کچھ یادیں مغویہ بسنت کی (1)


\"\"پتہ نہیں جب بھی موسمِ بہار کی آمد سے قبل، میڈیا میں بسنت کا ذکر چھڑتا ہےتو میڈیا کا ایک خاص طبقہ، اسے کافروں کا  تہوار، خلاف مذہب اور پتہ نہیں کیا کیا قرار دے کر اس طرح سختی سے رد کردیتا ہے جیسے اس تہوار کو منانے سے انسان کو تجدید ایمان کرنا پڑتا ہے۔  چند عاقبت نااندیش افراد کی وجہ سے کچھ حادثات ہونے سے اس تہوار کو خونی تہوار بھی قرار دے کر ہمیشہ کے لیے اس کا گلہ بھی گھونٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مجھے اس تہوار کو مسلمان یا ھندو ثابت کرنے میں دلچسپی نہیں۔ میں تو بسنت سے جڑی اپنی بچپن کی یادیں آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ شاید آپ کو اندرون شہر لاہور کے بچوں سے لے کر بڑوں تک میں پتنگ بازی کا جنون اور بسنت کے موقع پر اس کے بھر پور اظہار کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔

اگر آپ نے کبھی لاھور کے اندرون شہر کو دیکھا ہے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہاں کیسی تنگ و تاریک گلیاں ہوتی ہیں کہ جہاں بارانی جنگلات کی طرح روشنی بھی گلی تک بڑی مشکل سے پہنچتی ہے اور اگر کبھی کوئی مرگ بھی ہوجائے تو مُردے کو چاپائی کی بجائےڈنڈا ڈولی کرکے کسی قریبی مسجد یا امام بارگاہ میں لے جایا جاتا ہے۔ ان تنگ و تاریک گلیوں کو سمجھنے کے لیے مشتاق یوسفی کا یہ جملہ کافی ہ وگا کہ بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر کوئی مرد اور عورت آمنے سامنے آجائے تو پھر نکاح کی گنجائش ہی رہ جاتی ہے۔

میں نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تواپنے آپ کو اندرون شہر کے محلے موچی دروازہ میں پایا۔ میرے بچپن کی یاد میں دور دور تک چھتوں کا نظارہ ہی شامل ہے کیونکہ ہم بالائی منزل پر رہائش پزیر تھے۔

 موچی دروازے کا قریب ترین باغ، تاریخی موچی باغ ہے جہاں بڑے بڑے شعلہ بیاں مقررین نے حاضرین کے دلوں کو گرمایا۔ ہم اسکول سے فارغ ہو کر اسی موچی باغ میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ موچی باغ کے باہر سرکلر روڈ پر بھاری ٹریفک رواں دواں رہتی۔ ٹانگے ریہڑے، ہتھ گاڑیاں، اومنی بسیں، ڈبل ڈیکر سب اپنی اپنی رفتار سے چل رہی ہوتیں۔ اور اب تک ٹریفک کا حال یہی ہے ۔ ہاں ٹانگے اب تقریباً معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ چنگ چی نے لے لی ہے۔

\"\"

جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا مجھے آسمان پر اڑتی پتنگیں بڑی اچھی لگتیں۔ میں اکثر چھت کھڑا ہو کر اڑتی پتنگوں کو دیکھا کرتا تھا۔ شروع میں ہم موچی دروازے کے ایک محلے مغل حویلی میں بھی رہے۔ ہمارے ساتھ والی حویلی میں ایک بہت بڑی فیملی رہتی تھی جو آتش بازی کا سامان اپنی حویلی میں ہی بناتے تھے۔ ان کے گھر کے مرد ہر اتوار کو پتنگ بازی کیا کرتے تھے۔ یہ 70 کی دھائی کی بات ہے۔ میں بھی اس دن اپنی چھت پر موجود ہوتا اور دعا کرتا کہ یااللہ ہوا کا رخ میری چھت کی طرف ہو تاکہ میں انکی پتنگ کٹنے کی صورت میں ڈور لوٹ سکوں۔ اور جب بھی ایسا ہوجاتا میں کافی ڈور لوٹتا اور اس طرح ایک پِنّا جو مختلف قسم کے رنگوں کی ڈوروں کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا تھا معرض وجود میں آجاتا جس سے نہ صر ف ہم کٹی پھٹی پتنگیں روٹی کے نوالے سے جوڑ کر اڑاتے بلکہ اس سے ہم گاٹیوں کے پیچ بھی لڑایا کرتے تھے۔ اس حویلی کے ایک بڑے کا نام آفتاب ابھی تک یاد ہے جو ماہر پتنگ باز تھے۔ مگر پھر ایک دن اس حویلی میں آتش بازی کے ذخیرے میں بھیانک آگ لگ گئی اور حویلی سے ساتھ ساتھ تقریباً پورا خاندان بھی جل گیا۔ مجھے یاد ہے کہ کیسے اس حویلی تک فائر بریگیڈ بڑی مشکل سے پہنچی مگر کسی کی کوششیں بارآور نہ ہو سکیں۔ میں ارد گرد کی گلیوں میں لوگوں کے جمِ غفیر میں کھڑا تھا جہاں حویلی کے اندر سے بار بار دھماکوں کی آواز یں آ رہی تھیں۔ میں ایک میڈیا رپورٹر کی طرح جو کچھ ادھر ادھر سے سنتا وہ بھاگ کر امی کو رپورٹ کردیتا ۔ اور جواب میں امی کی توبہ استغفار بلند ہوجاتی اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرتیں۔ اس حادثے میں تقریباً 20 سے زیادہ جانیں گئیں۔ جس میں آفتاب بھائی کے بہن بھائی اور ان کے بچے بھی شامل تھے۔ ہم ان دنوں اس حویلی سے کچھ دور چوک نواب صاحب میں شفٹ ہو چکے تھے ۔

کچھ بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ جس پتنگ بازی سے ہم والہانہ عشق کرتے ہیں میرے والد صاحب اس سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں اور اسے \"\"اچھی  تفریح نہیں سمجھتے ۔ اپنے والد صاحب کے پتنگ بازی کے بارے میں خیالات جان کر مجھے بے حد مایوسی ہوئی۔ اس کا حل یہ نکالا کہ جب والد صاحب گھر سے باہر ہوتے تو میں چھت پر ہوتا۔ چونکہ گھر میں گڈی، گڈا، پتنگ رکھنا بہت بڑا جرم بن چکا تھا لہذا میں کوشش کرتا کہ لوٹی ہوئی پتنگ کو چھت پر ہی کہیں چھپا دوں۔ 70 کی دھائی میں میری عمر کوئی 10-12 سال تھی اور گھر میں، پتنگ بازی میں پابندی لگنے سے میری اس سے محبت دوآتشہ ہوگئی۔ میں باھر سبزی بھی لینے جاتا تونظر آسمان پر ہوتی اور اگر کوئی گڈی کٹ کر تنگ گلی میں آ جاتی تو اسے لوٹنے والوں میں،  میں بھی اپنا حصہ ضرور ڈالتا ۔ یہ پتنگ لوٹنے کا بھی عجیب مزہ ہوتا ہے۔ کہ ہر بندہ اسی نظر سے اس کے پیچھے ہوتا ہے کہ وہی اس کا مالک بن پائے گا۔ مگر پکڑ، ایک ہی پاتا ہے، اور جس نے اسکی ڈور یا گڈی پہلے پکڑ لی وہ آواز لگا دیتا،  ’’پھڑ لئی اے، پھڑ لئی اے ھن سب پِچھا ں ہٹ جاو (کہ اب گُڈی پکڑ لی ہے سب پیچھے ہٹ جاو)‘‘ یہ لفظ سنتے ہی ناکام لٹیرے پیچھے ہٹ جاتےاور گُڈی لوٹنے والا فاتحانہ انداز میں اس گُڈی کو لہراتا ہوا اپنی راہ لیتا۔ بعض اوقات ایک گُڈی دو تین لٹیروں کے ہاتھوں میں بیک وقت آجاتی تو پھر اسکی ملکیت کا فیصلہ اسکی چیڑ پھاڑ پر ہی منتج ہوتا تھا۔ اور جیسے ہی پتنگ کسی کے ہاتھ آجاتی یا پھٹ جاتی تو پھرہر کوئی اپنے اپنے کام میں لگ جاتا ۔ ایسا بھی دیکھنے اور سننے کو ملا کہ بچے اندرون شہر کے کسی اسکول کے کُھلے میدان میں سالانہ امتحان دے رہے ہیں اور اس دوران کوئی پتنگ آجاتی تو بچوں کی اکثریت اساتذہ کی تنبیہ کے باوجود،  اس پتنگ کو لوٹنے کے لیے پرچہ امتحان نیچے رکھ کر دوڑ پڑتی۔ اور اساتذہ کے ڈنڈے کھانے کے باوجود اس پتنگ کا پیچھا کیا جاتا تاآنکہ کسی ایک فاتح کے ہاتھ نہ آجاتی۔ کئی دفعہ تو اندرون شہر کے جمے پلے اساتذہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوجاتے یا پھر کسی بچے کے ہاتھ میں پتنگ آجانے کے باوجود اسے بحق سرکار ضبط کرلیتے کہ اسکول میں \"\"پتنگ بازی کرنا یا پکڑنا منع ہوتا ہے۔ جب میں نے تعلیم حاصل کرکے ایک پرائیویٹ اسکول میں خود پڑھانا شروع کردیا تو والد صاحب کی گرفت ڈھیلی ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار چھت پر گڈی بازی کا چسکا لے ہی لیتا اور ایک بسنت میں جب میری گُڈی میرے ہمسائے میں موجود شاگرد نے کاٹ دی تو میں نے اسے بظاہر غصے سے اشارہ کرکے کہا کہ ’’بچو! زرا سکول آ، پھر تمہیں مزا چکھاؤں گا استاد کی گڈی کاٹنے کا۔ یہ سن کر وہ بیچارہ دو دن تک اسکول ہی نہ آیا اور پھر جب تیسرے دن وہ ڈرتا ڈرتا اسکول آیا تو میں نے فوراً اسے دیکھ کر بلایا اور پوچھا کہ اسے آخر جراؐٔت کیسے ہوئی اپنے استاد کی گڈی کاٹنے کی۔ کیا اسے علم نہ تھا کہ یہ گڈی اس کے استاد کی ہے اور استاد کی گڈی کاٹنا مطلقاً حرام ہے۔ اگرچہ میں اس بچے سے معصومانہ مذاق کررہا تھا مگر اس کا ڈر کے مارے برا حال تھا۔

اندرون شہرمیں کھیل کے میدان ناپید ہوتے ہیں۔  گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ کوئی کھیل نہیں کھیلا جا سکتا ۔ اگر کبھی کسی گلی میں کرکٹ وغیرہ ہوتی بھی تھی تو بال جب بار بار موری (اندرون شہر کی کھلی نالیاں) میں گرتی ہے تو بچے تو اس گیند کو موری میں ہاتھ ڈال کر اٹھا لیتے اور بھیگی گیند سے ہی بغیر کسی وقفے کے کھیلنا شروع کردیتے مگر اسی دوران قریب سےگزرتے نمازیوں کے جب کپڑے اس بھیگی گیند کی چھینٹوں سے خراب ہوجاتے تووہ فوراً باوضو ہونے کے باوجود پہلے ان ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو کچھ بے ضرر قسم کی گالیاں دیتے تاکہ وضو نہ ٹوٹنے پائے اور پھر سب کھلاڑی، بزرگوں کے احترام میں گیم بند کردیتے۔ مگر وہ بزرگ جنکے کپڑے نجس پانی سے خراب ہوچکے ہوتے وہ اس پر ہی بس نہ کرتے بلکہ سب کو پھر بے نمازی قرار دے کر نماز کی تلقین کرتے اور انہی کھلاڑیوں میں سے اپنا بچہ، بھانجا یا بھتیجا کان سے پکڑ کر اپنے ساتھ گھر لے جاتے تاکہ کپڑے بدل کر اسے اپنے ساتھ ہی مسجد میں لے جا سکیں۔ اسی طرح گلی میں کھیلتے ہوئے اگر کسی کے گھر کا کوئی شیشہ ٹوٹ جاتا توپھر اس گلی میں دوبارہ کھیل شروع کرنا اتنا آسان کام نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نیچے گلیوں میں کھیل نہ ہونے کی وجہ سے فقط چھت پر پتنگ بازی ممکن تھی کیونکہ چھت بہرحال ہر گھر کواپنی اپنی میسر ہوتی ہے۔\"\"

اندرون شہر جیسے علاقوں میں آبادی افقی (Horizantal)نہیں بلکہ عمودی  (vertical) طور پر بڑھتی ہے اس لیے اندرون شہر کے مکانات آپ کو دیہات یا کھلی آبادیوں کی طرح بڑے بڑے صحنوں اور ایک یا دومنزلوں میں نظر نہیں آئیں گے بلکہ چھوٹے چھوٹے رقبوں میں کئی کئی منزلہ نظر آئیں گے۔ جہاں اندرون شہر میں چھوٹے چھوٹے رقبہ جات میں کئی کئی منزلہ عمارات کھڑی ہیں وہیں قدیم حویلیاں بھی موجود ہیں جہاں تقسیم ھند کے بعد کئی کئی خاندان آباد ہیں۔ ان میں سے کئی حویلیاں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سےیا تومکمل طور پر مسمار ہوچکی ہیں یا آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ یا پھر ان پر نئے مکانات تعمیر ہو چکے ہیں؟

جب گلیوں میں کھیلنے کی سہولتوں کا فقدان ہو تو پھر بچے کہاں جائیں؟ لے دے کر چھت ہی واحد تفریح کی جگہ رہ جاتی ہے۔ گرمیوں میں چھت پر سونا اور سردیوں میں عورتوں کا چھت پر دھوپ سینکنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی جوئیں نکالنا اور پھر تیل لگا کر کنگھی کرنا بھی محبوب مشغلے ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہاں بے روزگار نوجوان کبوتر پالتے ہیں۔

70 کی دھائی میں، موچی دروازہ میں پتنگوں کی کئی دکانیں ہوتی تھیں جن میں سے پاپا گڈی فروش اور ناصر گڈی فروش وغیرہ ابھی تک یاد ہیں ۔جہاں سے ہم عام گڈی جیسے’’پری‘‘، ’’کُپ‘‘، ’’پتنگ‘‘،’’گڈا‘‘، ’’شرلا‘‘ سے لکر ہر قسم کی ڈور خرید سکتے تھے اور بسنت کے موقع پر تو یہ کاروبار عروج پر ہوتا تھا۔۔ ان گڈیوں کو بنانے کے ماہر کاریگر بھی گلی گلی پائے جاتے تھے جو جوچھری نما تیز دھار آلات کی مدد سے بانس کو باریک چھیل کر،  اور غالباً سرسوں کے تیل میں بھگو کر تیلا تیار کرتے تاکہ اس میں لچک رہے۔ اور ہم بھی کسی کَنّی مارنے \"\"والے گڈے کو سبق سکھانے کے لیے اسے اپنے سر پر پھیر کر اسکا ’’کُب‘‘ نکالتے تھے۔ اور اسکی دم پر کسی کپڑے کی لمبی پٹی بھی باندھتے تھے کہ وہ سیدھا اڑے۔ ظاہر ہے کہ ہم کوئی پیشہ ور یا ماہر پتنگ بازتو تھے نہیں بس ایک عام بچے تھے جس کی واحد تفریح یہی تھی۔ اس طرح موچی دروازہ کے باہر بدرو (گندا نالا) کے ساتھ ساتھ،  ڈور کو مانجھا لگانے والے کاریگر بھی ہوتے تھے جو درختوں کے تنوں کو زمیں میں گاڑ کر ان کے گرد دھاگہ لپیٹ کر اسے کانچ، سریش، چاول کی پیچ اور رنگ ڈال کر مانجھا لگایا کرتےتھے۔ اس زمانے میں سرخ، کالی، میرون رنگ کی ڈور کو میں اچھی خیال کیا کرتا تھا جبکہ پیلے رنگ کی ڈور مجھے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔کیونکہ یہ جلد کٹ جایا کرتی تھی۔ اسی طرح سیدھے وٹوں والی ڈور کے بارے میں خیال تھا کہ یہ لمبے پیچ لڑانے کے لیے ہوتی ہے جبکہ الٹے وٹوں یعنی بَل والی ڈور تیز ہاتھ مارنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہ ڈور گوٹ میں ناپی جاتی ہےاب ایک گوٹ میں کتنے میڑ لمبائی ہوتی ہے مجھے علم نہیں ۔ ایک عام پِنّے میں پانچ سے سات گوٹ ڈور ہوتی تھی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments