منٹو نے فحاشی کے الزام پر اپنا دفاع کیسے کیا؟


منٹو کے چھے افسانوں، ”کالی شلوار“، ”دھواں“، ”بو“، ”ٹھنڈا گوشت“، ”کھول دو“، اور ”اوپر نیچے اور درمیان“ پر فحاشی کے الزام کے تحت فوجداری مقدمے چلائے گئے۔ ان میں سے ابتدائی تین کہانیوں پر مقدمات برطانوی دور حکومت میں قائم ہوئے اور بقیہ تین تحریروں پر مملکت پاکستان میں درج ہوئے۔ آج پاکستان میں منٹو کی شائع ہونے والی کتابوں میں یہ افسانے شائع کیے جا رہے ہیں۔ ان کے فحش ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وقت نے کیا ہے۔ مدیر۔

میں ساقی بک ڈپو دہلی کی مطبوعہ کتاب بعنوان “دھواں ” کا مصنف ہوں ۔ یہ کتاب میں نے 1941 میں جب کہ میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازم تھا، ساقی بک ڈپو کے مالک میاں شاہد احمد صاحب کے پاس غالباً تین یا ساڑھے تین سو روپے میں فروخت کی تھی۔ اس کے جملہ حقوق اشاعت اب ساقی بک ڈپو کے پاس ہیں ۔ اس کتاب کے جو نسخے میں نے عدالت میں دیکھے ہیں، ان کے ملاحظہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے ۔ چوبیس افسانوں کے اس مجموعے میں جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں، دو افسانے بعنوان “دھواں “، اور “کالی شلوار” استغاثے کے نزدیک عریاں اور فحش ہیں ۔ مجھے اس سے اختلاف ہے، کیوں کہ یہ دونوں کہانیاں عریاں اور فحش نہیں ہیں ۔

کسی ادب پارے کے متعلق ایک روزانہ اخبار کے ایڈیٹر، ایک اشتہار فراہم کرنے والے اور ایک سرکاری مترجم کا فیصلہ صائب نہیں ہو سکتا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ تینوں کسی خاص اثر، کسی خاص غرض کے ماتحت اپنی رائے قائم کر رہے ہوں اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں حضرات ایسی رائے دینے کے اہل ہی نہ ہوں ۔ کیوں کہ کسی بڑے شاعر، کسی بڑے افسانہ نگار کے افسانوں پر صرف وہی آدمی تنقید کر سکتا ہے جو تنقید نگاری کے فن کے تمام عواقب و عواطف سے آگاہ ہو۔

استغاثے نے میرے دو افسانوں پر کوئی بصیرت افروز تنقید نہیں کی۔ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ یہ دونوں افسانے فحش ہیں، اس آدمی کی جو روشنی کا خواہش مند ہے، جو اپنے عیوب و محاسن جاننا چاہتا ہے اور ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے ، ہر گز ہرگز تسکین نہیں ہوتی۔ میں اگر جواب میں صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو جاؤں کہ یہ دونوں افسانے فحش نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ میں اندھیرے میں اور بھی اضافہ کروں گا۔ مگر میں ایسا نہیں کروں گا اور جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا، اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

زبان میں بہت کم لفظ فحش ہوتے ہیں ۔ طریق استعمال ہی ایک ایسی چیز ہے جو پاکیزہ سے پاکیزہ الفاظ کو بھی فحش بنا دیتا ہے ۔ میرا خیال ہے کوئی بھی چیز فحش نہیں ہے ۔ لیکن گھر کی کرسی اور ہانڈی بھی فحش ہو سکتی ہے، اگر ان کو فحش طریقے پر پیش کیا جائے ۔ چیزیں فحش بنائی جاتی ہیں ، کسی خاص غرض کے ماتحت مرد اور عورت کا رشتہ فحش نہیں، لیکن جب اس رشتے کو چوراسی آسنوں یا جوڑدار خفیہ تصویروں میں تبدیل کر دیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تخلیے میں اس رشتے کو غلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناؤنا، مکروہ اور غیر صحت مند کہوں گا۔

فحش اور غیر فحش میں تمیز کرنے کے لیے شاید یہ مثال کام دے سکے ۔ ایک آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے ننگی عورتوں کی بہت سی تصویریں پیش ہوئیں ۔ ان میں سے کسی نے بھی جیسا کہ ظاہر ہے ، دیکھنے والوں کا اخلاق خراب نہ کیا اور نہ ان کے شہوانی جذبات ہی کو ابھارا۔ البتہ ایک تصویر جس میں عورت کا سارا بدن کپڑوں میں مستور تھا اور ایک خاص حصہ اس ترکیب سے نیم عریاں چھوڑدیا گیا تھا کہ دیکھنے والوں کے جذبات میں گدگدی سی ہوتی تھی، فحش قرار دی گئی، کیوں ؟ اس لیے کہ آرٹسٹ کی نیت میں فرق تھا اور اس نے جان بوجھ کر لباس کو کچھ اس طرح اوپر اٹھا دیا تھا کہ دیکھنے والوں کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ جائے اور وہ اپنے تصور سے مدد لے کر اس نیم عریاں حصے کو عریاں دیکھنے کی کوشش کریں ۔

بنگال کی وہ ستم رسیدہ عورت جس کے پاس تن ڈھانپنے کو صرف چند چیتھڑے میسر ہیں، ہرگز عریاں قرار نہیں دی جا سکتی۔ مگر کسی کلب کی وہ تیتری یقینا فحش اور عریاں ہے جو نمائش کی خاطر بلاؤز میں سے اپنے پیٹ اور اپنی چھاتیوں کو باہر جھانکنے کی اجازت دیتی ہے ۔ تحریر و تقریر میں شعر و شاعری میں، سنگ سازی و صنم تراشی میں،فحاشی تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کی ترغیب ٹٹولنی چاہیے ۔ اگر یہ ترغیب موجود ہے ، اگر اس کی نیت کا ایک شائبہ بھی نظر آ رہا ہے تو وہ تحریر،وہ تقریر، وہ بت قطعی طور پر فحش ہے ۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ ترغیب “دھواں ” میں موجود ہے یا نہیں ؟ آئیے ہم اس افسانے کا تجزیہ کرتے ہیں ۔

مسعود ایک کمسن لڑکا ہے ۔ غالباً دس بارہ برس کا، اس کے جسم میں جنسی بیداری کی پہلی لہر کس طرح پیدا ہوتی ہے، یہ اس افسانے کا موضوع ہے ۔ ایک خاص فضا اور چند خاص چیزوں کا اثر بیان کیا گیا ہے جو مسعود کے جسم میں دھندلے دھندلے خیالات پیدا کرتا ہے، ایسے خیالات جن کا رجحان جنسی بیداری کی طرف ہے ۔ یہ بیداری وہ سمجھ نہیں سکتا، لیکن نیم شعوری طور پر محسوس ضرور کرتا ہے ۔

بے کھال کا بکرا جس میں سے دھواں اٹھتا ہے، سردیوں کا ایک دن جب بادل گھرے ہوتے ہیں اور آدمی سردی کے باوجود ایک میٹھی میٹھی حرارت محسوس کرتا ہے، ہانڈی جس میں سے بھاپ اٹھ رہی ہے، بہن جس کی ٹانگیں وہ دباتا ہے، یہ سب عناصر مل کر مسعود کے بدن میں جنسی بیداری پیدا کرتے ہیں ۔ جوانی کی اس پہلی انگڑائی کو وہ غریب سمجھ نہیں سکتا اور انجام کار اپنی ہاکی اسٹک توڑنے کی ناکام سعی کرتا تھک جاتا ہے ۔ یہ تھکاوٹ اس بے نام سی چنگاری کو اس “کچھ کرنے ” کی تحریک کو دبا دیتی ہے ۔

“دھواں ” میں شروع سے لے کر آخر تک ایک کیفیت، ایک جذبے، ایک تحریک کا نہایت ہی ہموار نفسیاتی بیان ہے ۔ اصل موضوع سے ہٹ کر اس میں دورازکار باتیں نہیں کی گئیں ۔ اس میں ہمیں کہیں بھی ایسی ترغیب نظر آتی جو قارئین کو شہوانی لذتوں کے دائرے میں لے جائے ۔ اس لیے کہ افسانے کا موضوع “شہوت” نہیں ہے ۔ استغاثہ اگر ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی کم نظری ہے ۔ خشخاش کے دانے افیم کی گولی بننے تک کافی مرحلے طے کرتے ہیں ۔

میں نے اس کہانی میں کوئی سبق نہیں دیا۔ اخلاقیات پر یہ کوئی لکچر بھی نہیں۔ کیوں کہ میں خود کو نام نہاد ناصح یا معلم اخلاق نہیں سمجھتا۔ البتہ اتنا ضرور سمجھتا ہوں کہ اس لڑکے کو مضطرب کرنے والی چیزیں خارجی تھیں ۔ انسان اپنے اندر کوئی برائی لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ خوبیاں اور برائیاں اس کے دل و دماغ میں باہر سے داخل ہوتی ہیں ۔ بعض ان کی پرورش کرتے ہیں، بعض نہیں کرتے ۔ میرے نزدیک قصائیوں کی دکانیں فحش ہیں، کیوں کہ ان میں ننگے گوشت کی بہت بدنما اور کھلے طور پر نمائش کی جاتی ہے ۔ میرے نزدیک وہ ماں باپ اپنی اولاد کو جنسی بیداری کا موقع دیتے ہیں، جو دن کو بند کمروں میں کئی کئی گھنٹے اپنی بیوی سے سر دبوانے کا بہانہ لگا کر اس سے ہم بستری کرتے ہیں ۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments