مرد ذات نیچ حیوان ہے؟


\"\"آج میں جس چیز کی کمی معاشرے میں شدت سے محسوس کرتا ہوں وہ men\’s rights activist ہے۔ میں نے women\’s rights activist تو سنا ہے، جو ٹولیوں کی شکل اختیار کر کے اونچے اونچے نعروں کے ساتھ سڑک پر نکل آتے ہیں اور کسی ایک عورت کے ساتھ ہوئی ناانصافی کی وجہ سے پوری مرد ذات کو سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھسیٹتے ہیں، جس میں اس عورت کا باپ ،بھائی اور جس مرد نے ناانصافی کی ہے سب کو باری باری گریباں سے پکڑ کر چوراہوں پر گھسیٹتے ہوئے دیوار سے لگایا جاتا ہے ، جس کے بعد لعن طعن کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، نہ جانے کتنے آرٹیکل تو اس پیج پر ہی شائع ہوتے ہیں، اخباروں کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے ،بھرے پڑے ہیں عورتوں کے ساتھ ہوئے ظلم و ستم کی خبروں کے ساتھ۔
مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ احتجاج کرے ، خواہ مرد ہو یا عورت، ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے ،مگر مرد کا کیا ہوگا ؟کیا آج کا مرد عورت کے سامنے اتنا ہی طاقتور ہے جتنے طاقتور ہونے پر یہ شوروغل برپا ہے ؟، اور اگر نہیں ہے تو آواز عورت کے ساتھ ہوئی ناانصافی پر ہی کیوں اٹھائی جاتی ہے ، کیا عورت مرد کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتی ؟اور آج کے دور کی عورت واقعی اتنی کمزور ہے بھی کہ اسے کسی اور کی آواز کی ضرورت ہے؟ خلا میں جانے والی بھی تو عورت ہے ،وزیرعظم بننے والی بھی تو عورت ہے، ادیب ہے ،شاعرہ ہے ، کشتی لڑنے والی بھی عورت ہے ،یہاں تک کہ موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی بھی عورت ہے ،میں نہیں مانتا کہ آج کی عورت مرد سے کمزور ہے ،میں کیا وہ لوگ جو عورت کو مظلوم بنا کر پیش کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں وہ خود بھی آج کی عورت کو کمزور نہیں مانتے، یہی لوگ آپ کو اکثر ان مباحثوں میں اگلی نشستوں پر نظر آئیں گے جہاں آپ کو یہ قائل کر رہے ہوں گے کہ آج کی عورت مرد سے کسی صورت پیچھے نہیں ہے ،اور میں بھی یہی مانتا ہوں ۔
مرد عورت کو گالی دے تو اس نے ظلم کیا اور اگر عورت مرد کو گالی دے تو بھی ضرور مرد نے کچھ ایسا کیا ہوگا کہ بے چاری عورت نے اسے گالی دی، کیا آج جنسی ہراسیت کا شکار صرف عورت ہی ہوتی ہے ؟، ان مردوں کا کیا جن کو عورتیں جنسی ہراسیت کا شکار بناتی ہیں ؟، ان بچوں کو کیا جن کو آنٹیاں جنسی ہراسیت کا شکار بناتی ہیں؟ کیا یہ بات آج کسی سی ڈھکی چھپی ہے ؟،اگر سب عورتیں ایک سی نہیں تو سب مرد ایک سے کیوں ہیں ؟ ،عجیب مذاق بنا رکھا ہے عدل و انصاف کے پیمانوں کا۔
میں نے کبھی کسی عورت کو سڑک پر خود کو ہنٹر مار کر کماتے نہیں دیکھا ،ہاں مگر مرد کو عورت کے لیے بیچ سڑک میں اپنی ہی پیٹھ پر ہنٹر کا وار کرتے دیکھا ہے تاکہ وہ اپنا ہی تماشا بنا کر گھر بیٹھی عورت کا پیٹ پال سکے ،میں نے مرد کو عورت کے لیے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتے بھی دیکھااور میں نے اسی مرد کو ہر طرح کی محنت کی بھٹی میں جلتے ہوئے دیکھا، ،مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ گھر بیٹھے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے۔
مگر پھر میں نے مرد کو اسی عورت کو پنچایتوں میں کاری کرتے دیکھا ،اسی مرد نے سیتا کو اگنی پرکشا سے گزارا ،اور اسی مرد کو عورت برائے فروخت کی تختی کے ساتھ دیکھا۔
کیا کمزور اور طاقتور، مظلوم اور ظالم ہونے کا معیار صرف انسان کی جنس ہی رہ گیا ہے ؟۔
میں خود کچھ عرصہ سندھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر چکا ہوں۔ چند دن پہلے سندھ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نائلہ نے ماروی ہاسٹل کے کمرے میں خود کو سولی چڑھا لیا۔ ہنگامہ برپا ہوگیا۔ کئی لوگوں پر اس کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام لگے جس میں چند خاتون پروفیسر بھی سر فہرست تھیں ، کچھ دنوں بعد لوگ احتجاج کرتے سڑکوں پر نکل آئے، چاروں طرف ماتم بپا ہوچکا تھا ،ہر طرف سے صرف ایک ہی آواز سنی گئی۔ قاتل مرد کو پکڑو ،قاتل مرد کو پکڑو، ہمیں اسے سڑکوں پر گھسیٹنا ہے، اس لڑکے کا باپ بھی قاتل ،بھائی بھی قاتل ،اس کے خاندان کا ہر مرد قاتل ،یہ سب ہمیں درکار ہیں، ہمیں انہیں بھی سولی چڑھانا ہے۔
چند دن ہی گزرے تھے کہ قاتل پولیس کی گرفت میں آگیا ، پریس کانفرنس کی گئی ، بتایا گیا کہ اگر اس درندے کو پکڑا نہیں جاتا تو 3 اور معصوم لڑکیوں کی زندگیاں بس برباد ہونے ہی والی تھیں ،مبارکبادیں دی گئیں ، ایکٹیوسٹ ایک دوسرے سے گلے ملے، شورو غل ختم ، واویلا اختتام پذیر ہوگیا ، جس سڑک پر احتجاج تھا اسی سڑک پر سناٹا چھا گیا ،خاموشی کو گود میں لیے ویران ہوائیں اسی سڑک پر گشت کرنے لگیں ،سب اپنے گھر جا کر چین کی نیند سوگئے ،جس کے بعد مضامین کی بھر مار ہوئی اور پھر یہ سلسلہ بھی اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔
مگر 3 لڑکیاں ؟…. کیا تینوں لڑکیاں اپناذہنی توازن کھو چکی تھیں ؟ یا اس پورے شہر میں صرف ایک ہی لڑکا رہتا تھا ؟، میں یہ نہیں کہتا کہ نائلہ کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوئی یا لڑکا بے قصور ہے، یا ہو گا ،میں کہتا ہوں کئی مرد عورت کی بے وفائی پر روز سولی چڑھتے ہیں اور وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ مرد عورتوں سے زیادہ محبت میں ناکامی پر خودکشی کرتے ہیں ، تب سب کیوں خاموش رہتے ہیں ؟، کیوں مظاہرے نہیں کرتے ،؟ کیوں اخبار کے صفحات پلٹ دیتے ہو ؟، کیونکہ مرنے والا مرد تھا ،عورت نہیں ؟ کیونکہ مرد کا عورت کو کاری کرنے والا روپ ہی یاد رہتا ہے ، کیوں کسی کو موت کے کنویں والا مرد یاد نہیں رہتا ؟،ہنٹر کھانے والا بھی تو مرد تھا۔
برائی مرد یا عورت میں نہیں ہوتی ،برائی انسان میں ہوتی ہے ،میں امید کرتا ہوں کہ نائلہ کے ساتھ قانون انصاف کرے گا اور اگر نائلہ کی موت میں انیس خاصخیلی ملوث ہے تو اسے سخت سے سخت سزا ہو ۔
مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب دل کیا مظلوم بن گئے جب دل کیا طاقتور؟ ارے اخبارات کے پچھلے صفحات کی چھوٹی سی خبروں کی تصویروں میں لٹکی پڑی ہے مرد ذات ،یقین نہ آئے تو صرف ایک بار انٹرنیٹ پر ڈھونڈ لیجیے گا ، 100 میں سے 39 عورتیں جبکہ 61 مرد خودکشی کرتے ہیں ،مگر ہٹاﺅ، کیا رکھا ہے اس نیچ حیوان مرد ذات کے ساتھ ہمدردی دکھانے میں۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments