اسلامی ریاست چہ معنی دارد


بیسویں صدی کے ایک برطانوی فلسفی اور سیاسی مفکر ڈبلیو۔ بی۔ گیلی نے ایک بہت عمدہ ترکیب Essentially contested concepts وضع کی تھی۔اس کی مراد یہ تھی کہ سماجی علوم کے بعض تصورات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ ان کی جامع منطقی تعریف ممکن نہیں ہوتی مثلاً سماجی انصاف، جمہوریت، آرٹ، اخلاقی فریضہ۔ کمیونسٹوں کے بارے میں ہمیں پتہ ہے کہ وہ اپنی ر یاست کے نام میں پیپلز، ڈیموکریٹک ریپبلک کے سبھی الفاظ استعمال کرنے کے بہت شوقین واقع ہوئے تھے حالانکہ نہ وہاں عوام کی کوئی آواز ہوتی تھی، نہ ڈیموکریسی کا کوئی تصور تھا اور نہ ریپبلک کا۔ وہ اصلاً نظریاتی ریاستیں تھیں جہاں نظریے کو بالجبر نافذ کیا جاتا تھا۔ ٹراٹسکی نے اسٹالن کے عہد کے بارے میں یہ کہا تھا کہ بائبل کی بات جو کام نہیں کرے گا، اسے کھانا نہیں ملے گا، کو اس طرح بدل دیا گیا ہے کہ جو اطاعت نہیں کرے گا وہ زندہ نہیں رہے گا۔

میرا خیال ہے کہ اسلامی ریاست بھی ایک ایسا ہی تصور ہے جو اپنی اصل میں متنازعہ ہے۔ لوگ لیبل پر جھگڑ رہے ہیں مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اسلامی ریاست کیا ہو گی اور اس کے خد و خال کیا ہوں گے؟

سب سے پہلے سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی اصطلاح کب وضع کی گئی۔ کیا تاریخ کے مختلف ادوار میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اسلامی ریاست کی اصطلاح کبھی استعمال کی تھی؟ ہماری اولین اصطلاح تو خلافت تھی، سیاسی اقتدار کے لیے امامت کی اصطلاح بھی استعمال ہوئی پھر دولت کا استعمال بھی ہونے لگا۔ لیکن کبھی کسی حکومت نے اپنے لیے الدولة الاسلامیہ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ حتی کہ بیسوی صدی میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی مملکت نے اپنا نام المملکة السعودیہ العربیة رکھاتھا۔ کسی مسلمان مورخ نے مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی قرار دیا نہ اسلامی تاریخ کے نام سے کوئی کتاب تصنیف کی۔ ہمارے مجاہدین ملت کو معلوم ہوناچاہیے کہ اسلامی ریاست اور اسلامی تاریخ کی اصطلاحات ہماری اپنی نہیں ہیں بلکہ یہ اہل مغرب اور مسیحی مورخین کی وضع کردہ ہیں۔ مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے اعمال میں فرق ملحوظ رکھا تھا۔ مگر غیر مسلم جب مسلمانوں سے معاملہ کرتے تھے تو وہ مسلمانوں کے تمام اعمال کو اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے تھے اور مقصد ان کا اسلام کو بدنام کرنا ہوتا تھا جس کا جواز بہرحال مسلمانوں کے اعمال فراہم کرتے تھے۔مغربی قوموں کے غلبہ و اقتدار کے زیر اثر مسلمان ملکوں میں بھی تاریخ اسلام کے نام سے کتابیں لکھی جانے لگیں جو اصلاً مسلمان حکمرانوں کی تاریخ بیان کرتی تھیں۔ اسی بنا پر سید مودودی نے ابتدا میں اسے صحیح تاریخ اسلام تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اسلامی ریاست کی اصطلاح پر بحث کرنے کی بجائے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان امور کو واضح کر لیا جائے جن پر تنازعہ ہے۔ ان میں تین بنیادی امور ہیں جن پر پاکستان کے بنانے والوں اور مولویوں میں اختلاف ہے۔

۱۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم آبادی کے حقوق۔ کیا وہ برابر کے شہری ہوں گے یا درجہ دوم کے؟

۲۔ کیا عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور انہیں غیر خانگی امور میں شمولیت کے یکساں مواقع ہوں گے۔

۳۔ ریاست میں قانون سازی کا اختیار کس کے پاس ہے؟ عوام کی منتخب اسمبلی یا کسی مذہبی گروہ کے پاس۔

اب جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو ہماری روایتی مذہبی فکر یہی ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم برابر کے شہری نہیں ہو سکتے۔ وہ مسلمان مملکت میں ذمی،معاہد یا مستامن کی صورت میں رہ تو سکتے ہیں، ان کے جان و مال کا تحفظ بھی کیا جائے گا مگر انہیں امور مملکت میں شامل نہیںکیا جا سکتا۔ اس کے برعکس قائد اعظم نے دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ عہد اور اعلان کیا تھا کہ مملکت پاکستان میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور یہ بیان کیا کہ مذہب کا کاروبار مملکت سے کوئی تعلق نہیں وہ صرف فرد کے ذاتی ایمان و ایقان کامعاملہ ہے۔

پنجاب فسادات1953 ءکے انکوائری کمیشن میں جب مختلف علما سے سوال پوچھا گیا کہ آیا قائد اعظم کی تقریر میں بیان کردہ مملکت کا یہ تصور ان کے نزدیک قابل قبول ہے تو ان میں سے ہر ایک نے بلاتامل اس کا جواب نفی میں دیا اور ان میں وہ احراری اور سابق کانگرسی بھی شامل تھے جو تقسیم سے پہلے اس کو قریب قریب جزو ایمان سمجھتے تھے۔

اب ایک فرق پڑ گیا ہے کہ اسلامی ریاست کے بعض مویدین نے برابر کی شہریت کے حق میں میثاق مدینہ سے استدلال شروع کر دیا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یار عزیز جاوید احمد غامدی سے پہلے کسی نے غیر مسلموں کے حقوق کے لیے میثاق مدینہ کو بنیا د بنایا ہو۔ یہ بہر حال روایتی طبقے کے ایک مغضوب علیہ فرد کی تعبیر ہے جس میں وہ اپنی دیگر تعبیرات کی طرح منفرد ہے۔

دوسرابڑا نزاعی مسئلہ عورتوں کے حقوق کا ہے۔روایتی مذہبی فکر میں عورت کا دائرہ عمل محض گھر کی چار دیواری تک محدود ہے۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ ایک مسلمان عورت کے وہی حقوق ہیں جو بہشتی زیور میں بیان کئے گئے تو ان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی دشوار نہیں کہ عورت غیر خانگی امور میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اسی طرز فکر کا نتیجہ تھا کہ جب پاکستان میں دور ضیاءالحق میں شریعت کا نفاذ شروع ہوا تو پتہ چلا کہ عورت تو ہر معاملے میں مرد سے نصف ہے۔ دیوانی معاملات میں تو گواہی آدھی ہے ہی، فوجداری معاملات میں وہ گواہی دینے کی اہل ہی نہیں۔ اگر وہ ریپ کا شکار ہو تو مقدمہ درج کرانے کے لیے چار عاقل، بالغ، صالح مرد گواہ ہمراہ لائے،اور اگر گواہ پیش نہ کر سکے تو خود زنا کی سزا بھگتے۔ حتی کہ اگر وہ غریب ناحق قتل ہو جائے تو اس کی دیت بھی مرد سے آدھی ہو گی۔

جب کہ اس کے برعکس قائد اعظم نے1938 ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس کارنامے پر فخر کیا تھا کہ ہم نے بڑی حد تک ان لوگوں کے مریضانہ اثرات اور خوف کو دورکر دیا ہے جو مولانا اور مولوی کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ہم نے اس معاملے میں بڑی سعی کی ہے کہ ہماری خواتین اس جدو جہد میں ساتھ شامل ہوں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان خواتین حجاب میں اور بغیر حجاب کے مسلم لیگ کے جلسوں میں شامل ہوتی تھیں۔ قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح ہرسفر میں ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔

تیسرا مسئلہ قانون سازی کا ہے۔ ہمارا روایتی طبقہ اسلامی ریاست میں کسی فقہ کا نفاذ چاہتا ہے۔ 1970 کے انتخابات کی مہم کے دوران جماعت اسلامی سمیت سبھی مذہبی جماعتوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ حنفی فقہ پاکستان کا پبلک لا ہو گی۔ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس مقام پر آ کر مار کھاتا ہے جب وہ اجتہاد کا سہارا لے کراسمبلیوں کے حق قانون سازی کو تسلیم کرانا چاہتا ہے۔ اجتہاد کی اصطلاح کا مطلب نئی قانون سازی نہیں بلکہ نئی صورت حال میں پرانے قانون کا منشا معلوم کرنااور اسے نافذ کرنا ہے۔ اگر فقہ نافذ کی جائے گی تو پھر پاکستان لازماً ایک فرقہ وارانہ ریاست ہو گی جیسا کہ سعودی عرب اور ایران ہیں۔ جو لوگ فقہ کا گڑ کھا کر فرقہ واریت کے گلگلوں سے پرہیز کرنا چاہ رہے ہیں وہ فی الواقع خود کو بھی اور دوسروں کو بھی فریب میں مبتلا کر رہے ہیں۔

قائد اعظم نے اس بات کا بار بار اعادہ کیا تھا کہ ممکت پاکستان ایک جدید جمہوری ریاست ہو گی۔ 1943 ءمیں دہلی میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا تھا جس میں قائد اعظم نے یہ کہہ کر پاکستان کے لفظ کو اختیار کیا تھا کہ یہ ہمارے اوپر مسلط کیا گیا ہے ۔یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل کی مملکت کی آئین سازی کے بارے میں قائد اعظم کے الفاظ کو بلاترجمہ درج کر دیا جائے۔

The constitution of Pakistan can only be framed by the millat and the people. Prepare yourselves and see that you frame a constitution which is to your heart\’s desire. There is a lot of misunderstanding. A lot of mischeif is created. Is it going to be an Islamic government? Is it not begging the question? Is it not a question of passing a vote of censure on yourself? The constitution and the Government will be what the people will decide. (Foundations of Pakistan, edited by Syed Sahrifuddin Pirzada, vol.2, p393)

اس تقریر کے الفاظ پر غور کیجیے کہ قائد اعظم نے اسلامی حکومت کے سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ جی ہاں یہ ایک اسلامی حکومت ہوگی۔انہوں نے حکومت سازی اور آئین سازی کا منبع عوام کی مرضی اور منشا کو قرار دیا ہے۔اب جولوگ قرارداد مقاصد کو بنیاد بنا کرعوام کے حق حکمرانی کی تحدید کرنا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے جو آئین کی تشریح کرنے کا اختیار رکھتی ہے ،اپنے فیصلہ میں اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ قانون سازی کا اختیار عوام کی منتخب اسمبلی کے پاس ہے اور اس حق میں کوئی مداخلت نہیں کی جا سکتی۔

اس ساری بات کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر ایک جدید جمہوری ریاست کا قیام تھا، جس میں تمام شہریوں بشمول عورتوں اور اقلیتوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے، ریاست عقیدے کی بنا پر شہریوں کے درمیان فرق و امتیاز نہیں کرے گی اور کاروبار مملکت عوام کی مرضی کے مطابق ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلایا جائے گا۔ اگر کوئی ایسی ریاست کو اسلامی کہنے پر اصرار کرتا ہے تو مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں بشرطیکہ وہ ان تین نکات کو تسلیم کر لے۔ یہ درست ہے کہ قائد اعظم نے کبھی سیکولر کی اصطلاح استعمال نہیں کی اور نہ ہمیں اس بات کو ان سے منسوب کرنا چاہیے۔ سیکولرازم علم سیاسیات کی کوئی مسلمہ اصطلاح بھی نہیں، تاہم اس پر گفتگو کو کسی آئندہ موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments