میں نے منٹو سے کیا سیکھا؟


چیخوف کے بارے میں یہ بات اردو کے ایک رائٹر محمد مجیب نے کہی تھی کہ اس کا دل بہت بڑا تھا، وہ انسانیت کے تمام گناہوں کو معاف کرسکتا تھا۔ منٹو کے بارے میں بھی عین یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ رائٹر گناہوں کو معاف کرنے کا ٹھیکیدار ہے کیا؟ میرے خیال میں منٹو سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، بلکہ ہر اس بات کا ٹھیکہ لینے کی بھی، جس کے لیے یار دوست منع کرتے ہیں، مصلحت سے کام لینے کامشورہ دیتے ہیں، خوش و خرم رہنے، چپ رہنے اور ہنسنے بولنے کی ایکٹنگ کرنے کا درس دیتے ہیں۔ ان حساس لوگوں کو بھی، جن کے لیے یہ کام ذرا مشکل ہے۔ مجھے منٹو نے سکھایا کہ حساس ہونے کے لیے رائٹر ہونا شرط نہیں، مگر رائٹر ہونے کے لیے حساس ہونا بہت ضروری ہے۔ کہانی لکھنا اور کہانی جینا دونوں الگ باتیں نہیں ہیں، کہانی اسی دماغ سے نکلتی ہے، جو پل پل یہاں سماج کے غیر ضروری سپیڈ بریکروں سے ٹھوکر کھاتا رہتا ہے۔ اس لیے اس دماغ کا استعمال نہ کرنا، سوال نہ پوچھنا اور کہانی کے ذریعے اپنی کمینگیوں یا اپنوں کی بدمعاشیوں کو دریافت نہ کرنا ایک کھوٹ ہے۔ ان سب باتوں کے لیے ذمہ داری لینی پڑتی ہے، جسے طنز کی زبان میں ٹھیکہ لینا بھی کہا جاسکتا ہے، منٹو اس طنز کو سہنے کے لیے تیار تھا، اس نے ناسوروں سے رستے ہوئے پیپ کو دکھاتے ہوئے کسی قسم کی شرم کا اظہار نہ کیا، بلکہ بے جھجھک اپنا کرتا اٹھادیا اور ساتھ ساتھ سماج کی شلوار بھی کھول دی۔

منٹو روسی کتھاکاروں میں جس شخص سے سب سے زیادہ متاثر تھا، وہ گورکی تھا، گورکی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر کہانی لکھنے کا عادی نہیں تھا، لوگوں سے ملنا، خاص طور پر اس طبقے سے جسے کیچڑ میں پیر ڈبو کر جینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کی عادات، حرص کی اونچائیاں اور جدوجہد کو دیکھنا اس نےاپنے اوپر فرض کرلیا تھا۔ منٹو نے گورکی سے یہ فن حاصل کیا اور وہ بھی مختلف شہروں کے مختلف کرداروں سے ٹھیک اسی انداز میں ملا۔ اس نے ایسے لوگوں پر کہانیاں لکھیں، جن کو عام طور پر ہمارے یہاں کا رائٹر دریافت نہیں کرپاتا اور کرتا ہے تو ان پر اپنی تحریر کا اتنا لالی پائوڈر پوت دیتا ہے کہ وہ مصنوعی ، بے جان اور دھندلے نظر آتے ہیں۔ منٹو ایسا نہیں کرتا، وہ کہانی میں اس کردار کے ساتھ اپنے تجربوں کو بیان کرتا ہے۔ زندگی کی کچی پکی نالیوں میں تیر رہے ایسے کرداروں کو ہاتھ ڈال ڈال کر باہر نکالنا یا پھر خود ان کے ساتھ اس تعفن زدہ ماحول میں اتر کر وہاں کی زندگی کو برت کر دیکھنا منٹو کا خاصہ ہے۔

دوستوئفسکی کے ناول “ذلتوں کے مارے لوگ” ٰInsulted & Humiliated   میں ایک ایسے بوڑھے کا ذکر ہے، جس کو مصنف خود ایک اداس اور ذلیل موت مرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ منٹو نے روسی ناول نگاروں سے صرف ایسی حقیقت پسندی نہیں سیکھی، اس نے ان حقیقت نگاروں کا وہ باریک تجزیہ بھی اخذ کیا، جو ملکی حالات اور سیاست، مذہب اور اس کی منافقتوں کا پردہ چاک کرتا ہے، لیکن چونکہ منٹومختصر افسانہ لکھتا تھا، ناول نہیں، اس لیے اسے اس تجزیے کو ، جسے جزئیات کی بہت ضرورت تھی، دودھ پر سے بالائی کی طرح پھونک پھونک کر ہٹانا بھی پڑتا ہوگا، اس کی ایسی کہانیاں جو معاشرے میں ابلتے ہوئے دکھ کے پھوڑوں کو نمایاں کرتی ہیں، تجزیوں سے تو خالی ہیں، مگر تجربوں سے نہیں، جن میں ہتک، نیا قانون، سہائے ، ننگی آوازیں ، میرا نام رادھا ہے وغیرہ کئی کہانیاں شامل ہیں۔

پرانی کہانیوں میں سنتے تھے کہ نواب صاحب کو کسی طوائف پر پیار آ گیا تو انہوں نے اسے گھر ڈال لیا، شادی کرلی، فلاں فلاں۔ مگر ایسی ہمت اور کون سے رائٹر میں تھی جو کسی طوائف کو بہن بناتا۔ اس نکتے کی جانب میرا دھیان کچھ سال پہلے معید رشیدی نے دلوایا۔ منٹو طوائف کو بہن بنا کر دیکھتا تھا، مگر اس کا ایسا بھائی نہ تھا، جو اس کی دلالی کرتا پھرے، بلکہ وہ اس کے زخموں کو زبان دینے والا بھائی تھا۔ اس نےعورتوں کے جتنے کردار اپنی کہانیوں میں تراشے ہیں، وہ زیادہ تر اصلی ہیں، بلکہ اگر سبھی کو اصل ہی سمجھا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے وہ کسی کردار کو مکمل طور پر بیان کرتا ہو، کسی کو آدھا اور کسی کے صرف چند پہلو، مگر عورت کے ساتھ اس کا رشتہ ایک آئیڈیل رشتہ ہے، جس میں اس نے نصیحتوں کے پنڈال نہیں تانے ہیں۔ اس کے یہاں عورت مرد کی ہی طرح مظلوم بھی ہے، ظالم بھی، مقتول بھی ہے، قاتل بھی۔ ہتک میں سوگندھی کا کردار پڑھتے ہوئے اگر آپ کے ذہن میں دوستوئفسکی کے ناول ‘ایڈیٹ ‘ کی نستاسیا فلپوونا آ جائے تو اسے ایک قسم کا توارد سمجھا جاسکتا ہے۔ نستاسیا کا کردار سوگندھی کی ہی طرح منہ پھٹ، خطرناک اور جھنجھلانے والا ہے، جو مرد کو اندر تک جھنجھوڑ کررکھ دے۔ ہمارے معاشروں میں زیادہ تر بیویاں انہی کرداروں کی ایک صورت ہوتی ہیں، انہی کا رنگ روپ اور تیور لیے، میں نے خود ایسی بہت سی عورتیں دیکھی ہیں، بس ان کے پاس سماج کو دکھانے کے لیے ایک سند ہوتی ہے ، مگر یہ بات ان کے حق میں سم قاتل بھی ہے کیونکہ نہ تو وہ سوگندھی کی طرح اپنے یار پر ریوالور تان سکتی ہیں اور نہ ہی نستاسیا کی طرح انہیں سرمحفل رسوا کرسکتی ہیں۔

منٹو عورت کے بارے میں کوئی کلیہ قائم کرنے سے قاصر ہے، ایسی غلطیاں آپ کو روسی ناول نگاروں کے یہاں مل جائیں گی، مگر منٹو ججمنٹل نہیں ہوتا، ہرگز نہیں۔ میرا نام رادھا ہے میں حالانکہ اس نے مرد اور عورت کے رشتے میں ‘بھائی۔ بہن’ کے مصنوعی فیتے کو اس بورڈ سے مشابہ قرار دیا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے’یہاں پیشاب کرنا منع ہے۔ ‘مگر منٹو جب خود ایک بھائی کے قالب میں تبدیل ہوتا ہے تو اسے بہن کی چھاتیوں سے پریشانی نہیں ہوتی، وہ انہیں دوپٹے کے نیچے ڈھانک کر زمین پر سینہ تان کر چلنے کا دھوکہ خود کو نہیں دیتا بلکہ وہ بہن کے سینے کی ڈور کو سانسوں کے اتار چڑھائو کے ساتھ بہت اعتماد کے ساتھ دیکھتا ہے اور اس کی نفسیاتی الجھنوں کو انہی ڈوروں کی مدد سے بیان کرتا ہے۔

منٹو سزا کے خلاف ہے، اس کی زیادہ تر کہانیوں میں کردار ایسی عجیب سماجی چکی میں پستے ہوئے نظر آتے ہیں، جن میں مجرم بجائے خود ایک گھنونے اور بے ہودہ جرم کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ کسی کا پیٹ چاک کرنے والا، جھوٹ بولنے والا، دلالی کرنے والا، عورت کو پیٹنے والا یا پھر شراب اور بیڑی کے دھوئیں میں غم غلط کرنے والا، گالیاں بکنے والا اور جھوٹی قسمیں کھانے والا۔ یہ سب دراصل اس بے غیرت اور سوئے ہوئے سماج کے ایسے ڈھکے ہوئے پتے ہیں، جنہیں منٹو الٹنے کا ہنر جانتا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اخباروں کی سرخیوں کی مدد سے کہانی گڑھتا ہے، وہ غلط ہیں، کیونکہ اخبار کی سرخی کے نیچے موجود کہانی کا پورا بیوڑا، وہ مختلف علاقوں میں گھوم کر، آنکھیں چھیل کر تیار کرچکا ہوتا ہے۔ خبر کوئی بھی ہو، کیسی بھی ہو، وہ اکیلی نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک اشارہ ہوتی ہے، سوسائٹی میں پنپنے والی ذہنیت کو نمایاں کرنے والا اشارہ۔ اب تو خیر ہم ان اشاروں کو منڈی میں لے آئے ہیں اور ایسے پتلے موٹے، لمبے ، چوڑے اشاروں کی تلاش میں رہتے ہیں، جن سے کچھ کمائی ہوسکے۔ مگر منٹو کمائی کے لیے خبروں کو تلاش نہیں کرتا تھا، بلکہ وہ اپنے تجربوں کی کاپیوں کو خبروں کے عکس سے ملا کر دیکھتا اور انہیں رقم کرتا تھا۔ اس نے جن ادیبوں کو پسند کیا، وہ پھانسی کے خلاف تھے، خود وہ بھی رہا ہوگا، پھانسی اس معاشرے کی گھٹن کا علاج نہیں، بلکہ پھندے کھول دینا زیادہ ضروری ہے۔

میں نے منٹو سے سیکھا ہے کہ خود کو گھول کر کہانی کو کیسے جیا جاتا ہے۔ وہ کون سا بوجھ ہے جو ایک شاعر اور ادیب کو صحافی اور پولس اہلکار سے زیادہ ہلکان کردیتا ہے، جبکہ صحافی اور پولس کا واسطہ تو آئے دن ایسی خبروں سے پڑتا ہے، بلکہ ان کا کام ہی عجیب حرکتوں کے غلیظ نتائج کو دیکھنا اور بیان کرنا ہے، مجرموں کی فراق میں پھرنا ہے، ان کی تاک میں رہنا ہے، لوگوں کی انوکھی نفسیات کا سامنا کرنا ہے۔ بلکہ کسی ماہر نفسیات کو بھی جو ایسے مریضوں کو، جو نت نئے ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں، دیکھتے رہنے کی عادت ہوتی ہے، پھر بھی ایسا کیا ہے کہ ان تینوں کے مقابلے میں ادیب ان نفسیات کے پیدا ہونے اور پنپنے کے غم میں گھلتا رہتا ہے، منٹو سکھاتا ہے کہ بے حسی ممکن نہیں۔ خاص طور پر اس شخص کے لیے جو فکشن نگار ہو یا فکشن کا مطالعہ ہی کیوں نہ کرنا چاہتا ہو۔ ہرحال میں اسے اپنے ذہن و دل کو انسانیت کے لیے کشادہ رکھنا ہوگا اور ٹوٹتے ہوئے تعلقات، بگڑتے ہوئے حالات اور غیر ضروری مخالفتوں کے باوجود اپنے اندر کے قلم کار کو زندہ رکھنا ہوگاجو ہر حالت میں سچ لکھنے سے باز نہ رہے۔ ایسا سچ جس کی کوئی تکنیک نہیں، بس وہ کھرا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments