گلاب کا ایک پھول سسٹر ایملی کے نام


میں ان کا شاگرد نہیں رہا اور نہ میرے ان سے ایسے ذاتی مراسم تھے جن کا سہارا لے کر تعزیت کے لیے تاثرات پیش کروں۔ اس کے باوجود \"\"میں سمجھتا ہوں کہ میں بھی ان سے فیض یاب ہونے والے طالب علموں میں سے ایک ہوں، کراچی کے ان بے شمار لوگوں کی طرح جو چاہے ان کا نام بھی نہ جانتے ہوں لیکن ان اداروں کو اپنی درس گاہ سمجھتے ہیں جن میں سسٹر ایملی اور ان کے ہم مشرب لوگوں نے کام کیا ہے۔ ان کا یہ احسان اس شہر کے لوگوں پر قرض ہے جو شاید کبھی پوری طرح ادا بھی نہ ہوسکے۔ ان کے انتقال کے موقع پر میں بس گلاب کا ایک پھول ان کے نام پر رکھ دینا چاہتا ہوں__ وہ جو ولیم فاکنر کے اس دل موہ لینے والے افسانے کا نام تھا ’’اے روز فار ایملی‘‘۔

فاکنر کا افسانہ کبھی نہ ختم ہونے والی محبّت کے بارے میں تھا۔ سسٹر ایملی کی محبّت کا محور ان کے طالب علم اور وہ درس گاہ تھی جس کی تعمیر و ترقی کو انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔

میں ان کا شاگرد نہیں ہوسکا اور نہ کبھی ہوسکتا تھا۔ اس وجہ سے کہ میرے اسکول کے دنوں میں دنیا دو الگ الگ حصّوں میں تقسیم تھی۔ ہم لڑکے سینٹ پیٹرکس اسکول میں جاتے تھے اور لڑکیاں سینٹ جوزف میں، جس کی چار دیواری اونچی نہیں تھی لیکن سسٹر ایملی کے مخصوص لباس والی دوسری سسٹرز کی عقابی آنکھوں کا پہرہ تھا۔ ہمارے اسکول کی بس وہاں رکتی تھی اور کبھی کبھار لڑکیوں کو آنے میں دیر ہوتی تو ہم نیچے اُتر کر قلفی کھا سکتے تھے، اور آتی جاتی لڑکیوں کو دیکھ سکتے تھے۔ اس سے زیادہ کی خبر نہیں ہوسکتی تھی۔ اس حصار میں دراڑیں بھی تھیں۔ جیسے میرے کلاس فیلو، مینن روڈرگز کوکچھ لڑکیوں کے نام معلوم تھے اور یہ کہ کون سے پاپ سنگر ان کو زیادہ پسند ہیں۔ عذرا آپا وہاں پڑھتی تھیں اس لیے انھوں نے اپنے اسکول کا رعب اور بھی زیادہ قائم کررکھا تھا۔ سسٹر ایملی کا نام پہلی دفعہ ان کی زبان سے سننے میں آیا کیوں کہ وہ نام بھی اس احتیاط سے لیا کرتی تھیں کہ احترام میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔\"\"

ہماری دنیا میں___ یا دنیا کے اتنے حصّے میں جو ہمارا تھا___ سسٹر ایملی کے بجائے فادر ریمنڈ تھے۔ لمبے، چوڑے، مہربان اور مشفق جو اسی وضع کا سفید لبادہ پہنے بڑے وقار کے ساتھ اسکول کے برآمدے سے گزرتے تو سناٹا سا چھا جاتا۔ وہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر سگار پیا کرتے جس کی تیز خوشبو ’’ای بلڈنگ‘‘ کے برآمدے سے گزر کر ہمارے کلاس روم تک جا پہنچتی تو ایک اطمینان سا ہوتا کہ فادر ریمنڈ اپنی جگہ موجود ہیں، دنیا میں سب ٹھیک چل رہا ہے۔

واقعی، ٹھیک کیوں نہ چلتا؟ یہ فادر ریمنڈ اور سسٹر ایملی جیسے دنیا کے کونوں کو تھامے ہوئے کھڑے تھے۔

فادر ریمنڈ کے ساتھ کئی اور نام یاد آنے لگتے ہیں__ فادر پنٹو، فادر ڈائز، بشپ انتھونی لوبو، مسز سالڈانا، مسز کیتھی گومز، مس ڈائس۔ ڈیڑھ سو برس سے زیادہ پرانے اس اسکول کو ان لوگوں نے اعتبار بخشا تھا اور طالب علموں کی کتنی ہی نسلوں کو زندگی کی رزم گاہ میں علم کے ہتھیاروں سے لیس کرکے بھیجا تھا۔ اسی طرح کے نام سینٹ جوزف سے سننے میں آتے تھے جب میری ننھی منّی بیٹیوں نے اس اسکول کا \"\"مخصوص یونی فارم پہن کر وہاں جانا شروع کیا مس مونا قاضی، مس فکری__ بلکہ مس فکری تو دو تھیں، چھوٹی مس فکری اور بڑی مس فکری۔ اور مس سوریس جو حساب کے سے ادق مضمون میں لڑکیوں کو برق کر دیتی تھیں۔ علم کی ترسیل ان کی زندگی کا مشن تھا اور ایک کے بعد ایک کلاس کو پڑھاتے پڑھاتے ان کی لگن میں کمی نہیں آئی۔ یہ سب نام ہمارے گھر میں بار بار لیے جاتے جیسے یہ گھر کے افراد ہوں یا کُنبے کے بزرگ افراد جن سے عقیدت اس خاندان کا جزو بنے رہنے کے لیے لازمی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔

سسٹر ایملی کا ایک اور رُخ بھی سامنے آیا۔ وہ ڈسپلن کے معاملے میں خاصی سخت تھیں اور اصولوں پر مفاہمت نہیں کرتی تھیں۔ ’’وہ سخت تھیں لیکن ڈرائونی نہیں تھیں‘‘ ان کی ایک پرانی طالب علم نے ابھی حال میں ان کے انتقال کی خبر سُن کر مجھ سے کہا۔ وہ انتظامی معاملات میں سخت تھیں لیکن کلاس روم میں اچھی ٹیچر نظر آتی تھیں۔

ان کے مزاج کی سختی اس وقت کام آئی جب تمام تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لے لیے گئے اور سندھ حکومت کے ماتحت ہوگئے۔ سسٹر ایملی نے ادارے کے معیار کو باقی رکھنے کی پوری کوشش کی، اور اس وجہ سے سرکاری حلقوں کے عتاب کا نشانہ بھی بنیں۔ ایک پورا

\"\"مضمون اس بارے میں لکھا جاسکتا ہے کہ قومیائے جانے کے بعد ایسے اداروں کا کیا حشر ہوا اور سندھ حکومت نے معیار کو برقرار رکھنے کے بجائے یا اس چراغ سے دوسرے چراغ جلانے کے بجائے چند لوگوں کے شخصی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے اصولوں کو پامال کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ دھان پان سی سسٹر ایملی اپنی بات پر ڈٹ جایا کرتی تھیں اور سرکاری افسروں کو غیرضروری طور پر خاطر میں نہیں لاتی تھیں۔ ابھی ان کے انتقال پر زبیدہ مصطفیٰ نے تعزیتی مضمون میں لکھا ہے کہ استقامت اور اعتماد نے ان کو غیرمعمولی طاقت بخش دی تھی، چناں چہ سندھ کے اس وقت کے وزیرتعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ شاہ، جو اپنی جگہ خود بڑی دبنگ شخصیت کے مالک تھے، ایک دفعہ یہ برملا کہہ اٹھے تھے کہ ’’ناں بابا میں اس سسٹر سے ٹکّر نہیں لوں گا۔‘‘

سسٹر ایملی کی کامیابی محض ان کی ذاتی فتح نہیں بلکہ ناکردہ کاری، بدعنوانی کے تیزی سے جڑ پکڑتے ہوئے نظام کے خلاف اصولوں کی \"\"کامیابی تھی۔ بڑھتی ہوئی عمر اور ڈھلتی ہوئی صحت کے باوجود جب تک ممکن رہا سسٹر ایملی کام کرتی رہیں۔ زبیدہ مصطفیٰ نے اپنے مضمون میں ان کے انٹرویو کا حوالہ دیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ’’نوجوانوں کے ساتھ کام کرنا بہت شان دار ہے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس احساس سے ہوتی ہے کہ میں آنے والے کل کے معماروں کی تیاری میں شامل ہوں۔‘‘

آٓنے والے کل کے معمار ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں تو ڈر لگتا ہے کہ اب کل آئے گا بھی کہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments