زیورخ کا بازارِ حسن اور غلام عباس


2013ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورخ کی بلدیہ نے ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا جو دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنا۔ اس خاکسار نے بھی اس واقعے پر 26 اگست 2013 ءکو بی بی سی کے لیے ایک سٹوری لکھی تھی جو اتفاق سے خاصی پڑھی بھی گئی۔ ہوا یوں کہ زیورخ شہر کے وسط میں آباد بازارِ حسن کی وجہ سے مسائل بڑھتے گئے، اور ’شرفا‘ کو طرح طرح کی شکایتیں لاحق ہو گئیں، جسم فروشی سے منسلک منشیات کا دھندا، جارحانہ گاہک، طوائفوں کے خلاف تشدد، بدخو اور لالچی دلالوں کی آپس میں لڑائیاں، وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ زیورخ کے ووٹروں نے 24 لاکھ سوئس فرانک کی منظوری دی تاکہ ان طوائفوں کو شہر کے مصروف مرکز سے ہٹا کر شہرسے باہر منتقل کر دیا جائے۔اس منصوبے کے تحت شہر سے باہر ’ڈرائیو اِن سیکس باکس‘ تعمیر کیے گئے، جن کے اندر گاڑیوں والے گاہک جا سکتے ہیں۔ یہاں کئی درجن طوائفیں لکڑی کے ان خوش نما کھوکھوں سے باہر ایک گول پارک میں سڑک کے کنارے کھڑی رہتی ہیں جہاں سے گاہک ان کا انتخاب کر سکتے ہیں۔سرکاری خرچ سے تعمیر کردہ یہ جگہ ساری رات کھلی رہتی ہے اور اس میں باتھ روم، لاکر، ایک چھوٹا سا کیفے اور کپڑے دھونے کی مشینیں نصب ہیں۔طوائفوں کو یہاں کام کرنے کے لیے پرمٹ کی ضرورت پڑتی ہے اور ایک چھوٹا سا ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر انہیں گاہکوں سے کسی خطرے کا سامنا ہوا تو وہ ایک بٹن دبا کر سکیورٹی طلب کر سکتی ہیں۔
زیورخ کے ایک وکیل ویلنٹین لینڈمان نے بی بی سی کو بتایا: ’اب کوئی ان خواتین کو تاریک گوشوں یا اجاڑ پارکنگ میں نہیں گھسیٹ سکے گا اور وہ اپنے گاہکوں کے رحم و کرم پر نہیں ہوں گی۔‘


تاہم ایک استانی برجیٹا ہانسل مان اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ انہوں نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ باکس ’ایک ایسی چیز کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہیں جو کنٹرول ہو ہی نہیں سکتی۔‘
میں نے آپ کو یہ اصل واقعہ سنایا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ کوئی کہے کہ اس کا غلام عباس اور اردو ادب کے ساتھ کیا تعلق ہے تو ہم جلدی سے یورپ کے سوات یعنی سوئٹزرلینڈ کو چھوڑ کر اردو ادب کا ذکر کرتے ہیں۔
اردو شاعری کے محاسن میں سے ایک صنف مبالغہ آرائی کا نام گنوایا گیا ہے، جس کی وافر مثالیں آپ کو ہر شاعر کے ہاں مل جائیں گی۔ عاشق جب روتا ہے تو سارے عالم کو جل تھل کر دیتا ہے، محبوب کی زلفوں اور قد کی لمبائی سے قیامت کا فتنہ یا دآ جاتا ہے، کمر ہے کہ خوردبین لگا کر بھی دکھائی تک نہیں دیتی، طولِ شب فراق ناپتے ناپتے ماہرین ریاضی بھی ہانپ جاتے ہیں، گرمی کی شدت وہ ہے کہ مچھلیاں پانی میں برشت ہو جاتی ہیں، کسی اڑھائی مربعے کے مالک نواب کا قصیدہ اٹھا کر دیکھیں تو اسے سکندر ثانی اور دارا کا ہم پلہ دکھایا جاتا ہے، وغیرہ۔
یہ ہمارا خالص مشرقی مزاج ہے جسے اس قسم کی مبالغہ آرائی راس آتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس کی وجہ ہمارا گرم موسم ہے یا پھر کچھ اور، لیکن ایک ہلکا سا اندازہ ہے کہ آب و ہوا کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ضرور ہے۔ اب انگریزوں کو لے لیجیے کہ وہ جیسے موسم میں بستے ہیں، ویسے ہی ان کے ہاں ایک صنعت استعمال کی جاتی ہے، جس میں بات کو کم کر کے، ہلکا کر کے، گھٹا کر بیان کیا جاتا ہے۔ اسے مائیوسس یا انڈرسٹیٹمنٹ کہتے ہیں۔ مثلا شیکسپیئر کے ڈرامے رومیو جولیٹ میں جب ایک کردار کو تلوار کا کاری اور جان لیوا وار لگتا ہے تو وہ چیخ پکار سے زمین کی طنابیں نہیں ہلا دیتا بلکہ گرتے گرتے فقط اتنا کہتا ہے، ’آئے آئے اے سکریچ اے سکریچ۔‘ یعنی کچھ نہیں معمولی خراش ہے۔ اس صنعت کا فائدہ کیا ہے کہ اس سے بیان میں آئرنی پیدا ہوتی ہے جو بیان کردہ حالت کو مزید ابھار کر سامنے لے آتی ہے۔
ہمارے ہاں یہ چیز اس قدر عنقا ہے کہ اس کے لیے کوئی نام ہی نہیں۔ میں نے فارسی لغات میں دیکھا تو ’دست کم گرفتن‘ لکھا پایا، جسے آپ پنجابی میں ہاتھ ہولا رکھنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ کوئی ادبی اصطلاح نہیں ہے بلکہ لغت نویس نے انگریزی لفظ کا سیدھا سیدھا ترجمہ کر ڈالا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے شعر شور انگیز میں انڈر سٹیٹمنٹ پر بحث کی ہے اور میر کے ہاں سے کچھ مثالیں بھی ڈھونڈ نکالی ہیں، انہوں نے اس کا ترجمہ سبک بیانی کیا ہے، لیکن اس سے بات واضح نہیں ہوتی، اس لیے میں آپ کی اجازت سے اپنا ایک ترجمہ پیش کرنا چاہوں گا، اور وہ ہے مبالغہ آرائی کے مقابلے پر کم آرائی۔شاید تعریف سے بات واضح نہ ہوئی ہو، اس لیے میں میر کے ہاں سے کم آرائی کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔
کچھ رنج دلی میر جوانی میں کھنچا تھا
کیا سبب اب مکاں پر جو کوئی پاتا نہیں
میر صاحب آگے تو رہتے تھے اپنے گھر بہت
ہم نہ کہا کرتے تھے تم سے، دل نہ کسو سے لگاو¿ تم
جی دینا پڑتا ہے اس میں ایسا نہ ہو پچھتاو¿ تم
بارے کل ٹھیر گئے ظالمِ خوں خوار سے ہم
منصفی کیجے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا
جب رونے بیٹھتا ہوں پھر کیا کسر رہے ہے
رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے
حالانکہ یہ وہی میر ہیں جو ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
میر تو خیر شیکسپیئر کی مانند ایک سمندر ہے جس میں ہر طرح کے دریا، ندی، نالے، جھیلیں، تالاب،جزیرے آ کر مدغم ہو جاتے ہیں، اور ان کے ہاں مبالغہ بھی اپنی شدت پر ملتا ہے، جس کی ایک مثال میں اوپر دے چکا،لیکن اردو فکشن میں کم آرائی کا جس حد تک غلام عباس نے استعمال کیا ہے اس کی مثال کہیں اور نظر نہیں آتی۔


ان کے بعض ہم عصروں کے ہاں، جن کے نام لینا ضروری نہیں ہے، تند و تیز بیانات، چیختے چنگھاڑتے حالات، زندگی کے بخیے ادھیڑ دینے والے معاملات، محلے کی چھتوں سے چیخ چیخ کر پکارنے والے کردار اور قتل و غارت کے سنسنی خیز واقعات، کہانی میں ڈرامائی موڑ، ششدر کر کے رکھ دینے والی پلاٹ ڈیوائسز اور چونکا دینے والا انجام آپ کو عام دکھائی دے گا۔ اس کے مقابلے پر غلام عباس کی کہانی سہج سہج طریقے سے آگے بڑھتی ہے، وہ آپ کو پائینچے سے پکڑ کر نہیں کھینچتے، بس سر کے شانت اشارے سے آپ کو اپنے پیچھے چلنے کو کہتے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ دھیرے دھیرے ٹہلتے جاتے ہیں، آس پاس کے منظر رفتہ رفتہ دھند میں سے نکل کر ٹھوس شکل اختیار کرنے لگتے ہیں اور جب کہانی ختم ہوتی ہے تو آپ خود کو ایک وسیع و عریض لینڈسکیپ کا حصہ پاتے ہیں۔
اس کی ایک عمدہ مثال اوورکوٹ ہے، جس میں تمام غیر ضروری تفصیلات، پس منظر،مصنفانہ تبصروں اور جھاڑ جھنکار کو کانٹ چھانٹ کر گویا کہانی کا است پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کا قلم ڈاکیومینٹری فلم کے کیمرے کی طرح ایک شخص کے پیچھے پیچھے چلتا ہے اور کسی وائس اوور کے بغیر ہمیں اس کے بے حد عامیانہ سے معمولات دکھاتا چلا جاتا ہے۔ جس طرح فلم کے پردے پر ہمیں نظر نہیں آتا کہ کردار کیا سوچ رہا ہے، یہاں بھی ہمیں مرکزی کردار کے ذہن تک رسائی نہیں دی جاتی۔ پھر کہانی کا کلائمیکس یعنی موت کا منظر صرف ایک سطر میں نمٹا دیا گیا ہے جہاں شاید کوئی اور افسانہ نگار ایک صفحہ خرچ کر ڈالتا:
اس نے آدھی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے کچلتے ہوئے میکلوڈ روڈ کی طرف چلی گئی۔
افسانہ نگار نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ یہ نوجوان کون تھا، کہاں سے آیا تھا، اس کے آگے پیچھے کون تھا، حتیٰ کہ ہمیں اس کا نام تک نہیں معلوم۔ یہ آئس برگ تکنیک ہے جس میں صرف ایک حصہ بیان کیا جاتا ہے، نو حصے کہانی کی سطح کے نیچے رہتے ہیں۔ اس اندازتحریر کا فائدہ یہ ہے کہ قاری کہانی میں شامل ہو کر ٹوٹی ہوئی کڑیاں خود جوڑنے لگتا ہے، کہانی کاغذ کے صفحے سے اٹھ کر اس کے ذہن پر پردے پر مجسم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس تحریر کا اثر گہرا اورتاثردیرپاہوتا ہے، دوسری طرف جب آپ قاری کو سب کچھ بتا دیتے ہیں تو پھر اس کے پاس سوچنے کو کچھ نہیں رہتا۔
غلام عباس کا اسلوب پکار نہیں بلکہ سرگوشی کی مانند ہے، اس بات کو ن م راشد نے بڑی خوبی سے بیان کیا ہے:
غلام عباس اردو کا واحد افسانہ نگار ہے جو زندگی سے اتنی گہری محبت کرتا ہے کہ نہ اس کے بخیے ادھیڑتا ہے، نہ اسے ننگا کرتا ہے، نہ اپنی انا سے مرعوب کرتا ہے۔ وہ زندگی کو اپنا محرمِ راز جانتا ہے، اس سے سرگوشیاں کرتا ہے اور اس سے سرگوشیاں سنتا ہے۔


یہ تو اندازِ بیان کی بات ہوئی۔ اب غلام عباس کے کردار دیکھئے۔ وہ اپنی کہانیوں کے باسی بالکل عام لوگوں میں سے اٹھاتے ہیں۔ افسانہ شروع کرتے ہوئے ان کا مرغوب طریقہ یہ ہے کہ پہلے عمومی تفصیلات بیان کرتے ہیں، گرد و پیش کا نقشہ کھینچے ہیں، پھر آہستہ آہستہ کہانی میں نیچے اترتے ہوئے جزئیات تک پہنچتے ہیں اور آخر میں جا کر کہانی کے کرداروں کو پکڑ لیتے ہیں۔ جیسے آپ گوگل میپ کو کسی علاقے پر لا کر زوم ان کرنا شروع کر دیں، تو اس کے خد و خال آہستہ آہستہ واضح ہوتے چلے جاتے ہیں، بالکل ویسے ہی غلام عباس شہر کے کسی کونے کھدرے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں، دھیرے دھیرے زوم ان کرتے جاتے ہیں، اور کہانی کے نقش و نگار ابھرنے شروع ہو جاتے ہیں۔
چیخوف نے میکسم گورکی کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مجھے مت دکھاؤ کہ چاند چمک رہا ہے، مجھے شیشے کی کرچی سے منعکس ہوتی ہوئی چاندنی کی کرن دکھاؤ۔ غلام عباس شہر کے کسی کونے کھدرے میں واقع کسی معمولی سے محلے کے ایک عام سے شخص کی زندگی میں پیش آنے والے کسی عام سے واقعے کو افسانے کے آئینے میں اس طرح دکھاتے ہیں کہ تمام معاشرے کا چہرہ اس میں منعکس ہو کر نظر آنے لگتا ہے۔
اس کی ایک مثال ان کا بے مثال افسانہ ’جواری‘ ہے۔ جس میں ایک عام سا واقعہ پیش آیا ہے کہ پولیس نے چند جواریوں کو دھر لیا ہے، جنہیں بعد میں اس شرط پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ باری باری ایک دوسرے کی پشتوں پر دس دس جوتے لگائیں۔ یہاں کوئی ڈرامائی واقعات نہیں، تھانےدار نے کوئی بڑھکیں نہیں ماریں، ملزمان پر کوئی ظلم و تشدد نہیں ڈھایا گیا، آخر یہ لوگ جوا کھیلتے پکڑے گئے ہیں اور بظاہر تھانےدار نے ان سے ہمدردی برتی ہے کہ بغیر مقدمہ دائر کیے ایک معمولی سی شرط پوری کر کے انہیں جانے دیا۔ لیکن اس چھوٹے سے واقعے کو کم آرائی کی تکنیک سے یوں برتا گیا ہے وہ پڑھنے والے کو دہلا کر رکھ دیتا ہے کہ جیسے وہ سب کچھ اس کے اوپر گزرا ہے، اور ایک بار تو قاری کن اکھیوں سے ادھر ادھر جھانک بھی لیتا ہے کہ کہیں کسی نے مجھے تو جوتے پڑتے نہیں دیکھے۔
میں نے اس تحریر کی ابتدا سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں 2013ءمیں پیش آنے والے ایک واقعے سے کی تھی۔ اس وقت اس پر خاصی لے دے ہوئی تھی، بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ بلدیہ کا یہ منصوبہ ناکام ہو جائے گا کیوں کہ آخر کون بےوقوف ہو گا جو شہر کی رونقیں چھوڑ کر اتنی دور جائے گا۔

یقین سے نہیں کہا جا سکتا ،لیکن بظاہر لگتا ہے کہ نہ تو زیورخ کی بلدیہ نے غلام عباس کو پڑھ رکھا ہے اور نہ ہی اس منصوبے میں کیڑے نکالنے والوں نے، ورنہ وہ کبھی بھی اس قسم کی احمقانہ باتیں نہ کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments