محسن بھوپالی ۔۔۔ کچی مٹی تو مہکے گی


\"\"نام عبدالرحمن اور محسن تخلص ہے۔ 29 ستمبر 1932 ء کو بھوپال سے متصل ضلع ہوشنگ آباد کے قصبہ سہاگ پور میں پید اہوئے۔ نومبر1947 ء کو پاکستان آگئے۔ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد انجینئرنگ کا ڈپلومہ این ای ڈی کالج ، کراچی سے حاصل کیا اور1952 ءمیں محکمہ تعمیرات سندھ میں ملازم ہوگئے۔سند ھ کے معروف شعرا کی نظموں کے منظوم اردو تراجم کیے۔ ملازمت کے دوران محسن بھوپالی نے ایم اے (اردو) اور ایم اے(صحافت) کے امتحانات پاس کیے۔ محسن بھوپالی کے ادبی سفر کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ شروع میں سیماب اکبرآبادی سے اصلاح لی۔ جب وہ علیل ہوگئے تو ا ن کی ہدایت پر صبا متھراوی سے دوسال تک اصلاح لی۔ ایک نئی صنف ’نظمانے‘ (نظم اور افسانے کے امتزاج کی حامل صنف سخن) کا تجربہ کیا۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں۔ ’شکست شب، جستہ جستہ ،نظمانے، ماجرا، گردمسافت، موضوعاتی نظمیں، روشنی تودیے کے اندر ہے (شعری مجموعے)، مجموعہ سخن (شعری کلیات)، منظر پتلی میں (ہائیکو کا مجموعہ)، حیرتوں کی سرزمین (سفرنامہ امریکا وکینیڈا)، نقد سخن (مجموعہ مضامین)، منزل ۔طویل علالت کے بعد محسن بھوپالی 16 جنوری 2007 ءکو کراچی میں انتقال کرگئے۔
محسن بھوپالی کی برسی ہر سال اٹھارہ جنوری کو منائی جاتی ہے۔ آج اس مناسبت سے اس عظیم شاعر کے بارے میں کچھ باتیں اور یادیں کریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری اور شخصیت میں تازگی ایسی کہ جیسے بارش میں کھلے غنچے ہوا سے اٹکھیلیاں کریں۔اپنے ارد گرد پہ نظر ایسی کہ جب سخن ور بولے تو یوں لگے جیسے موضوع زندگی پاکر جھومنے لگے۔ درد سمیٹے تو یوں لگے جیسے یہ بھی ہمارے دل میں تھا۔ معاشرتی نا ہمواری کا نوحہ کہے تو طنز و مزاح میں لذت درد دو آتشہ ہو جائے۔ نمونہ ملاحظہ کیجئے۔
جرات فغان کیسی آپ سے شکایت کیا
سانس لے رہے ہیں ہم، آپ کی نوازش ہے
محسن بھوپالی کا یہ طرہ رہا کہ وہ اپنے داخلی اور انفرادی احساسات کی بجائے خارجی حقیقتوں کو زیادہ مقدم جان کر ان پر قلم اٹھاتے رہے۔ \"\"اس لئے ان کی بیشتر تخلیقات اجتماعی زندگی اور اس کے گوناگوں متحرک عوامل کا مظہر ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ’ ماحول کے دل آویز رنگیں پردوں میں چھپی ہوئی تلخ حقیقتوں کا اظہار میرا مسلک رہا ہے اورپستیوں کی وادیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو سہارا دینا میرا فن‘۔
اسی نظریے پر وہ تادم مرگ قائم رہے۔ وہ زندہ اور متحرک شاعر تھے جو ایسے ایسے مو ضوعات پر قلم اٹھاتے تھے جن کا تعلق سماجی اور سیاسی ناہمواریوں اور نا انصافیوں سے ہوتا تھا۔ وہ نہ صرف اس درد کو شدت سے محسوس کرتے تھے بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے اس دکھ کو یوں اجاگر کرتے کہ وہ درد خود بولنے لگتا، احتجاج کرتا اور دل کے اس کونے کھدرے میں سما جاتا جہاں احساس کے پھول ہر وقت اگے رہتے ہیں۔
انہوں نے زندگی کی المناکیوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور خود محسوس بھی کیا تھا۔ وہ کراچی شہر کے دکھوں اور وہاں ہونے والی ہولناکیوں کے چشم دید گواہ رہے۔ وہ اس کیفیت کو ایک شعر میں کہتے ہیں۔
تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
محسن صاحب کے حوالے سے علامہ نیاز فتح پوری نے 1962ء میں کہا تھا۔ ’محسن بھوپالی کے ہاں شعرمحض فن نہیں بلکہ اشارئہ صداقت بھی ہے۔‘ نامور نقاد ڈاکٹر سلیم اختر نے 1975ء میں کہا تھا۔ ’محسن تلخ طنز کا شاعر ہے اور یہ اچھا ہی ہے کہ اس تلخی سے قاری کتھارسس کرتا ہے۔‘ مرحوم احمد ندیم قاسمی یوں گویا ہوئے۔ ’یہ اعزازصرف محسن بھوپالی کاہے کہ انہوں نے مختصرنظم کے امکانات کواتنی ناقابل یقین وسعتیں دی ہیں۔‘ بقول انور سدید ’محسن بھوپالی جب بھوپال سے روانہ ہواتواس کے کاندھوں پرغزل کا پھٹا ہوا لبادہ تھا اور منزل دشوار تھی لیکن جب وہ کراچی میں وارد ہوا تو اس کا ذہن نئے جذبے سے معمورتھا اور آنکھوں میں مستقبل سے ٹکرانے کا عزم۔ کچھ عرصے اس نے غزل کی وادی کی خراماں خراماں سیر کی اور پھر قطعے کے چھوٹے سے قصر میں داخل ہو گیا۔ سحر انصاری صاحب نے کہا۔ ’محسن کا طنز بہت تیکھا، تیز اور متاثرکن ہوتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ ان کے طنز میں تلخی یا زہرناکی نہیں ہوتی۔‘ محسن بھوپالی صاحب خوش قسمت تھے کہ انہیں پروفیسر سحر انصاری، سلطان جمیل نسیم،حسن ظہیر، شوکت عابدی جیسی شخصیات کا ساتھ حاصل تھا۔
آخر میں ان کی ایک غزل جس کو بچپن میں، میں بہت سنتا تھا اور اسی غزل کی نسبت سے مجھے محسن بھوپالی کو جاننے کا موقع ملا۔
چمن چمن اسی رنگیں قبا کو دیکھتے ہیں
ہر ایک جلوے میں جلوہ نما کو دیکھتے ہیں

تیرے مزاج سے ہم اس قدر ہوئے مانوس
کہ شاخ گل میں بھی تیری ادا کو دیکھتے ہیں

کلی پہ تیرے لبوں کا گماں گزرتا ہے
گلوں میں ہم تیرے رنگ حنا کو دیکھتے ہیں

یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں ڈوبنے والے
تجھے خبر بھی ہے آب بقا کو دیکھتے ہیں

دمکنے لگتے ہیں ذرے جدھر سے تو گزرے
ستارے جھک کے تیرے نقش پا کو دیکھتے ہیں

تجھے ہو علم تو کیسے، کہ دیکھنے والے
چھپا کے تجھ سے تیری ہر ادا کو دیکھتے ہیں
کچھ اس میں اور ہی چاہت کا لطف ہے محسن
ہم اجنبی کی طرح آشنا کو دیکھتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments