سرگودھا۔۔ میری جنتِ گم گشتہ


 اور پھر میں اپنی جنتِ گم گشتہ میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔۔۔

یہ شہر جسے میں اپنی جنتِ گم گشتہ مانتی ہوں۔

 شہرِ سر گودھا ہے۔۔ گول چوک کی سر یعنی تالاب کے گردا گرد اُسر کر پھیل جانے والا یہ البیلا شہر جس کے دروازوں، پرانے محلوں کی لہریئے دار پر پیچ گلیوں، پھاٹکوں، پرانے چوباروں اور جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے پلازوں، میں، گم ہو جانے والی اپنی جنت کے موہوم نشان ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔آج سے پچاس برس قبل یہ شہر اچانک میرا ہو گیا تھا۔

کہ میرے ماں باپ نے اس شہر میں ایک ایسے عافیت کدے کا انتظام کر لیا تھا۔

جس کے ماتھے پر 287-a درج تھا۔ جوگیا چوبی گیٹ پر بوگن ویلیا کے سر خ پھول ہمہ وقت گل پاشی کرتے رہتے تھے۔

جس کی روشوں پر مہندی اور دیسی گلاب کی مہک جھوما کرتی تھی۔ جس کے آنگن میں کھڑے جامن کے پیڑ پر چڑیاں اور جنگلی کبوتر چونچیں لڑایا کرتے تھے۔ جہاں آم کے پیڑ تلے سفید ململ کے کر تے میں ملبوس دنیا کا سب سے خوبصورت شخص اکثر پایا جاتا تھا۔ جس کے حقے کی نے چاندی کی تھی اور جس کی گڑگڑاہٹ میں زندگی کے سازوں کی لے گونجتی تھی۔

وہیں انار کی سرخ کلیوں، شہتوت اور موتیے کی بھینی خوشبو میں لپٹی وہ عورت ہمہ وقت دیکھی جاتی تھی جو اس عافیت کدے کی جان تھی۔ دنیا کی سب سے مہربان اور پیاری عورت، جس کی مامتا کے حصار میں آنے سے کوئی بندہ بشر بچ نہ سکتا تھا۔ \"\"

اس وقت سر گودھا کی حیثیت آس پاس کے اضلاع میں مرکزی تھی۔ اسی لئے ارد گرد کے علاقوں کے بڑے زمینداروں نے وہاں ڈیرے ڈ ال لئے تھے۔ ٹوانے، نون، بندیال، لالی، قریشی، مخدوم۔۔۔ اور کلیار وغیرہ اس شہر میں بڑی بڑی کو ٹھیاں بنا کر آباد ہو چکے تھے۔ مقصد بچوں کی تعلیم تھی۔ اچھے سکول صرف دو عدد تھے۔ کانونٹ مشن سکول اور پی اے ایف کیڈٹ کالج۔ جن میں زمینداروں کے بچے اندھا دھند داخل ہوتے جا رہے تھے۔

وہ صبح میرے حافظے کی کتاب میں تتلی کے رنگین پر کیطرح آج بھی محفوظ ہے جب میرا دیہاتی وضع قطع کا وجہیہ باپ، چیئر مین کے لٹھے کی تہمبند کھڑ کھڑاتا، سسٹر گارسیا کے انگریزی میں لبالب ڈوبے آفس میں داخل ہوا تھا۔ مشنری مدر نے اپنی نرم مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا۔ اور آپسی بات چیت کے مراحل مسسز میسی ( اینگلو انڈین ٹیچر) نے آسان کر دیے۔ یوں پرنٹیڈ ساٹن کی پھولی ہوئی فراک پہنے ایک رونی بچی سکول کا حصہ ہوگئی۔

سکول کیا تھا۔ علم کی ایک چھوٹی سی دنیا تھی۔ جسے جرمن مشن کے تحت چلایا جاتا تھا۔ انتظامیہ جرمن راہباﺅں پر مشتمل تھی جنہوں نے تعلیم کے لئے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ سٹاف میں عیسائی اور مسلمان ٹیچر شامل تھے۔ جن میں مسسز میسی، مس نگہت، مس روزی کے علاوہ مسز منان، مسز وائن اور مس اختر جیسی اعلیٰ کردار اور اوصاف کی معلمات شامل تھیں۔ یاد آیا ان میں ایک نام خو ش ادا اور خوش جمال مس آئلن کا بھی تھا۔ جس کی رنگت ہو بہو سونے جیسی تھی اور جس کے بال اتنے دراز تھے کہ ان کے ساتھ لٹک کر جھولا جھولنے کو دل کرتا تھا۔ یہ وہ کرسچئن ٹیچر تھی جس پر پورا سر گودھا پوری جان سے مرتا تھا۔ مگر وہ کس پر مرتی تھی ؟یہ ایک راز تھا کھلا راز۔ جسے سکول کا سٹاف ایک دوسرے کے کانوں میں انڈیلتا تھا۔ اور اس خوش ادا کرسچیئن ٹیچر سے اندر ہی اندر جلتا تھا۔!

مگر یہ وہ وقت تھا جب یہ شہر میرا تھا اور میں ایک چھوٹی سی رونی بچی ہوا کرتی تھی۔

 اب کہ اس شہر میں، پچھلے دو دن سے مسافر ہوں۔ او ر شہر کے اندر گم ہو چکے شہر کو ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔ کہ اس شہر پر اب، سر بند ڈبوں جیسے پلازوں، گلی گلی اگ آنے والی مارکیٹوں، بل بورڈوں، پینا فلیکس اور ایسی اجنبی مخلوق کا قبضہ ہے جو کربل کربل کرتی اس شہر پر چھا چکی ہے۔۔ یہ مخلوق ڈیروں، قصبوں اور چھوٹے چھوٹے دیہات سے اٹھ کر یہاں قابض ہو گئی ہے۔

 اور اس شہر سے وہی سلوک کر رہی ہے جو کوئی اجڈ گنوار نووارد ہی کر سکتا ہے۔

 دنیا کے سارے اسلامی اور انگریزی ناموں کے کوٹھی سکولوں میں اب اسی مخلوق کے بچے پائے جاتے ہیں۔ ہر گلی ہر سڑک پر تین چار ہوسپٹل ہیں، جن کے سامنے لاچار دیہاتیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ شہر کا کلچر جس پر پانچ دہائیاں قبل دیہاتی رنگ غالب تھا۔ اب نہ شہری ہے نہ دیہاتی۔ اس الم غلم کی کھچڑی کا اب خدا جانے کیا رنگ ہے، جس پر چھوٹے کاروباری طبقے کا قبضہ ہے۔ جس نے تعلیم، صحت اور کاروبار کے نام پر اس بے مثال شہر سے نہ صرف اس کی شناخت چھین لی ہے بلکہ اس کی گلیوں کی وہ مہمان نوازی بھی۔ جو اس کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔

۔۔۔ کبھی جب یہ شہر آزاد ہوا کرتا تھا اورزندہ بھی !

 تو اس میں ریل کی سیٹی کی آواز پورے رومانوی تاثر سے گونجا کرتی تھی۔ اور ریلوے اسٹیشن کی عمارت اس رومانویت پسندی سے بھیگی رہتی تھی۔ ریلوے اسٹیشن جیسے شہر کے سارے بے فکروں کی جنت تھا۔جو اس کے ٹی اسٹالوں اور بک سٹالوں پر مکھیوں کی طرح بھنبھناتے رہتے تھے۔یہ سٹا ل دن رات جاگتے رہتے تھے۔  گاڑیوں کی آمد ورفت کے ساتھ مسافروں کا آنا جانا۔ انہیں الوداع اور خو ش آمدید کہنے والوں کی بھیڑ اور اس بھیڑ میں گھرے یہ بک اور ٹی سٹال ایک طرح سے عوامی اجتماعیت کی علامت تھے۔

جہاں رات کے کسی بھی حصے میں گرم چائے اور تازہ رسائل و جرائد دستیاب ہو جایا کر تے تھے۔

مگر زندگی کے خوبسورت رنگوں سے بھرے اس ریلوے اسٹیشن پر اب پرانے وقتوں کے بھوت رہتے ہیں۔ یاد آیا کبھی اس شہر میں ایک زندہ بازار بھی ہوا کرتا تھا، امین بازار (اب بھی ہے مگر لگتا ہے مر گیا ہے) جو میرے لئے پیرس کے شانزے لیزے سے کم نہ تھا۔ اس کی پر اسرار گلیوں کی دلربائی میں، میرے گاﺅں کے پینڈو راستہ بھول جاتے تھے۔ ایک گول چوک ہوا کرتا تھا ( اب بھی ہے مگر نہ ہونے جیسا) جس کی چھتی ہوئی گلیوں میں پھرتے ہوئے، کڑھائیوں اور گوٹا کناری کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر رکتے ہوئے جو سکھ کا احساس ہوا کرتا تھا۔ شہر کے بے ڈھب پلازوں میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ خواب اور حقیقت کے بین بین ٹھہرے ہوئے اس شہر کی شامیں، بے شک شام اودھ جیسی نہ تھیں مگر اس سے کم دلکش بھی نہ تھیں۔ وہ زمانہ جو اس کی جنت میں خاک ہو گیا۔ اس کی تصویریں بنانے کی کوشش عبث۔ کہ ماضی کی راکھ میں اب ڈھونڈنے سے بھی کوئی چنگاری دکھائی نہیں پڑتی۔ البتہ یہ دل کہ اب بھی ماضی کی جنت کو ڈھونڈنے پر مصر ہے۔

 اپنے مادر علمی کانونٹ کو دیکھ کرسکول کی بوڑھی پڑ جانے والی عمارت کے سامنے کھڑی میں خود سے پوچھ رہی تھی؟

وہ زمانے کیا ہوئے جب عمارت جوان تھی۔ اور اس گیٹ سے گزر کر سرخ ربن بالوں میں اڑسے ایک رونی شکل والی بچی ڈبل ہائیٹ کے چھت والی اس کلاس میں جایا کرتی تھی جہاں۔ روزانہ مخصوص راہبانہ لباس میں ملبوس، سسٹر مارتھا مہارت سے پیانو بجایا کرتی تھی۔اور بابا بلیک شیپ رونی آواز میں گانے والی بچی کلاس سے بھاگ جانے کی تدبیریں سوچا کرتی تھی۔

 شاید اب یہاں پیانو نہیں بجتا۔ اسی لئے عمارت اتنی خاموش اور بوڑھی لگ رہی ہے۔

یہ سوچتے ہوئے مجھے یاد آیا اب تو اس شہر سے سفید ململ کے کرتے والے وجہیہ شخص کی خوشبو بھی نہیں آتی۔ اور وہ دنیاکی مہربان اور نایاب عورت جس کی مامتا کی کوئی حد تھی نہ حساب۔ اس کا بھی دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔

کہ برسوں پہلے دو میت گاڑیوں میں وہ دونوں اٹھ گئے 287-اے سے۔ جہاں ان کے ہونے سے جہاں کے ہونے کا یقین ملا کرتا تھا۔

پھر میں پچھلے دو دن سے مسافر ہو کر کسے ڈھونڈتی پھرتی ہوں؟

وہ گلی جس میں کبھی اک عافیت کدہ تھا۔ اس میں جانے کی ہمت پیدا کرتی ہوں مگر جا نہیں پاتی۔

 کہ وہاں اب کوئی نہیں رہتا۔ کچھ کو زمین کھا گئی، کچھ کو اسمان نے نگل لیا۔ جو باقی بچ گئے وہ بوڑھی ہوجانے والی یادوں میں خود کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

 پتہ نہیں پرانے شہر اور پرانے گھر اتنا دکھ کیوں دیتے ہیں ؟

وہ جنتیں جو ان میں گم ہو کر رہ جاتی ہیں۔ انسان انہیں ڈھونڈنے کی کوشش میں خود کو خاک کیوں کرتا رہتا ہے؟ یہ سوال میں ہر دفعہ خود سے پوچھتی ہوں۔ اور کوئی جواب نہ پاکر اگلی دفعہ دوبارہ انہی گلیوں۔ بازاروں، اور پرانی سڑکوں پر خود کو کھڑا پاتی ہوں۔

اک نئے دکھ اک نئی چبھن کے ساتھ۔

اے میری جنتِ گم گشتہ۔۔۔ کیا اس سوال کا کہیں کوئی جواب ہے ؟

اپنے شہروں میں مسافر ہو جانے والے۔ بار بار ان کی طرف پروانوں کی طرح کیوں لپکتے ہیں؟

 جب کہ وہاں کوئی شمع روشن نہیں ہوتی۔

 کوئی کھڑکی کھلی نہیں ہوتی۔کوئی در وا نہیں ہوتا ..

 کوئی چہرہ شناسا نہیں ہوتا۔

کسی دل میں انتظار کی محفل آباد نہیں ہوتی۔

 دور سے آتی ر یل کی سیٹی اور انجن کی چھکا چھک سے کسی دل میں رومانویت نہیں بھرتی۔

 کہ اسٹیشن پر بھوتوں کا قبضہ ہے اور دلوں پر گزرے وقت کی راکھ کی دبیز تہہ۔

اے میری جنتِ گم گشتہ۔۔۔ میں تجھے کہاں سے ڈھونڈوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments