مندر کا شیر (4)


\"\"سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں گائے سے دس گز دائیں طرف دیودار کے ایک درخت پر چڑھ کر آرام سے بیٹھ گیا۔ شیر نے مغرب کی سمت سے اپنے شکار کے پاس آنا تھا۔ اور میں نہ چاہتا تھا کہ اس کا شکار میرے اور اس کے درمیان ہو۔ کیونکہ شیر کی بینائی بہت اچھی ہوتی ہے۔ درخت پر سے میں سامنے پھیلی ہوئی وادی اور اس کے پیچھے پہاڑیوں کو صاف دیکھ سکتا تھا۔ اور جب سورج آس پاس کی پہاڑیوں پر آگ بکھیر کر بجھنے والا تھا تو پہلے ایک بارہ سینگے کی آواز سنائی دی۔ شیر حرکت کر رہا تھا۔ اسے یہاں پہنچنے میں خاصی دیر لگنی تھی۔ اس کے باوجود اتنی روشنی متوقع تھی کہ میں بڑے آرام سے اُس پر گولی چلا سکتا تھا۔

آگ کا گولا اُفق کے پیچھے چھپ گیا۔ شفق کی سرخی ختم ہو گئی۔ ہر طرف اندھیروں کی پھُوار پڑنے لگی۔ ہر طرف ایک گہرا سکوت محیط تھا۔ ستاروں کی روشنی ہمالیہ کے دامن سے بڑھ کر کہیں اور زیادہ چمکیلی نہیں ہوتی۔ میں اس روشنی میں گائے کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ گائے کا سر میری طرف تھا اور اگر شیر پیچھے سے آ کر اسے کھانے لگتا تو میں اسے دیکھ نہ سکتا تھا۔ اس صورت میں شیر کو ہلاک کرنے کا پچاس فیصد امکان تھا۔ لیکن اسے فقط صرف زخمی کرنا مجھے نہ تھا کیونکہ زخم مندمل ہو جانے کے بعد اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ وہ آدم خور بن جاتا۔ اب تک اس نے جنگل کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ کی تھی۔ میں اسے فقط دیہاتیوں کی سہولت کی خاطر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔

مشرق کی سمت سے روشنی آ رہی تھی۔ درختوں کی شاخیں زمین پر مبہم سے سائے ڈال رہی تھیں۔ تب چاند نکل آیا اور کھلی وادی میں چاندنی کا دھارا بہنے لگا۔ اب شیر کے آنے کا وقت تھا۔ میں اسے دیکھ تو نہ سکتا تھا لیکن مجھے اس کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ کیا وہ اپنے شکار سے پرے کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا؟ یہ ناممکن تھا کیونکہ میں درخت کے اوپر اس طرح چھپا بیٹھا تھا کہ اس کا ایک حصہ بن کر رہ گیا تھا اور شیر کسی وجہ کے بغیر جنگل کے ہر درخت کو بغور نہیں دیکھتا۔ اس کے باوجود شیر وہاں شیر وہاں موجود تھا اور مجھے دیکھ رہا تھا۔

\"\"اب اتنی روشنی تھی کہ میں گرد و پیش بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اپنے آس پاس کی زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جب میں نے اپنا سر داہنی طرف پھیر کر اپنے بالکل پیچھے دیکھنے کی کوشش کی تو میری نظر شیر پر پڑی۔ وہ اپنے پنجوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا۔ اس کا منہ اپنے شکار کی طرف تھا مگر وہ سر پھیر کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے مجھے اپنی سمت دیکھتے ہوئے پایا تو اس نے اپنے کان ڈھیلے چھوڑ دیئے اور جب میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا تو اس نے پھر سے کان کھڑے کر لیئے۔ جیسے وہ خود سے کہ رہا ہو، “خیر اب تم نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ مگر اب تم کیا کرو گے؟” اور میں واقعی کچھ نہ کرسکتا تھا۔ کیونکہ شیر پر گولی چلانے کی خاطر مجھے درخت پر پہلو بدل کر پہلے داہنی طرف اور پھر عقب کی سمت مڑنا تھا۔ لیکن ایسا کرنا شیر کو خبردار کرنے کے مترادف تھا جو پندرہ فٹ کے فاصلے سے مجھے برابر گھُورے جا رہا تھا۔ اب اس پر گولی چلانے کا فقط ایک ہی امکان تھا اور وہ تھا بائیں کندھے کے اوپر سے۔ میں نے اس تجویز کو لباسِ عمل پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔ رائفل میرے گھٹنوں پر پڑی تھی اور اس کا منہ بائیں سمت ہی تھا۔ جب میں نے اسے بڑی آہستگی سے اٹھا کر اس کا منہ ہولے ہولے اپنی داہنی سمت پھیرنا شروع کیا تو شیر نے اپنا سر نیچا اور کان چوڑے کر لیئے۔ میں وہیں کا وہیں رک گیا۔ اس پوزیشن میں شیر تب تک رہا جب تک میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا لیکن جب میں نے پھر رائفل گمانی شروع کی تو وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھا اور سایوں میں گھل مل گیا۔

شیر ایک دفعہ پھر مجھے مات دے گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ چاہے جتنی دیر تک درخت پر بیٹھا رہوں وہ واپس نہ آئے گا۔ لیکن اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو ممکن ہے وہ لوٹ آئے اور چونکہ وہ ساری گائے فقط ایک رات میں نہیں کھا سکتا تھا۔ لہذا اگلے دن اس سے ٹکر لینے کا مجھے ایک اور موقع مل سکتا تھا۔\"\"

اب میرے سامنے یہ سوال تھا کہ رات کہاں بسر کروں۔ اس دن میں نے پہلے ہی کوئی بیس میل کا سفر کیا تھا۔ وہاں سے ریسٹ ہاؤس آٹھ میل دور تھا۔ وہاں تک پہنچنے کی مجھ میں سکت نہ تھی اور پھر راستے میں بھرپور جنگل تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ شکار سے کوئی دو، تین سو گز کے فاصلے پر کھلی وادی میں سوجاؤں مگر مجھے آدم خور چیتے کا خیال آیا اور آدم خور چیتے ہمیشہ رات کو شکار کرتے ہیں۔ آخر مجھے دور مویشیوں کی گھنٹیاں بجنے کی آوازیں آئیں۔ یہ دیہاتیوں کا کوئی پڑاؤ تھا۔ میں درخت سے اترا اور اس سمت چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں پہنچ گیا۔ تھکاوٹ کے مارے میری بری حالت ہو رہی تھی۔ دیہاتیوں نے میری حسبِِ توفیق خاطر تواضع کی۔ پھر میں چارپائی پر لیٹ کر پائپ پینے لگا۔

دوسری صبح سورج ابھی طلوع ہو رہا تھا کہ اپنے گرد و پیش کی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی۔ تین آدمی میرے پاس کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے گرم گرم تازہ دودھ سے بھرا ہوا پیالہ پکڑ رکھا تھا۔ انہوں نے مجھے کھانے کی پیشکش کی مگر میں نے ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کر کے یہ دیکھنے کی خاطر کہ اب شیر اپنا شکار کہاں لے گیا ہو گا پھر سے وادی کی سمت چل پڑا۔ مجھے دیکھ کے حیرت ہوئی کہ گائے وہیں جوں کی توں پڑی ہے۔ گِدھوں سے بچانے کی خاطر میں نے اسے شاخوں سے ڈھانپ دیا اور تازہ دم ہونے کے لیئے ریسٹ ہاؤس کی سمت چل پڑا۔\"\"

ہندوستانی ملازم اپنے آقا کے بڑے وفادار ہوتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے کی غیر حاضری کے بعد جب میں وہاں پہنچا تو میرے ملازم حیران نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے مجھ سے کوئی سوال پوچھا۔ غسل کے لیئے گرم پانی تیار تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں ریسٹ ہاؤس کے سامنے والے لان میں بیٹھ کر نظروں کے سامنے پھیلی ہوئی دلکش وادی سے حظ اٹھانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ نینی تال سے تو میں پانار کے آدم خور چیتے کو ہلاک کرنے آیا تھا۔ وہی چیتا جس نے اس روز مندر کے چبوترے پر سوئے ہوئے مسافر کی ٹانگ کھینچی تھی۔ اس کے بعد اس کے متعلق کچھ نہ سنا گیا تھا۔ لوگوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بعض اوقات وہ چیتا کافی عرصے کے لیئے دابیدھر سے غائب ہو جاتا ہے اور پھر ایک دن اچانک آ جاتا ہے۔ آج کل وہ وہاں سے غائب تھا اور کوئی نہ کہ سکتا تھا کہ کب واپس آئے گا۔ میں تو اصل میں اس چیتے کو ہلاک کرنے آیا تھا اور اس میں مجھے ناکامی ہوئی تھی۔ اب دابیدھر میں مزید بیٹھے رہنا میرے لیئے کسی طرح سودمند نہ تھا۔ لیکن مندر کے شیر کا مسلہ بدستور میرے سامنے تھا۔ اس شیر کو ہلاک کرنا میں کسی طرح اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرتا تھا۔ لیکن اس کے سبب دیہاتیوں کو جو نقصان پہنچ رہا تھا اس کے پیش نظر میں نے اسے شکار کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اس نے جو نقصان پہنچایا تھا اس کا معاوضہ بھی ادا کیا تھا۔ مگر وہ ہر بار مجھے چکمہ دے گیا تھا۔ لیکن اتنا میں ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ اس نے مجھے شکار کے نہایت دلچسپ تجربات سے آشنا کرایا تھا۔ اس کے ہاتھوں اپنی شکستوں کے باوجود مجھے اس پر کوئی غصہ نہ تھا۔ وہ ایک نہایت ذہین شیر تھا اور میں نے اس جیسے بہت کم شیر دیکھے تھے۔ گزشتہ چار دن سے ہم ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے۔ اور ان چار دنوں میں میں بے حد تھک گیا تھا۔ لہذا میں نے آج کا دن آرام کر کے اگلے دن نینی تال واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ کیا ہی تھا کہ مجھے اپنے پیچھے ایک آواز سنائی دی، “سلام صاحب! میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ شیر نے میری ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔ ” شیر کو شکار کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ لگا تھا۔ میں نے سوچا کہ خواہ میں اس دفعہ کامیاب رہوں یا ناکام بہر صورت کل نینی تال ضرور لوٹ جاؤں گا۔\"\"

انسانوں اور ریچھوں کی مداخلت سے تنگ آ کر شیر نے اپنی جائے شکار بدل لی تھی اور یہ آخری شکار اس نے دابیدھر کی مشرقی پہاڑیوں پر اس جگہ سے چند میل دور ادھر کیا تھا جہاں میں گزشتہ شب اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ یہ جگہ اونچی نیچی تھی اور کہیں کہیں ہی کوئی اِکّا دُکّا درخت دکھائی دیتا تھا۔

مشرقی پہاڑیوں کے نیچے ایک وادی تھی جس میں جھاڑیاں بکثرت اُگی تھیں۔ اور ان کے درمیان کہیں کہیں گھاس کے قطعات تھے۔ انہی قطعات میں سے ایک کے کنارے شیر نے گائے ہلاک کی تھی اور اسے گھسیٹ کر بائیں سمت کی جھاڑیوں میں لے گیا تھا۔ چند قدم چلنے پر مجھے گائے نظر آ گئی۔ وہیں دیودار کا ایک درخت تھا۔ میں نے اس پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔

میرے ملازم میرے ساتھ تھے۔ وہ میرے لیئے چائے بنانے میں مصروف ہو گئے۔ میں یہ سوچ کر کہ شاید شیر کہیں آس پاس لیٹا ہو اور اس پر گولی چلانے کا مجھے موقع مل جائے۔ میں ادھر ادھر گھومنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر یہیں کہیں وادی میں لیٹا ہو گا۔ میں ایک گھنٹے تک اسے تلاش کرتا رہا مگر وہ دکھائی نہ دیا۔

جس درخت پر میں بیٹھا تھا اس کا تنا قدرے باہر کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اس کے بڑے تنے پر زمین سے کوئی دو گز کے فاصلے پر گھنی شاخیں اگی ہوئی تھیں۔ جس کے باعث درخت پر چڑھنا آسان تھا۔ مگر درخت پر چڑھنے کے بعد تنے کی نیچے والی زمین گھنی شاخوں کے باعث بالکل دکھائی نہ دینی تھی۔ شام کے چار بجے میں نے اپنے ملازم روانہ کر دیئے اور خود درخت کے اوپر زمین سے کوئی بیس فٹ کے فاصلے پر ایک آرام دہ جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے ملازموں سے کہا تھا کہ وہ مشرقی پہاڑی کے قریب میرا انتظار کریں۔ کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ اگر شیر شام سے پہلے آ گیا تو بہتر ورنہ وہاں رات گزارنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔\"\"

گائے سر سبز کھلی زمین پر مجھ سے کوئی دس گز کے فاصلے پر پڑی تھی۔ اس کی پچھلی ٹانگیں جھاڑیوں کے ایک جھُنڈ کو چھو رہی تھیں۔ وہاں بیٹھے مجھے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ میں اوپر نظریں اٹھائے آسمان سے گزرنے والے مختلف پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گائے کو دیکھنے کی نیت سے جونہی میں نے سر پھیرا تو شیر کا سر ان جھاڑیوں سے نمودار ہوتا ہوا دکھائی دیا جنہیں گائے کی پچھلی ٹانگیں چھو رہی تھیں۔ وہ لیٹا ہوا تھا اور اس کا سر زمین سے بہت قریب تھا اور اس کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنا ایک پنجہ بڑھایا اور پھر دوسرا اور پھر بڑی آہستگی سے پیٹ کے بل رینگ کر اپنے شکار کے پاس آ گیا۔ یہاں وہ کسی حرکت کے بغیر چند منٹ لیٹا رہا۔ تب بدستور اپنی نگاہیں مجھ پر گاڑے ہوئے اس نے منہ سے گائے کی دُم کاٹ کر اسے ایک طرف رکھا اور پھر کھانے لگا۔ تین دن پہلے ریچھ سے لڑائی کے بعد اس نے کچھ نہ کھایا تھا اور بے حد بھوکا تھا۔ وہ یوں کھا رہا تھا جیسے کوئی آدمی سیب کھاتا ہے۔ وہ کھال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گائے کی ران سے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے پھاڑ رہا تھا۔

بندوق میری گود میں پڑی تھی اور اس کا رخ شیر کی سمت تھا۔ میں نے فقط یہ کرنا تھا کہ اسے کندھے کے قریب لا کر گھوڑے کو دبا دوں۔ یہ موقع مجھے اس وقت مل جاتا جب چند سیکنڈ کے لیئے بھی شیر اپنی نظریں اِدھر اُدھر کر لیتا۔ لیکن شاید شیر میرے دل کی بات بھانپ گیا تھا اور اس خطرے سے آگاہ تھا۔ کیونکہ وہ مجھ سے نظریں ہٹائے بغیر بڑے اطمینان سے اپنا شکار کھا رہا تھا۔ جب وہ کوئی دس بارہ سیر گوشت کھا چکا اور اس کے عَقب والی جھاڑی میں ایک بُلبُل بولنے لگی تو میں نے سوچا یہ میرے لیئے بہترین موقع ہے۔ میں رائفل کو نہایت آہستہ آہستہ اٹھاؤں تو شاید شیر کو میری ہاتھوں کی جُنبش کا پتا نہ چلے۔ اور جب بُلبُل تیزی سے بولنے لگی تو میں نے اپنی تجویز کو لباسِ عمل پہنانا شروع کر دیا۔ ابھی میں نے بندوق کو چھ انچ ہی اوپر اٹھایا ہو گا کہ شیر ایک دم ہی پیچھے کی سمت ہٹ گیا جیسے کسی بڑے سپرنگ نے اسے پیچھے کی سمت کھینچ لیا ہو۔ اب بندوق کندھے پہ جمائے اور کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے میں منتظر تھا کہ شیر فقط لمحہ بھر\"\" کے لیئے اپنا سر جھاڑیوں سے باہر نکالے اور مجھے یقین تھا کہ وہ ایسا ضرور کرے گا۔ وقت گزرتا گیا اور پھر مجھے شیر کی آواز سنائی دی۔ وہ جھاڑیوں کے عقب سے دبے پاؤں چل کر میرے درخت کے نیچے آ کھڑا ہوا تھا اور اب اپنے اگلے پنجوں سے درخت کے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان درخت کے تنے کے گرد اگی ہوئی جھاڑیاں تھیں۔ جن کے باعث میں اسے دیکھ نہ سکتا تھا۔ شیر زور زور سے اپنے پنجے تنے کے گرد مار کر اس کی چھال کھرچ رہا تھا۔

میں جانتا تھا کہ کوّوں اور بندروں میں ظرافت کی حِس ہوتی ہے۔ لیکن اس روز مجھے پتا چلا کہ یہ حِس شیر میں بھی موجود ہے۔ نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ جنگلی جانور اس قدر خوش قسمت بھی ہوسکتا ہے جتنا یہ شیر تھا۔ گزشتہ پانچ دنوں میں اس نے پانچ گائیں ہلاک کی تھیں۔ میں نے کوئی آٹھ مرتبہ اسے دیکھا تھا اور کوئی چار مرتبہ اس پر گولی چلائی تھی۔ اور اب کوئی نصف گھنٹے تک میرے سامنے بیٹھ کر مجھے گھور کر اور اپنا شکار کھا کر میرے درخت کے گرد چکّر لگا رہا تھا۔ جیسے میرا مذاق اڑا رہا ہو۔

اس وقت مجھے مندر کے پجاری کے وہ فقرے یاد آرہے تھے جو اس نے برآمدے میں بیٹھ کر اِس شیر کے متعلق کہے تھے۔ “جناب آپ اسے بےشک ہلاک کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ ” پجاری نے جو کہا تھا شیر اسے ثابت کر رہا تھا۔ یہ میرا اور شیر کا آخری مقابلہ تھا۔ اس سارے وقت میں ہم دونوں کو کوئی ضرب نہ آئی تھی۔ لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ شیر اس طرح میرا مذاق اڑا کر آرام سے لوٹ جائے۔ میں نے بندوق گود میں رکھ لی اور دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں دے کر شیر کے وہاں سے ہٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں شیر پورے زور سے گرجا۔ آس پاس کی پہاڑیاں گونج \"\"اٹھیں۔ تب شیر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا وادی کے نیچے اتر گیا۔ اتنے میں میرے آدمی بھی وہاں آ پہنچے۔ وہ کہنے لگے “ہم نے شیر کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی دُم ہوا میں اٹھی ہوئی تھی۔ اور یہ دیکھیئے اس نے درخت کا کیا حشر کیا ہے۔ ” کچھ دیر اور اگر شیر درخت کو یونہی نوچتا رہتا تو وہ گر ہی جاتا۔

دوسرے دن میں دابیدھر سے رخصت ہو گیا لیکن وہاں سے جانے سے پہلے میں نے اپنے دوستوں کو یقین دلایا کہ جب آدم خور چیتے کی سرگرمیاں یہاں بڑھ جائیں گی تو میں پھر آ جاؤں گا۔

بعد میں مجھے کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ لیکن میں نے کسی سے بھی یہ نہ سنا کہ کسی شکاری نے مندر کے شیر کو ہلاک کیا ہے۔

(ختم شد)

(کرنل جم کار بٹ کی کتاب “Temple Tiger & More Man-Eater of Kumaon” کے پہلے باب “Temple Tiger” کا یہ ترجمہ انیس الرحمٰن صاحب نے کیا ہے اور اسے بزم اردو کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments