ذیشان ہاشم بھائی! \”اب کیا ہووے گا؟\”


\"\"محترم ذیشان صاحب ،آداب ، امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے۔

ایک عرصہ ہوا کسی کو کوئی خط نہیں لکھا، پر آج دل چاہا کہ خط لکھا جائے، اور \” کھلا\” خط لکھا جائے۔ پھر سوچا کہ کسے لکھا جائے؟ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آپ کا نام ذہن میں آیا۔ شاید اس کی وجہ گزشتہ دنوں \” دی گارجین \” میں چھپنے والا مضمون تھا جس کا عنوان تھا \”

“Aid in reverse: How Poor countries Develop rich countries” by Jason Hickle

جسے میں نے کل رات ہی پڑھا تھا۔ جیسن ہیکل نےاپنے اس مضمون میں دراصل دو تحقیقی اداروں یعنی \”گلوبل فنانشل انٹیگریٹی\” اور\” ناروے کے سنٹر فار اپلائیڈ ریسرچ \” کی اس رپورٹ کو موضوع بحث بنایا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک \”امداد ، بین الاقوامی تجارت اور بین الاقوامی سرمایہ کاری ( فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ) \” کی شکل میں جو سرمایہ ترقی پذیر ممالک کو منتقل کرتے ہیں اس سے کئی گنا سرمایہ ان ترقی پذیر ممالک سے وصول بھی کر لیتے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ محض 2012ء میں ترقی پذیر ممالک نے \” امداد، تجارت ، بین الاقوامی سرمایہ کاری اور آمدنی \” کی شکل میں کل 1۔3 ٹریلین ڈالر وصول کیے جب کہ اسی سال ترقی پذیر ممالک سے 3۔3 ٹریلین ڈالر ترقی یافتہ ممالک کو منتقل کے گئے۔ مزید یہ کہ 1980 سے جمع کئے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک سے کل 16.3 ٹریلین ڈالر ترقی یافتہ ممالک کو منتقل ہوئے۔ جس میں سے 4۔4 ٹریلین ڈالر بیرونی قرض پر سود کی ادائیگی کی صورت منتقل ہوا جبکہ 13۔3 ٹریلین ڈالر غیر قانونی طور سے ترقی پذیر ممالک کو بھیجا گیا جو کہ یقینا ترقی یافتہ ممالک میں قائم \”ٹیکس ہیونز\” میں اکٹھا ہوتا ہے۔ اور اس غیر قانونی سرمائے کا ایک بڑا حصہ بین الاقوامی تجارت کے ذریعہ ( ٹریڈ مس انوایسنگ ) ترقی یافتہ ممالک بھیجا گیا۔ جیسن ہیکل یہ بھی لکھتا ہے کہ کس طرح بین الاقوامی تجارتی ادارے جعلی قیمتوں کے ذریعے اپنا منافع دوسرے علاقوں میں قائم اپنے ملحقہ اداروں کو منتقل کرتے ہیں جہاں ٹیکس کی شرح صفر ہوتی ہے۔ اور یہ سارے اعداد و شمار محض اشیا کی تجارت کے ہیں اگر ان میں خدمات سے منتقل ہونا والا سرمایہ بھی شامل کر لیا جائے تو ہر سال 3 ٹریلین ڈالر ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کو متقل ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو 1 ڈالر امداد دیتے ہیں تو 24 ڈالر وصول بھی کرتے ہیں۔ اور اس سارے عمل نے نا صرف یہ کہ ترقی پذیر ممالک میں گورننس کے مسائل پیدا کئے بلکہ معاشی ترقی کی رفتار پر بھی منفی اثر ڈالا اور اس کے ساتھ ہی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے مابین معاشی عدم مساوات کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔

ذیشان ہاشم بھائی، آپ کے علم میں ہو گا کہ 1950 کی دہائی میں پیش کی جانے والی \” ڈپنڈنسی تھیوری\” میں \” رال پربش \” جو کہ لاطینی امریکہ میں یونائیٹڈ نیشن کا عہدیدار تھا نے بھی یہی کہا تھا کہ اور بلکہ اعداد و شمار سے ثابت بھی کیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک امداد ، تجارت اور بین الاقوامی سرمایہ کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کا استحصال کر رہے ہیں۔

حضور! ایک طرف تو ترقی یافتہ ممالک منافع ، قرض اور جعلی انویسنگ کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کا استحصال کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان ممالک کے قدرتی وسائل اور ماحول کو آلودہ۔۔ اگر اس آلودگی کی لاگت بھی رپورٹ کے اعداد و شمار میں شامل کی جاے تو لٹیا ہی ڈوبتی دکھائی دیتی ہے۔

اور دوسرا بڑا رجحان\” معاشی عدم مساوات \” ہے جو کہ گزشتہ دنوں \” ورلڈ اکنامک فورم \” پر ڈسکس بھی ہوا اور فورم نے اسے 2017 کے پانچ اہم مسائل میں سر فہرست رکھا۔ \” ورلڈ اکنامک فورم\’ نے یہ بھی لکھا کہ 2008 کے اقتصادی بحران کی ایک بڑی وجہ \” معاشی عدم مساوات تھی اور اس بحران سے نکلنے کے لئے کو اقدامات کے گئے ان سے \” معاشی عدم مساوات\” میں مزید اضافہ ہوا۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک اور خبر سامنے آئی کہ دنیا کے محض 8 فیصد لوگ اس دنیا کی 50 فیصد دولت پر قابض ہیں۔

اس سارے منظر نامے کے بعد آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کیا کبھی اس ترقی کو حاصل کر پائیں گیں جس کا انھیں خواب دکھایا جاتا ہے یا جو ترقی سرمایہ داری نظام کے عروج پر ترقی یافتہ ممالک نے حاصل کی ؟ (ٹریکل ڈاؤن اکانومک پالیسی کے حالات تو ہم دیکھ چکے)، سرمایہ داری اب وہ کونسا رستہ اپنائے گی جس کے ذریعے اس اقتصادی بحران سے نکل سکے ، جب کہ سابقہ اقدامات نے تو اس بحران کی حالت اور ابتر کی اور ساتھ ہی \” معاشی عدم مساوات \” بھی بڑھ گئی۔ دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ ورلڈ اکنامک فورم لکھتا ہے کہ سرمایہ داری کو اب ریڈیکل اقدامات کرنا ہوں گے۔مگر \” امداد، تجارت اور بین الاقوامی سرمایا کاری\” کے علاوہ اور کونسے اقدامات ہوں گے ( کیوں کہ انہی اقدمات کا ذکر کر کے بتایا جاتا ہے کہ ترقی پزیر ممالک میں ان اقدامات سے ترقی کی شرح میں اضافہ ہوا۔

اور سب سے بڑھ کر ٹیکنالوجی میں ترقی سے جو بیروزگاری کا بحران مستقبل قریب میں دکھائی دیتا ہے اس کا سرمایہ داری نظام میں کیا حل ہو گا ؟ اگر آپ یونائیٹڈ نیشن یونیورسٹی کی ویب سائیٹ پر موجود تحقیقی مقالہ پڑھیں تو آنے والے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بیروزگاری، معاشی عدم مساوات، ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل کو سرمایا داری نظام انسانیت کو مزید بھوک، غربت، تاریکی، بیماری، جہالت اور جنگوں میں دھکیلے بنا حل کر پاے گا ؟ اگر ہاں تو کیسے؟

امید کرتا ہوں کہ آپ معاشیات کے اس طالبعلم کے سوال کے انتہائی عمدہ جوابات تحریر کریں گے جن سے یقینا مجھے اور بہت سے دوسرے طالبعلموں کو سیکھنے کا موقع ملے گا۔

شکریہ

عدیل رانا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments