منٹو کا فحش افسانہ؟ دُھواں


منٹو کے چھے افسانوں، ”کالی شلوار“، ”دھواں“، ”بو“، ”ٹھنڈا گوشت“، ”کھول دو“، اور ”اوپر نیچے اور درمیان“ پر فحاشی کے الزام کے تحت فوجداری مقدمے چلائے گئے۔ ان میں سے ابتدائی تین کہانیوں پر مقدمات برطانوی دور حکومت میں قائم ہوئے اور بقیہ تین تحریروں پر مملکت پاکستان میں درج ہوئے۔ آج پاکستان میں منٹو کی شائع ہونے والی کتابوں میں یہ افسانے شائع کیے جا رہے ہیں۔ ان کے فحش ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وقت نے کیا ہے۔ مدیر۔

وہ جب اسکول کی طرف روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا، جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس ٹوکرے میں دو تازہ ذبح کیے ہُوئے بکرے تھے کھالیں اُتری ہُوئی تھیں، اور ان کے ننگے گوشت میں سے دُھواں اٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں۔ پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اس کی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔ اس وقت سوا نو بجے ہوں گے مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔

سردی میں شدت نہیں تھی، لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سما وار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دُھواں نکل رہا تھا۔ ہر شے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہُوئی ہے۔ موسم کچھ ایسی ہی کیفیت کا حامل تھا۔ جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہو۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمدورفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے آوازیں مدھم تھیں۔ جیسے سرگوشیاں ہورہی ہیں، چپکے چپکے، دھیرے دھیرے باتیں ہورہی ہیں، ہولے ہولے لوگ قدم اُٹھا رہے ہیں کہ زیادہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔

مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جارہا تھا۔ آج اس کی چال بھی سست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کیے ہُوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دُھواں اُٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہُوئی۔ اس دھوئیں نے اس کے ٹھنڈے ٹھنڈے گالوں پر گرم گرم لکیروں کا ایک جال سا بُن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دُھواں مل جایا کرے تو کتنا اچھا ہو۔ فضا میں اجلا پن نہیں تھا۔

روشنی تھی مگر دُھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہرشے پر چڑھی ہُوئی تھی جس سے فضا میں گدلا پن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ گدلا پن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا اس لیے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔ مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کرکے قطعی طور پر خوشی نہ ہُوئی کہ اسکول سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کردیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے۔

کچھ چھٹی کا پتہ معلوم کرتے ہی گھر چلے گئے۔ کچھ آرہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔ مسعود نے جب سُنا کہ سکتر صاحب مر گئے ہیں تو اسے بالکل افسوس نہ ہُوا۔ اس کا دل جذبات سے بالکل خالی تھا۔ البتہ اُس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے د ادا جان کا انتقال ان ہی دنوں میں ہُوا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دِقت ہِوئی تھی اس لیے کہ بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کُھدی ہُوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔

یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدّت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبے پڑ جاتے تھے۔ ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر آکر ہاتھ پاؤں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ۔ یہ سب کچھ اس کو اچھی طرح یاد تھا، چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سُنی تو اسے یہ بیتی ہوئی باتیں یاد آگئیں اور اس نے سوچا، جب سکتر صاحب کا جنازہ اُٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بِلبِلا اٹھیں گے۔

مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنے کمرے کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے ڈسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو کہ اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں اس میں رکھیں اور باقی بستہ اُٹھا کرگھر کی جانب چل پڑا۔ راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیے ہُوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا۔ دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعو د دکان پر سے گزرا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا چھو کر دیکھے، چنانچہ آگے بڑھ کر اس نے انگلی سے بکرے کے اس حصّے کو چھوکر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا، گوشت گرم تھا۔

مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بہت بھلی معلوم ہُوئی۔ قصائی دکان کے اندر چُھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔ گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سُنائی تو اسے معلوم ہُوا کہ اس کے ابا جی انہی کے جنازے کے ساتھ گئے ہیں۔ اب گھرمیں صرف دو آدمی تھے۔ ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانہ میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کررہی تھی۔

چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے۔ جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں پڑا تھا۔ اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابا جی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش طاق میں پڑا تھا مگر اس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لُوڈو اور اسی قسم کے دوسرے کھیل جو اس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔

سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی ان کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاً ایسے کھیلوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سُنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اس نے سبزسبز پتوں کا گیلا گیلا ڈھیر اُٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اس میں سے سفید سفید دُھواں اُٹھنے لگا۔ اس دھوئیں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوشت یاد آگیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments