منٹو ہمارے معاشرے کا ایک آئینہ ہے


\"\"

یہ فخر سے کہہ سکتی ہوں‌ کہ میں نے انٹر میں‌ اردو میں‌ سو میں‌ سے 84 مارکس لئے تھے۔ اس کے بعد چھٹیوں‌ میں‌ میں‌ نے اور میرے بھائی نے پرانے ٹائپ رائٹر پر ٹائپنگ سیکھی جس میں‌ پیانو کی کیز کی طرح‌ حروف سے جڑی ہوئی اسٹک الفاظ بناتی جاتی تھی۔ اس میں‌ غلطی ایسے بیک اسپیس کرکے مٹانا ممکن نہیں‌ ہوتا تھا۔ بیسک کمپیوٹر کا کورس بھی کیا جس میں‌ ہم نے پروگرام بنانے سیکھے جن کو فلاپی ڈسک میں‌ سیو کرکے مائکرو کمپیوٹر پر چلاتے تھے۔ ان دنوں‌ پیک مین اور ڈگر گیم مشہور تھے۔ پھر رزلٹ آگئے اور میڈیکل کالج میں‌ داخلہ ہو گیا۔

اس سے پہلے نہ نانا کی سائڈ سے کوئی ڈاکٹر تھا نہ دادا کی سائڈ‌ سے۔ ایک میرے ماموں‌ فوج میں‌ ویٹنیرین تھے تو رشتہ دار مذاق میں‌ کہتے وہ ڈنگر ڈاکٹر ہیں۔ جہاں‌ انسانوں‌ کے مسائل سمجھے نہیں‌ جارہے ہوں‌ وہاں‌ جانوروں‌ کے مسائل سمجھنے کا کس کے پاس وقت ہے؟ حالانکہ یہ دونوں‌ فیلڈز ایک دوسرے سے الگ نہیں‌۔ بہت ساری ریسرچ سے ہمیں‌ اب یہ معلوم ہے کہ کس طرح‌ جانوروں‌ کو بے دریغ اینٹی بایوٹکس دینے سے انسانوں‌ میں‌ ان اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے۔ جانوروں‌ کے ڈاکٹرز کی اشد ضرورت ہے اور کتے بلیوں‌ کے بچے بند کروانے کی ضرورت ہے جیسے ہماری بلی اور کتا دونوں‌ فکسڈ ہیں۔ ان کو سال میں‌ ایک مرتبہ حفاظتی ٹیکے بھی لگتے ہیں‌ اور پانچ سال میں‌ دانتوں‌ کی صفائی بھی ہوتی ہے جس کے لئے ان کو بے ہوشی کی دوا دی جاتی ہے۔

لوگ کہتے تھے کہ فلاں‌ ڈاکٹر کے ہاتھ میں‌ شفا ہے تو شفا کا تصور ایسے تھا میرے ذہن میں‌جیسے آسمان سے کوئی روحانی شے اتر رہی ہے اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہورہی ہے۔ پھر میڈیسن پڑھی، بہت سارے مریض‌بھی دیکھے اور دنیا بھی دیکھی تو سمجھ میں‌ آیا کہ آپ کے ذہن میں‌ انفارمیشن ہو اور دل میں‌ مریض‌ کے لئے ہمدردی تو ہاتھ میں‌ شفا خود بخود آجاتی ہے۔

میڈیسن ساری انگلش میں‌ تھی اس لئے انٹرکے بعد کچھ زیادہ اردو لٹریچر جیسے غالب اور میر تقی میر کی شاعری وغیرہ پڑھنے یا اس کو سمجھنے پر وقت خرچ نہیں‌ کرسکی۔ دو سال پہلے میری ایک فرینڈ پاکستان گئی تو اس کے ابو نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے لئے کیا بھیج دیں؟ میں‌ نے سوچا کہ اب تو کوئی امتحان قریب نہیں۔ انٹرنل میڈیسن کا بورڈ ایگزام دس سال میں‌ ایک دفعہ دینا ہے اور اینڈوکرائن کا بھی۔ اس لئے جو اردو کی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی وہ اب پوری کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ ان سے میں‌ نے دو کتابوں‌ کی فرمائش کی۔ ایک غالب کا دیوان جو انہوں‌ نے بہت اچھا بھیجا ہے۔ اس میں‌ غالب کی شاعری کا انگلش میں‌ ترجمہ بھی ہے اور دوسرا منٹو کے مضامین کا مجموعہ۔

ایک رات ہسپتال سے پیج آیا وہ کسی مریض‌ کی شوگر سے متعلق سوال پوچھ رہے تھے۔ اس کے بعد نیند بھاگ گئی۔ کتاب پڑھنے سے نیند دوبارہ آجاتی ہے یہ کئی بار سنا اور پڑھا ہے۔ یہ غلطی کی کہ منٹو کی کتاب اٹھا لی۔ اس میں کہانی پڑھی جس میں‌ ایک بڑے میاں اپنی بیٹی کے ساتھ سوتے تھے اور ایک ہجرت میں‌ سارے خاندان کے مر جانے کے بعد اکیلی ہوگئی لڑکی کو بہو بنا کر لے آئے اور اس کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے کی کوشش کی تو اس کی مزاحمت پر ان لوگوں‌ نے مل کر اس لڑکی کو گھر سے نکال دیا۔

اتنے سالوں سے اتنے سارے لوگوں‌ کی کہانیاں‌ سن کر کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ سب کچھ سن چکے ہیں۔ کرسمس کے بعد ایک مریضہ آئیں‌ تو میں‌ نے ان سے پوچھا آپ کی کرسمس کیسی تھی؟ وہ کہنے لگی کہ کرسمس کے دن میری اکلوتی بیٹی نے انسولین کے ٹیکے لگا کر خودکشی کرلی اور وہ برین ڈیڈ ہوگئی اور ہمیں پلگ پل کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

آپ کے سارے ٹیسٹ بالکل ٹھیک ہیں؟ آپ کی علامات جڑ کر کسی ایک بیماری کی طرف اشارہ نہیں‌ کررہی ہیں۔ آپ کی زندگی میں‌ اور سب کیسا ہے؟ آپ کی جاب کیسی چل رہی ہے، گھر میں‌ کیا حالات ہیں؟ آنکھوں‌ میں‌ آںسو۔ یہ ذہنی اور جذباتی گھریلو تشدد کا کیس تھا۔ عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں‌ کہ گھریلو تشدد جسمانی مار پیٹ کا نام ہے یا پھر صرف غریب یا ان پڑھ گھرانوں‌ میں‌ ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ یہ خواتین اوپر سے اپنی فیملی کو نارمل اور اچھا دکھانے کے لئے اندر سے سہتی رہتی ہیں۔

دنیا جیسی اوپر سے سمندر کی سطح کی طرح‌ نظر آتی ہے ویسے سب کچھ سادہ سا نہیں‌ ہوتا۔ جب تک مسائل کی جڑوں‌ تک نہ پہنچا جائے تو ان کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔

منٹو کی یہ کہانی پڑھ کر نیند آنے کے بجائے اور کوسوں‌ دور ہوگئی۔ صوفے پر بیٹھنے کے بجائے میں‌ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک آگے پیچھے چکر لگا کر سوچ میں‌ پڑ گئی کہ وہ بیچاری کدھر گئی ہو گی۔ کہانی بھی 50 سال پرانی ہے اب ڈھونڈ بھی نہیں‌ سکتے۔ ایسی کتنی ساری بچیاں ان مشکل حالات سے گذری ہوں‌ گی یا اب بھی ان کا سامنا کررہی ہوں گی؟

یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کون لوگ تھے جنہوں‌ نے منٹو پر کیس کیا ہوگا؟ حالانکہ ان کو یہ کہانی پڑھ کر دارالامان بنانا چاہئیے تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments