کیا تعلیم پر غریب بچے کا کوئی حق نہیں ہے؟ (گل محمد سمیع)۔


\"\"

مانسہرہ کے اس تعلیمی ادارے میں میری کلاس شروع ہونے سے پہلے اردو کی غزل پر بات ہو رہی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے پر بابو صاحب نمودار ہوئے۔ ہم سمجھ چکے تھے کہ فیس یا جرمانہ وصولی ہی کی بات کریں گے۔ خلاف معمول انہوں نے رجسٹر نہ کھولا تو مجھے تعجب ہوا کہ یہ کیا؟ ویسے تو اکاوٹنٹ آتے ہی رجسٹر کھول کر حساب کتاب کرتے ہیں لیکن آج؟
انہوں نے ”بات سنو“ کہہ کر کلاس کو متوجہ کیا اور کہا کہ بورڈ کے داخلے جمع ہورہے ہیں تو آپ سب دوتصاویر اور ڈی ایم سی کی کاپی کیساتھ 2800 روپے داخلے کے لئے لے آئیں۔

اس اعلان کیساتھ ہی دروازہ بند ہوا اور بابو صاحب یہ جا اور وہ جا۔ ساتھ بیٹھا دوست حیران وپریشان ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ خیر اردو کی کلاس کے بعد بریک ہوئی۔ فرسٹ ایئر کے جن لڑکوں سے دعا سلام تھی ان سے ان کے داخلے کا پوچھا تو انہوں نے بڑے تعجب سے 2500 روپے کہا۔ ہم حیران ہوئے یہ کیا؟ کچھ کر تو سکتے نہیں تھے اسی لئے چپ ہو گئے۔ چھٹی ہوئی دوستوں کےساتھ پیدل آ رہا تھا کہ علی نے سوال کیا۔

کیا بورڈ کی ایڈمشن فیس 2800 روپے ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں اگر بہت زیادہ بھی ہوئی تو 1500 ہوگی۔

علی کا دوسرا سوال بڑا معصومانہ تھا۔
کہ باقی پیسے کس لیے؟

میں اس پرہنس دیا اورطنزیہ جواب دیا کہ میم (پرنسپل) کے پرس کے لیے۔

دوستوں کو علم ہے کہ ہم سب ایک مڈل کلاس فیملیز سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ کسی کا باپ فوجی کسی کا سپاہی تو کوئی دیگر شعبوں میں معمولی ملازم ہے۔ کچھ کے والدین کسان ہیں اور کوئی دیہاڑی دار مزدور۔ میرے اپنے والد صاحب ایک سرکاری ڈرائیور ہیں۔ اتنی بھاری مقدار میں ماہانہ فیس ادا کرنے کے بعد ایک معمولی ملازم کی اتنی طاقت نہیں رہتی کہ وہ خون پسینہ بہا کر بورڈ کی فیس اور یہ ٹیکس ادا کر سکے۔ پرائیویٹ اداروں کے چلانے والوں سے سوال ہے کیا یہ ان لوگوں کے بچے نہیں پڑھتے؟

ایسے لوگوں کے بچے تو بڑے بڑے سکولز کالجز میں پڑھتے ہیں۔ کیا ان سےبھی بورڈ کی اتنی فیس مانگی جاتی ہے؟
کیا وہ یہ رقم آرام سے نکال کر دے دیتے ہیں؟
محکمہ تعلیم کیوں سو رہا ہے؟

خدارا غریب لوگوں کو پڑھنے دیا جائے، اگر یہ غریب لوگ نہ پڑھ سکے تو یہ ملک کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

ماضی قریب کو ہی دیکھ لیں۔ چاروں صوبوں میں جتنے بھی بورڈ ہیں اس کے ٹاپر ہمشہ مڈل کلاس فیملی کے طلباء وطالبات ہی رہے ہیں۔ یہ لکھتے ہوئے مجھے پنجاب کا ذیشان یاد آگیا جو دن بھر ٹھیلے پر ٹافیاں بیچ کر اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کیا کرتا تھا پھر ایک دن دنیا نے دیکھا کہ اس نے بھی پنجاب بورڈ ٹاپ کیا۔

عام طور پر دیکھا جائے تو امیر لوگوں کی اولادیں عیش وعشرت میں ہوتی ہیں وہ پڑھیں یا نہ پڑھیں انہیں کوئی غم وفکر نہیں۔ امیروں کی اولاد سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتی ہے ہم غریبوں کے احساسات کو بھی سمجھا جائے۔ والدین جب اپنی اولاد کو خالی ہاتھ بھیجتے ہیں تو ان کی آنکھیں برس پڑتی ہیں۔

میری انکل عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ پرائیویٹ اداروں کے لیے بھی کوئی پالیسی بنائیں۔ کوئی بل لائیں تاکہ اضافی ٹیکس سے ہم بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments