ہمارے معاشرے میں مجرم عورت


\"\" اپنے ارد گرد نظر دوڑاتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ھمارے معاشرے میں عورت ہونا شاید ہی کسی جرم سے کم ہو۔ سزا تو کسی نہ کسی صورت بھگتنی پڑتی ہے۔ اکثر خواتین کی زندگی تو ایک  ایسے قیدی کی مانند گزرتی ہے جسے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا  خود ذمہ دار  ٹھہرا کر قید و بند کی سزا سنا دی گئی ہو۔ یا شاید ہمارے معاشرے میں عورت کو تحفط دینے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔

اس معاشرے میں آج بھی بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اس کی پیدائش پر ٰکف افسوس ملا جاتا ہے، زیادہ بیٹیوں والے کو بد قسمت سمجھا جاتا ہے، بیٹی کو جنم دینے والی عورت کو مختلف طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسکا مستقبل تک خطرے میں  پڑ جاتا ہے، بیٹی کا باپ ایک فکرمند زنگی گزارتا ہے۔

معاشرے میں رائج ان رویوں کے باعث عورتوں کے ساتھ نا مناسب  سلوک روا رکھا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہاں ایک عورت کو اسکی انفرادی حیثیت میں تحفظ تک فراہم نہیں کیا جاتا۔ جو ادھورا تحفظ ملتا ہے وہ بھی اسکے باپ، بھائی، شوہر یا خاندان کے حوالے سے دیا جاتا ہے۔بغیر کسی سہارے کے ایک عورت کا زندگی گزارنا تقریبا ناممکن ہے۔  سوچنے سمجھنے، خودمختار ہونے، فیصلہ کرنے جیسے امور تو دور کی بات ہیں، خواتین کو اپنی پسند کا لباس تک پہننے کی اجازت نہیں ہوتی۔

 ان کی تعلیم کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہمارے اکابرین تو ابتدا ہی سے عورتوں کی تعلیم کے مخالف رہے۔ آج تک بھی عموما رسمی تعلیم ہی دلوائی جاتی ہے، لیکن اب معاشرے میں رونما ہونے والی مختلف تبدیلیوں کے نتیجے میں بہت سے معتبر گھرانے  پڑھی لکھی بہووں کا  تقاضا کرنے لگے ہیں-  چونکہ عورت کی زندگی کا واحد مقصد  ابھی بھی شادی  سمجھا جاتا ہے اس لیے بہتر جگہ شادی کی امید میں لڑکیوں کو بہتر تعلیم بھی دلوا دی جاتی ہے۔ لیکن اعلی سے اعلی تعلیم کے باوجود اسکے بنیادی کام  ہانڈی چولہا، برتن، شوہر اور بچوں کی خدمت وغیرہ ہی سمجھے جاتےہیں اور اپنے شعبے میں عملی کام کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔

شادی جیسے اہم معاملے میں عورت کو  اپنا ہمسفر منتخب کرنے کا حق شاذ و نادر ہی دیا جاتا۔ عورت کو کس کے حوالے کیا جائے گا، اس کا فیصلہ اسکے باپ بھائی کرتے ہیں، کیونکہ سوچنے سمجھنے سے قاصر عورت کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔  اسے شوہر کے طعنے تشنیع، مار کٹائی وغیرہ خاموشی سے سہنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔ ایسے میں اس اندیشے کے پیش نظر  کہ عورت کی عزت نفس نہ جاگ جائے اور اسے اپنا انسان ہونا یاد نہ آ جائے، \’عورت کی عظمت\’ نامی لالی پوپ اسے پکڑا کر یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ عظیم عورت وہ ہوتی ہے جو مشکلات برداشت کرتی ہے۔ مقصد یہی ہوتا کہ بیٹی باپ کے گھر واپس نہ آجائے کیونکہ جس گھر میں عورت نے جنم لیا ہوتا ہے، وہاں اس کے رہنے کی گنجائش ایک محدود مدت تک بھی بمشکل ہی نکلتی ہے۔

 عورتوں کے گھر سے نکل کر کام کرنے کی عموما حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اور اگر کام کرنے دیا جاتا ہے تو اپنی کمائی اپنی مرضی سے خرچ کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ باہر نکلنے والی خواتین کو جگہ جگہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں، دفاتر اور ہسپتالوں  کے نہ صرف آنے جانے والے راستوں بلکہ ان داروں کے اندر بھی عورتوں کو ہراساں کیا جانا ایک معمول ہے۔ تفریحی مقامات کا تو ذکر ہی کیا کرنا، ہمارے معاشرے کو خواتین کا تفریح کرنا یوں بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ دیکھا جائے تو گھروں کے اندر ہراساں کیے جانے کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ جنسی زیادتی بھی ایک معمول کی بات ہے۔ اور بین الاقوامی طور پر عموما پائے جانے والے رویے کے عین مطابق خواتین کو زیادتی اور ہراساں کیے جانے کا زمہ دار خود ٹھرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔  کسی بھی قسم کی زیادتی کے تدارک کے لیے اول تو قوانین بننے ہی نہیں دیے جاتے اور اگر ایسے قوانین بن بھی جائیں تو بھی ان پر  عملدرآمد کی نوبت کم ہی آتی ہے۔

 حقوق نسواں کے بیانیے اور اس سے منسلک تحریکوں کے نتیجے میں خواتین کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق تک رسائی حاصل ہو رہی ہے،  لیکن ان تحریکوں کا مقابلہ بھی پرزور طریقے سے کیا جا رہا ہے اور انداز سے لگتا ہے کہ تا دم مرگ جاری رہے گا۔

ان تمام مسائل کے باوجود ایک تاثر یہ  پایا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین  کو تمام حقوق حاصل ہیں خاص کر ایک فائدے کا ذکر تو ہر عام و خاص سے سننے کو ملتا ہے، وہ یہ کہ تندور پر نان وغیرہ لینے کے لیے عورتوں کی باری مردوں سے پہلے آجاتی ہے اور ذرائع آمدورفت میں جہاں اکثر نازیبا حرکات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں کبھی کبھار بیٹھنے کے لیے جگہ ترجیحی بنیاد پر مل جاتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments