لائیو رپورٹنگ کی چونچلے بازی


\"\" واہیات لائیو رپورٹنگ کا سارا ملبہ صرف رپورٹرز پر ڈالنا بھی ناانصافی ہے۔ لللہ ہم رپورٹرز تو خود تنگ ہیں ایسی بے سروپا احمقانہ رپورٹنگ سے۔

اب جو آفت کے پرکالے یعنی کے ایچ ڈی کوالٹی وڈیو ریکارڈنگ کرنے والے فون مجھ سمیت دیگر میڈیائی دوستو کو ملے ہیں ذرا سنیں کیا گل کھلا رہے ہیں ، پاناما کیس کی سماعت کے دوران ہم اپنے آئی فون ریڈ الرٹ رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی دوسرا چینل بازی نہ لے جائے۔ جو چند سیکنڈ کی وڈیو نمبر ون چینل ریکارڈ کرلے تو دیگر چینلز کے نیوز رومز سے چیخیں بلند ہونے لگتی ہیں کہ ہمارا رپورٹر وہاں کیا کر رہا ہے؟ اب سنیں عمران خان کی ہر ایک موومنٹ پر سب کی نظر رہتی ہے۔ ایک دن عمران کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو ہم سب اپنے آئی فون لے کر پیچھے دوڑے۔ جیسے جیسے عمران خان آگے بڑھتے گئے مجھے اندازہ ہوچلا کہ خان صاحب کے قدم ٹوائلٹ کے جانب جا رہے ہیں، میں نے ریکارڈنگ بند کی اور واپس ہوگئی مگر بعض دوست جو شاید سپریم کورٹ کی راہداریوں سے واقف نہیں تھے موبائل کیمرے لئے ٹوائلٹ کے دروازے تک خان صاحب کے پیچھے چل دیئے۔ پھر آگے کیا ہوا، یہ تو خان صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔

قسم سے بڑی ضرورت ہے ہم سب کویہ سکھانے کی کہ ہر سانحے کے بعد بستر پر پڑے زخمی سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ \”آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟\” نیوز روم کے عملے کو بھی ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیوز چینلز کی چیخ و پکار سے بیزار عوام ہماری ہڑبونگ کے پیچھے کم ہی بھاگتے ہیں۔

ذکر ہوجائے کسی حادثے یا دہشت گردی کے واقعے کی لائیو رپورٹنگ کا۔ رپورٹر کو دفتر سے ہبڑ دبڑ میں کیمرامین کے ساتھ دوڑا دیا جاتا ہے۔ ایسے وقتوں میں ترجیح یہی ہوتی ہے کہ جائے وقوعہ پر رپورٹر ہر قیمت پر سب سے پہلے موجود ہو۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ رپورٹر کچھ پوری کچھ ادھوری معلومات لائیو کیمرے سے ناظرین کو پہنچاتا ہے تو دفتر کی جانب سے ہسپتال دوڑنے کا اشارہ ملتا ہے۔ بستر اور اسپتال کے فرش پر زخموں سے چور ٹوٹے پھوٹے لوگ بکھرے پڑے کراہ رہے ہوتے ہیں۔ ہم رپورٹرز کو تلاش اس بیچارے کی ہوتی ہے جو ہائے ہائے کی صدا لگا رہا ہوتا ہے، خشک ہونٹوں والے اس زخمی نے ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر اسپتال کی روشنی سے بچنے کی کوشش کی ہوتی ہے کہ کالے رنگ کا کیمرا سیدھا اس زخمی کے سیدھا منہ کے سامنے آن کر فٹ ہوجاتا ہے۔ مائیک کا گولا آگے بڑھاتے ہوئے رپورٹر سوال مٹکاتا ہے \”جی آپ نے دھماکے کے وقت کیا دیکھا؟\” وہ ہائے ہائے کرتے ہوئے ایک جملہ بمشکل ادا کر پاتا ہے کہ ہمیں پوچھنا پڑ جاتا ہے \” جی آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟\”۔

اچھا فرض کریں اگر اس رپورٹر کی جگہ آپ ہوں، تو کیا سوال پوچھیں گے جبکہ آپ کو اپنے نیوز چینل کے لیے کچھ نہ کچھ ریکارڈ کرکے اپنی نوکری بھی حلال کرنی ہے۔ \” بھائی صاحب کتنے زخم لگے؟ درد ہو رہا ہے؟ کہاں کے ہو؟ یا پھر کچھ نہیں سوجھتا تو ۔۔۔۔ تم کیوں ہو ؟\” یہی سوال ہو سکتے ہیں جن کے جواب میں سوائے کراہنے کے اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔

رپورٹر بیچارے کی کم بختی کا ایک لمحہ وہ بھی ہوتا ہے جب اسے کسی موت والے گھر سے لواحقین کے ساتھ لائیو رپورٹنگ کرنا پڑ جائے، خصوصا مشکل تب سر پر آن پڑتی ہے جب چینل کے بڑے، رپورٹر بیچارے سے یہ امید لگا لیں کہ ان کا جانباز رپورٹر مرنے والے کی ماں کو رلا کر ہی دم لے گا۔ کیمرا ممتا کی ماری اس ماں سے اس وقت تک نہیں ہٹایا جائے گا جب تک کہ ہچکیاں فلمبند نہ ہو جائیں۔ سوال یہاں بھی وہی ہو گا \” کیا بیٹا یاد آتا ہے\” اور \” آپ اس وقت کیسا محسوس کر رہی ہیں؟\” قسم سے یہ واہیات پن کرنے والے ہم رپورٹرز ہی ہیں۔ یہ ہم رپورٹرز ہی ہیں جنہوں نے تدفین کی رپورٹنگ میں قبر کے اندر لیٹ کر لائیو بیپر دیا۔ ہم چاہیں تو ایسے مواقع پر ایک نفیس رپورٹ یہ دے سکتے ہیں کہ اہل محلہ کی مرنے والے سے کیسی یادیں وابستہ ہیں، یقین جانیں جس کے پیارے کی میت گھر سے اٹھی ہو اسے کھانے پینے اور اپنے ہونے کا ہوش نہیں ہوتا کجا یہ کہ وہ آپ کے مائیک کیمرے کے آگے اپنے باپ بھائی کو یاد کر کے روئے۔

میں نے امریکی ٹی وی چینل نائن نیوز کے ساتھ امریکی شہر ڈینور میں کام کیا ، وہاں یہ تجربہ ملا کہ ہمارے ایک ساتھی امریکی رپورٹر کو ایک محلے میں ہونے والی ڈکیتی کی واردات پر کیمرے کے سامنے آکر بولنے والا ایک محلے دار درکار تھا، وہ تمیز اور سلیقے سے محلے داروں سے بات کرتا رہا، میں نے بھی کئی ایک سے کیمرے کے سامنے آکر بولنے کی درخواست کی ، کیا آپ یقین کریں گے ، پورے محلے سے کوئی ایک بھی رہائشی کیمرے کے سامنے کھڑا ہوکر بولنے کو تیار نہ ہوا مگر اس کا یہ مطلب نہیں رپورٹر نے کیمرا مین کے ساتھ لوگوں کے گھروں پر چھاپہ مار ڈالا ہو اور زبردستی جو کیمرے کے سامنے سے گزرے اس کے آگے مائیک کردیا ہو کہ تو مان نہ مان، کیمرے کے سامنے بول ضرور۔ جیسا کہ بارش کی رپورٹنگ کے دوران ایک بچے نے کراچی کے ایک رپورٹر کا بھانڈا یہ کہہ کر پھوڑ دیا کہ آپ مجھے زبردستی کیمرے کے سامنے لائے ہیں۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments