سعادت حسن منٹو کا سرمد کھوسٹ سے مکالمہ


\"\" منٹو : بھئی سرمد ! کام اچھا کیا تم نے

سرمد : جی بس۔۔۔

منٹو : دو لوگ ہی ہیں جنہوں نے میری اچھی خدمت کی۔۔۔ ایک صفیہ نے اور دوسری تم نے

سرمد : بس میرا مقصد تھا کہ آپ کا وہ سچ جو آپ نے لکھا ۔۔۔لوگوں تک پہنچ جائے اور پھر اس کی ریٹنگ بھی اچھی آ رہی ہے۔

منٹو :  Hmmm ۔۔۔ میاں ، یہ ریٹنگ کیا ہوتی ہے ؟

سرمد : سر یہ دوسروں کے فن کی قیمت لگانے کا ایک طریقہ ہے ۔

منٹو : اچھا ۔۔۔ وہی طوائفوں والا کام ۔۔۔

منٹو : سنا ہے میری کتابیں دوبارہ سے بکنے لگ گئیں

سرمد :  جی ہاں، آکسفورڈ والوں کا تو بس نہیں چل رہا آپ کی قبر کا کتبہ بھی پبلش کروا دیں

منٹو : سرمد۔۔

سرمد : جی

منٹو : تم سچ سچ بتاﺅ۔۔اگر آج میں زندہ ہوتا تو کیسا ہوتا\"\"

سرمد : سچ بتا دوں ؟

منٹو : ہاں،،بھئی ۔۔۔پورا سچ

سرمد : جو آپ کی حرکتیں تھیں نا ۔۔آپ تحریک انصاف میں ہوتے

منٹو : کیا پاکستان میں مجھے لوگ پسند کرتے ؟

سرمد : جی۔۔اگر آپ مارننگ شوز میں شرکت کرتے

منٹو : سرمد۔۔ تمہیں یہ کیا ہوا، اچھے بھلے ٹی وی ڈرامے بناتے بناتے ادھر کیسے آ نکلے

سرمد : منٹو صاحب، ہر چیز اپنے اصل کو لوٹتی ہے۔ آپ جیسے بھی ہیں، ہمارے لئے باعث احترام ہیں، قابل فخر ہیں۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس نے آپ سے زندگی کر گزرنے کا حیلہ سیکھا ہے۔ آپ کے لفظ بولتے ہیں۔ آپ کی تحریر پڑھ کر لکھتے ہیں۔ یہاں بہت گھٹن ہو گئی تھی۔ اوریا مقبول ہر چھ ماہ بعد قیامت کی خوشخبری سناتے تھے اور ڈاکٹر شاہد مسعود اس کی نشانیاں بتاتے تھے۔ میں نے سوچا قیامت کیسی ہو گی، پھر میں نے آپ کی کہانیاں پڑھیں، مجھے لگا کہ یہ فیصلہ آدمی کے اندر ہی ہوتا ہے۔۔۔ہر شخص، اپنی جنت اور جہنم ساتھ لے کر جیتا ہے۔

منٹو :      ہاں میاں۔۔۔\"\"

سرمد : منٹو صاحب۔۔۔ یہ آزادی۔۔۔

منٹو : تقسیم کی بات کر رہے ہو!

سرمد :     جی! وہی آزادی۔۔۔

منٹو : میاں، ہندوستان تقسیم ہوا تھا۔ پاکستان تو آج بھی آزاد نہیں ہوا۔ آزاد ہوا تو وہ جانور، جو انسان کے اندر چھپا بیٹھا تھا ۔ تم نے کٹی چھاتیوں اور خونی لاشوں کی کہانی سنی ہے ۔ میں نے ان کا بوجھ ڈھویا ہے ۔ ایک رات سوئے تو بھائیوں جیسے ہمسائے تھے ، صبح اٹھے تو قاتلوں جیسے دشمن۔۔۔ خدا جانے کیسی رات تھی ۔ اب تک نہیں گئی ۔

سرمد : ٹوبہ ٹیک سنگھ ؟

منٹو : ہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ۔۔۔مگر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جو شروع ہوا تھا سرمد۔۔۔ اب دیکھو کہاں تک پہنچ گیا ہے۔

سرمد : مطلب ؟

منٹو : میں نے معاشرے کو مذہب اور سماج سے آزاد کروانے کی کوشش کی تھی مگر دیکھ لو، آج دونوں پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں۔

 سرمد : نہیں ۔۔۔ اب ایسا بھی نہیں۔۔ دیکھ لیجئے آزادی کے صرف ستر برس کے بعد ہم آج اس قابل ہو گئے ہیں کہ مذہب پہ بات کر سکتے ہیں

منٹو : ہاں بس۔۔۔\”کچھ خاص \” کے اندر

سرمد : اچھا چھوڑئیے۔۔۔سنا ہے آپ نے امریکہ والوں کے لئے بھی کام کیا تھا

منٹو : بھائی میں لکھتا تھا۔۔۔ قلم کا مزدور تھا۔۔کام کرتا تھا۔اس کی اجرت لیتا تھا۔ ہاں کام میں کبھی بے ایمانی نہیں کی۔ اگر لگا کہ دھواں اٹھتا ہے تو لکھ ڈالا۔۔۔کبھی سوچا نہیں۔۔ میں نے کبھی کسی نظرئیے کا پرچار نہیں کیا۔۔خود بتاﺅ۔۔ کبھی تہذ یب اور نفسیات کے علاوہ کچھ لکھا۔ تمہارے نسیم حجازیوں اور طارق ساگروں کی طرح تاریخ مسخ نہیں کی۔ سلطانہ اگر شنکر کے ساتھ سوئی تو لکھ ڈالا، یہ نہیں سوچا کہ شنکر کو کلمہ پڑھوا دوں یا سلطانہ کو سیتا کر دوں۔۔۔ تمہارے لوگوں کی طرح، شہد کو اسلامی اور ٹوتھ پیسٹ کو حلال کر کے بیچنا نہیں چاہا۔۔۔۔بھائی اگر بنو امیہ ، بنو عباس فقہ لکھوا سکتے ہیں اور ملک ریاض پیسے دے کر فلمیں بنا سکتے ہیں تو میں کیونکر برا ہوا۔۔۔

سرمد : فلم سے یاد آیا۔۔۔ آپ نے فلمیں بھی تو لکھیں؟\"\"

منٹو : ہاں بھئی فلمیں تھیں وہ۔۔ بہت مختلف، ایسا نہیں کہ چار بوڑھے مل کر فلم بنائیں، \”جوانی پھر نہیں آنی\”

سرمد : منٹو صاحب۔۔۔ چھوڑئیے نا۔۔اچھا بتائیے، آپ پرسوں سے اسلام آباد میں ہیں۔۔ آپ کو یہ شہر کیسا لگ رہا ہے ؟

منٹو : بھئی جیو والے لائے ہیں۔۔ایک منٹ بھی ادھر ادھر نہیں ہونے دیتے۔۔لیکن اچھا ہے۔۔۔ پاکستان کا پہلا شہر ہے جو انہوں نے خود بنایا ہے ۔

سرمد : سر ، کنزیومرازم کا دور ہے ۔۔اتنا کافی نہیں کہ جیو والوں نے آپ کو دوبارہ زندہ کر دیا ؟

منٹو : ہاں یہ تو ہے۔۔ جیو والے بندہ مار کر زندہ کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔ مگر سرمد۔۔ سچ پوچھو تو زندہ رہ کر بھی کچھ اتنا اچھا نہیں لگ رہا۔۔وہ وقت بہت اچھا تھا۔۔۔ اس میں موزیل تھی، بلونت کور تھی۔۔

سرمد : تو اس میں متھیرا ہے۔۔ میرا ہے

منٹو : ویسے اچھا ہی ہوا میں مر گیا

سرمد : ارے کیوں منٹو صاحب ؟

منٹو : بھئی خود دےکھو نہ زندہ رہتا تو کیا کیا نہ کرنا پڑتا۔ پہلے فاطمہ جناح کے خلاف ووٹ دےتا، پھر مجیب  کو غدار کہتا، ضیاء کے دور میں اسلامی کہانیاں لکھتا اور مشرف سے تمغہ حسن کارکردگی لے کر یا کسی انتہا پسند کی گولی سے مر جاتا یا کسی جہادی اینکر کے سامنے ہر دوسرے تیسرے پیش ہوتا

سرمد : مگر آپ مرنا کیوں چاہتے تھے ؟

منٹو : زندہ رہنے کی بڑی قباحتیں تھیں ۔ صفیہ کو اسلام آباد آنا پڑتا۔ مجھے رمضان میں عمرے کرنے پڑتے۔ ہاں بچیاں پڑھنے والی تھیں، مقابلے کا امتحان پاس کر کے سارے ہوٹل بند کروا دیتیں۔ عین ممکن ہے پاگل خانے نہ جاتا ۔۔۔ رائے ونڈ چلا جاتا ۔۔۔ عائشہ جلال کہتی ہے کہ میری audience  زیادہ تھی تو ہو سکتا ہے میں صبح تبلیغ کرتا اور شام کو سیلفیاں کھینچ کر  کرتے بیچتا ۔۔۔اور وہ کینیڈا والے ۔۔۔

سرمد : طاہر القادری ؟

منٹو : ہاں وہ ہوتے تو مجھے شہید کروا کر مبارکبادیں دیتے پھرتے ۔

سرمد : آپ کو یہ پاکستان کیسا لگا ؟

منٹو : بھئی اسے تو اتنا پاک کر دیا تم لوگوں نے کہ اب اس میں رہتے ہوئے بے حرمتی کا ڈر لگا رہتا ہے

سرمد : منٹو صاحب، آخر میں کچھ پیغام دینا چاہیں گے؟

منٹو : کہنا تو مجھے چاہیے \”شکریہ سرمد\” ۔۔۔ مگر میں کہوں گا \” شکریہ راحیل شریف\” ۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments