے بعد جیل کی کال کوٹھری سے باہر نکل سکے گا۔ کیونکہ اول تو اپنے عقیدہ پر جاں نثار کرنے والے، کسی وکیل کو ملزم کی وکالت اور کسی جج کو عدل فراہم کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔ یا پھر جج خود ہی اس آفت مقدمہ سے بچتے ، کانوں کو ہاتھ لگاتے متعلقہ شخص کے معاملہ پر اس وقت تک نئی تاریخ دیتا رہے گا تا آنکہ اس کا اس جگہ سے تبادلہ نہ ہو جائے۔ بالفرض محال اگر یہ دونوں مراحل طے ہو جائیں تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ جیل میں قید کسی قیدی ، محافظ یا کسی پولیس والے کی مذہبی حمیت یوں جوش مارے کہ وہ وکیل اور انصاف کا انتظار کرنے والے کی مشکل کو آسان کر دے۔

مقصود صرف یہ عرض کرنا ہے کہ سنگینوں کے سائے میں آگے بڑھنے والے اس قانون ۔۔۔۔ جس میں قانون کی گرفت سے پہلے سنگین ملزم کے جسم میں پیوست ہونے کو بیتاب ہوتی ہے ۔۔۔ کے ہوتے ‘توہین مذہب و رسولؐ‘ کا ارتکاب کرنے والوں کو چوروں کی طرح اٹھا لینے کا آخر کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ واقعی اس سنگین گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ایجنسیوں، حکومت، پولیس یا استغاثہ کےلئے ایسے گناہ گاروں کو ’’کیفر کردار‘‘ تک پہنچانے کےلئے ملک کا یک طرفہ اور کسی حد تک ظالمانہ قانون تو موجود ہی ہے۔ لیکن لاپتہ بلاگرز کے معاملہ میں شیر اور بکری والا قصہ دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پانی کا بہاؤ خواہ شیر سے بکری کی جانب ہی ہو لیکن شیر بہادر کی لالچی نگاہیں چونکہ بکری کے تازہ گوشت پر ہوتی ہیں اس لئے قصور بہرحال بکری کا ہی نکلتا ہے۔ شیر بکری کے معاملہ میں تو پھربھی حجت کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ منمناتے ہوئے ہی سہی بکری نے عرض تو کیا کہ ‘اے جنگل کے بادشاہ ندی کا پانی تو آپ کی جانب سے میری طرف آ رہا ہے۔ میں تو آپ کا جھوٹا پانی پی رہی ہوں۔‘ شیر تو آخر شیر ہی ہوتا ہے۔ بالآخر بکری کو شیر کے منہ لگنے اور بحث کرنے کی سزا اپنی جان دے کر بھگتنا پڑتی ہے۔

پر اس جنگل کا یہ کیسا شیر ہے کہ وہ تو بکری کو ممیانے کا موقع بھی نہیں دیتا۔ پہلے لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے۔ پھر ان کے خلاف چور دروازوں سے ایسے الزامات کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے کہ اگر وہ قسمت کے ایسے دھنی ہوئے کہ اغوا کاروں کے شکنجے سے باہر نکل بھی آئے تو بھی کوئی نہ کوئی دین حق کا رکھوالا ان کی گردن اتارنے کو بے چین ہو اٹھے گا۔ اس کے بعد سرکاری راشن پر پلنے والے قلم کاروں کی ایک پوری فوج ان لوگوں پر چور دروازوں سے عائد الزامات کو سچ ثابت کرنے کےلئے مامور کر دی جاتی ہے۔ اگر یہی اس ملک کا نظام ہے اور اسی طریقے سے ریاست اپنے شہریوں پر اپنا اختیار نافذ کرنے کی کوشش کرے گی تو کہنے دیجئے کہ اسے تو جنگل کا قانون بھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اس سے بھی بدتر صورتحال ہے۔ بعض لوگوں پر عہد کہن کے ہتھکنڈے آزمانے کے بعد دور جدید کے ہتھیاروں یعنی سوشل میڈیا کے ذریعے الزامات ثابت کرنے کی مہم جوئی کسی بھی قاعدے و قانون یا ظابطہ و اصول سے متصادم ہے۔ ایسے ہتھکنڈے آزمانے والی ریاست جمہوریت ، انسانیت ، آزادی اور عزت نفس کی بات کرنے کی اہل نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کو مسترد کرنا بے حد ضروری ہے۔ نہ گم شدہ بلاگرز سے اظہار یکجہتی مقصود ہے اور نہ ہی ان کے کردہ یا ناکردہ گناہوں کا حساب دینا یا لینا ہمارا مقصد ہے۔ صرف یہ بتانا اہم ہے کہ قانون کا احترام سر آنکھوں پر، ریاست کی حفاظت بے حد اہم، عقیدہ کی تقدیس دل و جان سے عزیز ۔۔۔۔۔ لیکن اس کا اطلاق سب پر یکساں ہونا چاہئے۔ ان پر بھی جو اٹھا لئے گئے اور ان پر بھی جو اٹھانے والے ہیں۔ ریاست کے اندھیرے میں رینگتے سائے ہر قانون اور اصول سے مبرا نہیں ہو سکتے۔ وہ اس لئے کہ اگر ریاست اور اس کے ہرکارے قانون اور آئین کا احترام نہیں کریں گے تو وہ یہ مثال قائم کرنے کا سبب بنیں گے کہ قانون پر عمل ضروری نہیں ہے۔ اسے توڑنے کی طاقت ہونی چاہئے۔ پھر بندوق کی نوک پر معاوضہ لینے کےلئے اغوا کرنے والوں کو کیوں کر مجرم قرار دیا جا سکے گا۔ بے چہرہ گھومنے والے چند ہرکاروں کو اس نظام کا چوکیدار تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے بیک وقت استغاثہ اور منصف بننے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔

پاکستان میں گزشتہ دنوں رونما ہونے والے اس سانحہ کے تناظر میں جس میں 5 افراد کو اچانک غائب کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ بعض لوگ آزادی رائے اور اس پر عائد قانونی ، اخلاقی و ادارتی قدغن کے بارے میں طول طویل مباحث میں مصروف ہیں۔ جو لوگ اصول قانون کی بنیاد کو تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوں، ان کے منہ سے آزادی رائے کے مباحث سننا عجیب لگتا ہے۔ پھر اس حوالے سے مغرب کی مثالیں لائی جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ سکیورٹی کی بدلتی صورتحال میں حفاظت ، آزادی رائے سے زیادہ اہم ہو چکی ہے۔ نہ جانے یہ کون سے مغربی معاشروں کا سبق ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ مغرب کا کوئی قانون اور کوئی روایت کسی شہری سے اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق واپس لینے کی بات نہیں کرتی۔ انسان کی رائے اس کی روح کی آواز ہے۔ اسے سلب کرنے کا مقصد اس کی روح کو مصلوب کرنا ہے۔ کسی شخص سے کسی بھی دلیل کی بنیاد پر رائے رکھنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔ اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اسے مسترد کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی رائے معاشرتی انتشار کا سبب بنے تو متبادل رائے کو مستحکم کرکے اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔

یہ تصور اور مطالبہ غلط ہے کہ رائے کے اظہار کا حق ریاست کا احسان ہے۔ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ریاست پر اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جو لوگ آزادی رائے کو سرکاری تحویل میں دینے کی بات کرتے ہیں، انہیں اس اصطلاح کے معانی ازسر نو جاننے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments