یہ ایک تقریر نہیں، اصول کا معاملہ ہے


\"\"وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کے مقدمہ کی سماعت کے دوران نواز شریف کو سچا ثابت کرنے کے ساتھ آئین کی شق 66 کے تحت ان کے از خود استثنیٰ کے بات بھی کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اول تو وزیراعظم نے 16 مئی 2016 کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جھوٹ نہیں بولا۔ بالفرض محال اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ وزیراعظم نے اس تقریر میں جھوٹ بولا تھا تو بھی عدالت آئین کی شق 66 کو نظر انداز نہیں کر سکتی کیونکہ اسے بہرحال آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ہی فیصلہ دینا ہوگا۔ آئین کی شق 66 پارلیمنٹ کے ارکان کو ایوان میں کی گئی باتوں کے خلاف قانونی کارروائی سے استثنیٰ فراہم کرتی ہے۔ مخدوم علی خان اس شق کے تحفظ کی بات کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عدالت کسی رکن پارلیمنٹ کو ایوان میں کہی ہوئی باتوں پر ملزم قرار دے کر نااہل نہیں کر سکتی۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے وکلا کا موقف ہے کہ پاناما پیپرز کے حوالے سے اپنی اور اپنے اہل خاندان کی املاک کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں جھوٹ بولا تھا، اس لئے وہ صادق اور امین نہیں رہے اور انہیں آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔

پاناما پیپرز کا معاملہ قانونی اور اصولی مباحث سے ہوتا ہوا ذاتیات اور سیاست تک محدود ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کسی بھی طرح سپریم کورٹ سے یہ بات سننا چاہتی ہے کہ وزیراعظم نے غلط بیانی کی تھی اس لئے وہ نااہل ہیں۔ اگرچہ یہ مقدمہ وزیراعظم کی بطور رکن قومی اسمبلی اہلیت سے متعلق نہیں تھا بلکہ ان املاک کے بارے میں تھا جو لندن کے مے فیئر علاقے میں نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔ ان آف شور کمپنیوں کا پاناما پیپرز میں ذکر آنے کے بعد وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے تسلیم کیا تھا کہ وہ ان کمپنیوں کے مالک ہیں۔ تاہم ان کا موقف ہے کہ انہوں نے ان کمپنیوں کی ملکیت 2006 میں حاصل کی تھی۔ البتہ وہ ان اپارٹمنٹس میں 90 کی دہائی سے ہی رہائش پذیر ہیں۔ بی بی سی نے گزشتہ دنوں برطانیہ کے پراپرٹی رجسٹر کے حوالے سے یہ اطلاع دی تھی کہ ان اپارٹمنٹس کی ملکیت 1992 کے بعد تبدیل نہیں ہوئی۔ انہیں اس سال کے دوران نیلسن اور نیسکول نام کی دو کمپنیوں نے خریدا تھا۔ اپوزیشن اس خبر کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وزیراعظم اور ان کے اہل خاندان ان املاک کی ملکیت کے بارے میں مختلف بیان دے رہے ہیں۔ اس تضاد بیانی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل کوئی بات چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بی بی سی کی خبر سامنے آنے پر تحریک انصاف نے اسے اپنے موقف کی تائید قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس رپورٹ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ مے فیئر اپارٹمنٹ کی ملکیت 90 کی دہائی کے بعد سے تبدیل نہیں ہوئی۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ ان فلیٹس کی مالک کمپنیوں کو نئے مالکان کو فروخت کیا گیا یا نہیں۔

نواز شریف کے صاحبزادگان کا موقف ہے کہ انہوں نے ان کمپنیوں کو 2006 میں قطری شہزادہ حمد بن جاسم الثانی کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ اس حوالے سے مقدمہ کے پہلے دور میں وزیراعظم کے بچوں نے شہزادہ حمد بن جاسم کا ایک خط پیش کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے خاندان اور نواز شریف کے مرحوم والد میاں محمد شریف کے تجارتی تعلقات تھے اور ستر کی دہائی میں میاں محمد شریف نے 12 ملین درہم قطر روانہ کئے تھے جنہیں املاک کی سرمایہ کاری میں لگا دیا گیا تھا۔ بعد میں میاں شریف کے پوتوں کے ساتھ مالی معاملہ طے کرنے کےلئے لندن کے فلیٹس کی مالک کمپنیوں کو ان کے نام منتقل کر دیا گیا۔ اس سے پہلے شریف خاندان نیلسن اور نیسکول کی ملکیت میں ان فلیٹس میں کرایہ دار کے طور پر رہتے تھے۔ تاہم اس معاملہ میں سوالات یوں سامنے آتے ہیں کہ اس خط کے ساتھ کوئی ایسی دستاویز فراہم نہیں کی گئیں جن سے یہ پتہ چلتا ہو کہ 12 ملین درہم دبئی سے قطر روانہ کئے گئے تھے۔ نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ اس سرمایہ کاری سے کتنا منافع حاصل ہوا اور جب نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیاں حسین و حسن نواز کو منتقل کی گئیں تو ان کی مالیت کیا تھی۔ نہ ہی اس حوالے سے ابھی تک دستاویزات سامنے آئی ہیں کہ یہ کمپنیاں واقعی 2006 میں ہی شریف خاندان کو منتقل ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے یہ کمپنیاں قطری خاندان کی ملکیت تھیں۔

اگرچہ معاملہ نواز شریف کے بچوں کی سرمایہ کاری سے متعلق ہے اور اصولی طور پر وزیراعظم اپنے بالغ بچوں کی آمدنی اور کاروباری لین دین کے جوابدہ نہیں ہو سکتے۔ لیکن اپریل 2016 میں یہ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی، اپنے بچوں اور خاندان کی دیانتداری کا اعلان کیا اور سارے معاملہ کی عدالتی تحقیقات کروانے کی پیشکش کی تھی۔ اس کے بعد 16 مئی کو قومی اسمبلی میں اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے جو باتیں کی تھیں، ان کے اہم نکات یہ ہیں:

1) لندن کے فلیٹس سعودی عرب میں شریف خاندان کی اسٹیل مل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدے گئے تھے۔ اسٹیل مل لگانے کےلئے سرمایہ ستر کی دہائی میں دبئی میں فروخت کی جانے والی اسٹیل مل کی فروخت سے حاصل ہوا تھا۔

2) وزیراعظم نے کہا کہ ان کے مالی معاملات کا پورا ریکارڈ موجود ہے اور وہ ساری دستاویزات کسی بھی مجاز فورم پر پیش کرنے کےلئے تیار ہیں۔ تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ انہوں نے یا ان کے خاندان نے پاکستانی خزانہ میں کوئی خرد برد نہیں کی۔

3) نواز شریف نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اپنی سچائی ثابت کر سکتے ہیں۔ انہیں کوئی آئینی یا قانونی استثنیٰ نہیں چاہئے۔ نہ ہی وہ اس کا تقاضہ کریں گے۔

ان نکات کی روشنی میں سپریم کورٹ میں ان کے وکیل کی طرف سے کسی بھی حوالے سے استثنیٰ کی بات وزیراعظم کے وعدہ کے برعکس ہے۔ اسی طرح اس بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم نے دبئی سے سعودی عرب اور وہاں سے لندن فنڈز کی منتقلی کا ذکر کیا تھا۔ اس میں قطر میں کی گئی سرمایہ کاری اور وہاں سے حاصل ہونے والے منافع کا ذکر نہیں تھا۔ جبکہ اب ان کے بچے یہ بتا رہے ہیں کہ لندن کے فلیٹس قطر میں سرمایہ کاری کے ذریعے حاصل کئے گئے تھے۔ وزیراعظم اپریل 2016 میں عوامی دباؤ کی وجہ سے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں تقریروں کے ذریعے خود اس معاملہ میں فریق بنے ہیں۔ اگر وہ یہ غیر ضروری تقاریر نہ کرتے تو اس مقدمہ میں نواز شریف کو ملوث کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اس لئے اب فطری طور سے سوال کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں سارے حقائق کیوں بیان نہیں کئے۔ یہ عذر تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف نے قومی اسمبلی میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ساری تفصیلات بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ لیکن قومی اسمبلی میں اپنے مالی معاملات کی وضاحت کےلئے تقریر کرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ ان کے پاس سارے دستاویزی ثبوت موجود ہیں اور اب یہ اصرار کہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو عدالت میں جانچا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔۔ دو متضاد بیانات ہیں۔ وزیراعظم کے وکیل کا موقف خود نواز شریف کے اس وعدہ کی نفی کرتا ہے کہ اس معاملہ میں ساری دستاویزات مجاز ادارے کے سامنے پیش کی جائیں گی اور یہ کہ وہ اس بارے میں استثنیٰ کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اب ان کی طرف سے ان دونوں باتوں سے انحراف کیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم کے وکیل کو اگر یقین ہے کہ نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کوئی غلط بیانی نہیں کی تو وہ آئین کی شق 66 کا حوالہ دے کر پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں سے استثنیٰ کے اصول کو تسلیم کروانے کےلئے دلائل لانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔ انہیں تو صرف یہ واضح کرنا ہے کہ وزیراعظم نے نہ تو قوم سے خطاب میں جھوٹ بولا تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ میں غلط بیانی سے کام لیا تھا۔ اگر وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو خواہ وزیراعظم نے کبھی کوئی بدعنوانی نہ بھی کی ہو اور لندن کے فلیٹس محنت و تجارت کی کمائی سے ہی حاصل کئے گئے ہوں ۔۔۔۔۔ اس بارے میں شبہات قائم رہیں گے۔ اس کے ساتھ وزیراعظم اپنے وعدے کے مطابق رقوم کی منتقلی اور سرمایہ کے حصول کے ذرائع کی دستاویز سامنے لا کر غیر ضروری قانونی اور آئینی بحث سے اپنی، اپنے خاندان اور اس قوم کے بچے بچے کی جان چھڑا سکتے ہیں۔ البتہ اپنی ایک غلطی پر پردہ ڈالنے یا ماضی میں کئے گئے بعض غیر مصدقہ اقدامات کی وجہ سے اگر عدالت میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ پارلیمنٹ میں ارکان کوئی بھی بات کہہ سکتے ہیں، انہیں سچائی اور حقائق کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جا سکتا تو یہ ایک خطرناک مثال ہوگی۔ ا س سے نواز شریف تو جھوٹے ثابت ہوں گے ہی، عوام کا اپنے منتخب اداروں اور لیڈروں پر اعتماد بھی مزید کمزور پڑ جائے گا۔

نواز شریف اور ان کے وکلا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ معاملہ ایک تقریر یا اس میں الفاظ کے ہیر پھیر کا نہیں ہے۔ بلکہ ایک وزیراعظم نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب یہ کہنا کہ پارلیمنٹ میں جھوٹ بھی بولا جا سکتا ہے، پارلیمانی روایت کو بے توقیر کرنے کے مترادف ہے۔ اس خطرناک طرزعمل سے گریزکرنا ضروری ہے۔ استثنی پر اصرار نہ کیا جائے اور اس اصول کو ثابت کرنے کی کوشش ترک کردی جائے کہ پارلیمنٹ میں جھوٹ بھی بولا جا سکتا ہے۔ یہ رویہ وزیراعظم کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کے علاوہ اس ملک میں جمہوری روایت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔

 عوام یہ توقع کرتے ہیں کہ ان کے لیڈر خواہ وہ وزیراعظم ہو یا اپوزیشن لیڈر یا عام رکن اسمبلی ۔۔۔۔۔۔۔ جب بھی ایوان میں بات کرے تو سچ ہی بولے۔ اگر قومی اسمبلی کے ایوان کو بھی جھوٹے وعدے کرنے اور سیاسی مقصد کےلئے بے بنیاد باتیں کہنے کےلئے استعمال کیا جائے گا تو یہ صورتحال اس ملک میں مشکلات کا شکار نوخیز جمہوریت کےلئے مہلک ثابت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments