منٹو کی اداکاری، فلائٹ لیفٹینٹ کرپارام اور ایٹم بم کی دھمکی


 اوپندرناتھ اشک کی خامہ فرسائی:

 اوپندرناتھ اشک نے اپنے خاکے ”منٹو میرا دشمن“ میں لکھا ہے کہ فلمستان سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی پہلی فلم” مزدور“ باکس آفس پرکامیاب نہ ہوئی مگر اس کے مکالمے اس برس کے بہترین مکالمے قرار پائے۔ دوسری فلم ”سفر“ باکس آفس پر کامیاب ٹھہری۔ اس لیے جب اشوک کمار نے الگ سے فلم پروڈیوس کرنا چاہی تومنٹو کے بجائے ان کے پاس فلم کی کہانی لکھوانے آئے کیونکہ بقول اشک”منٹوکی دونوں فلمیں ”چل رے چل رے نوجوان“اور ”شکاری“ دو دو سال لینے کے باوجود ناکام رہیں۔“ پروفیسر سی ایم نعیم کو اشک کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ منٹو کی دونوں مذکورہ فلمیں ناکام رہیں۔ ان کے خیال میں ”چل رے چل رے نوجوان“ اور ”شکاری“ دونوں نے، خاص طورسے موخر الذکر فلم نے معقول حد تک بزنس کیا۔

 اشک کا کہنا ہے کہ فلم لکھنے کے واسطے پہلے اشوک نے اس سے رابطہ کیا تھا لیکن پھر منٹو نے سازش کر کے اس کا پتا کاٹ دیا۔ اشک کے بقول”منٹو کو یہ خبرمل گئی کہ اشوک میرے پاس پہنچا ہے اور میں دو ہزار روپیہ مانگ رہا ہوں تو اس نے واچا کو ساتھ ملا لیا ۔ واچا اشوک کو اپنے فلیٹ پر لے گئے۔اشوک کو انھوں نے اس وقت تک نہ آنے دیاجب تک یہ طے نہیں کرلیا کہ منٹو نئے فلم کی کہانی لکھے گا اور دوسرے دن اس کا مہورت ہوجائے گا۔ چونکہ کہانی کوئی تیارنہ تھی اور مہورت ہوگیا تھا، اس لیے ” آٹھ دن“کے فلمانے کے سلسلے میں کیاکیا دقتیں پیش آئیں یہ ایک لمبی کہانی ہے، لیکن چونکہ منٹو نے یہ جانتے ہوئے کہ میں نے الگ سے معاوضہ مانگا تھا، بغیرمعاوضہ لیے افسانہ لکھ دینا منظور کرلیا (یہ اور بات ہے کہ جب آدھی فلم بن گئی تو اس نے پریشان کرنا شروع کیا اور کہانی کی مد میں بھی کچھ معاوضہ لے لیا) اوراچھی خاصی سازش کر کے میرا پتہ کاٹ دیا اس لیے مجھے بہت برا لگا…. خصوصاً اس وقت جب میں افسانہ کاخاکہ لکھ کراشوک کے آنے کا انتظار کرتا رہا…. مہورت ہو گیا۔ مکرجی مجھ سے خوش نہ تھے، اس لیے سوا اس کے کہ میں زہرکا گھونٹ پی کر رہ جاتا، اور کچھ نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن کچھ ہی دن بعد میں نے منٹو سے بدلہ لینے کی ترکیب نکال لی۔

 آٹھ دن کا ڈائریکٹر فلمستان کا ایڈیٹر دتارام پائی مقرر ہوا تھا۔ اگرچہ ڈائریکشن تو اشوک ہی کرتا تھا، لیکن چونکہ پائی بڑا قابل ایڈیٹر تھا، اس لیے اس کی چلتی تھی۔ میں نے واچا کو ساتھ ملایااور آٹھ دن میں پنڈت طوطا رام کا ایک مزاحیہ رول لے لیا۔ جب کہانی شروع ہوئی تھی تو یہ دو ایک مناظرکا رول تھا۔ لیکن میں نے اس خوبی سے اپنا پارٹ کیا اور بغیر ری ٹیک کے کیا کہ اشوک کو بہت پسند آیا اور اس نے طے کیا کہ یہ رول بڑھا کر ساری فلم میں رکھا جائے۔ اس کے علاوہ وہ پنڈت طوطا رام چونکہ ہندی بولتا تھا، اس لیے پنڈت کے سب ڈائیلاگ میں لکھتا تھا۔ منٹو ایک لائن لکھتا تو میں چار کر دیتا۔ منٹوایک سین لکھتا تو میں اس کو دو بنا دیتا۔ مجھے سٹیج ایکٹنگ تو پسند ہے، لیکن فلم ایکٹنگ کو فلم ناٹک کی طرح میں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن منٹو کو پریشان کرنے کے لیے وہ مضحکہ خیزرول میں کرتا رہا اور منٹو اتنا پریشان ہوا کہ ایک دن سیٹ پر ہاتھا پائی تک کی نوبت آ گئی۔“

 معروف نقاد مظفرعلی سید نے پاکستان بننے کے بعد منٹو سے لاہور میں اپنی ملاقاتوں کا احوال ان پر اپنے خاکے میں قلمبند کر دیا ہے۔ فلم” آٹھ دن“جب ریلیز ہوئی تو وہ امرتسر میں تھے۔ اس فلم کے بارے میں ان کے تاثرات منٹو کے خاکے میں یوں بیان ہوئے ہیں:

 ” ایک دن مقامی سینما پرل ٹاکیزکی دیوار پر لکھا دیکھا کہ سہراب مودی کی فلم”مرزا غالب“جس کی کہانی مکالمے منٹو صاحب نے لکھے ہیں، جلد ہی آنے والی ہے، آپ کے شہر میں۔ یہ اشتہار آزادی سے دو ایک سال پہلے دیکھا تھا اور تبھی سے اس کا شدت سے انتظارہونے لگا تھا لیکن یہ فلم دیرتک نہ بن پائی، پھر بھی میری طرح شہر کے بہت لوگ منیجر کے پاس جا جا کر پوچھا کرتے کہ کب آ رہی ہے، اور وہ یہی بتاتا کہ بس تھوڑے سے دنوں میں آنے ہی والی ہے۔ اتنے میں شور ہوا کہ منٹو صاحب خود ایک فلم میں آ رہے ہیں، اداکار کے طور پر۔ انھیں دیکھنے کا اشتیاق تو تھا ہی لیکن جب فلمستان کی ’ آٹھ دن“ لگی تو خاصی مایوسی ہوئی کہ منٹو صاحب نے اس میں چھوٹا سا رول ایک پاگل فوجی افسرکا ادا کیا تھا، جس کا دماغ جنگ کے دوران کوئی بہت بڑا دھماکا سن کر ہل گیا تھا اور وہ لوگوں کو جنگ سے ڈرانے کے لیے ایک فٹ بال پھینک پھینک پر ایٹم بم، ایٹم بم چلاتا رہتا تھا۔ تاہم اتنی خوشی ضرور تھی کہ منٹوصاحب کو کسی روپ میں سہی، دیکھا تو۔ “

 ممتازادیب انتظارحسین ہجرت کرکے لاہور پہنچے تو یہاں ان کا جن ادیبوں سے تعلق گہری دوستی میں بدلا ان میں مظفرعلی سید کو اولیت حاصل ہے۔ مظفرعلی سید کی طرح انتظارحسین نے بھی” آٹھ دن “کو دیکھ رکھا ہے، اور اس کا ذکر ان کے ایک مضمون میں کچھ اس انداز میں آیا۔

 ”مجھے تقسیم سے فوراً پہلے کی بنی ہوئی بمبئی کی ایک فلم” آٹھ دن “یاد آگئی۔ منٹوصاحب نے اس میں کام کیا تھا۔ شاید اس کا اسکرپٹ بھی انھوں نے ہی لکھا تھا۔ انھوں نے ایک ایسے نیم دیوانے کا کردارادا کیا تھاجس کے ہاتھ میں ایک گولا ہے۔ اسے وہ ایٹم بم بتاتا ہے اور باربار دھمکی دیتا ہے کہ کہو توایٹم ماروں۔ اس فلم کے خیال نے مجھے اور ڈرا دیا۔ خیر میں تو بزدل ہوا۔ ویسے اس وقت برصغیرکے لوگ بالعموم ایٹم بم کے سحر میں ہیں۔“

 انتظارحسین سے ہم نے پوچھا کہ انھیں کچھ یاد ہے، یہ فلم انھوں نے کہاں دیکھی تھی، تو انھوں نے بتایا کہ میرٹھ میں انھوں نے محمد حسن عسکری کے ساتھ یہ فلم دیکھی۔ منٹو جب شیل شوکڈ فوجی کے روپ میں پردہ سکرین پر نمودار ہوئے توعسکری نے ہی انھیں بتایا کہ یہ اداکارکوئی اور نہیں منٹوصاحب ہیں۔

 مظفرعلی سید اورانتظارحسین نے اس فلم کو دیکھ لیا۔ اس پر رائے دے دی۔ انتظارحسین کے ایک اور دوست معروف افسانہ نگار اکرام اللہ کے ہاں بھی اس فلم کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر والد گرامی کی طرف سے ” آٹھ دن “دیکھنے کی اجازت نہ ملی۔ اس فلم کو دیکھنے سے متعلق ذوق و شوق کا ذکر ان کی ”آج “ میں شائع ہونے والی یادداشتوں میں آ گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”ماہ اپریل کا وسط چل رہا تھا۔ ہر نیا دن پچھلے دن سے زیادہ گرمی کی تلخی لے کر آتا۔ انھی دنوں” آٹھ دن“ نامی فلم کے امرتسر میں ریلیز ہونے کے موقع پر مشتہری کی مہم بڑے زوروں پرچل رہی تھی۔ دکانوں پراور خاص طور پر نائیوں اور پان والوں کی دکانوں پر اشوک کمار (ہیرو) اور ویرا (ہیروئین) کی آرٹ پیپر پر بڑی بڑی رومان چھلکاتی تصویریں لگ رہی تھیں۔ ہرتصویر میں نیچے سرخ الفاظ میں لکھا ہوتا: کہانی اورسکرین پلے ازسعات حسن منٹو آف امرتسر۔ اس کے باوجود فلم بہ مشکل دو ہفتے چل سکی البتہ امرتسرکے پرانے کشمیری مسلم خاندانوں کی ٹھہرے پانیوںجیسی خاموش زندگیوں میں ایک لرزش سی ضرور پیدا ہوئی جو کہ بزرگوں میں دبی دبی سی سعادت حسن کے خلاف تھی اور وہی جوانوں میں کچھ فخرومباہات کا رنگ لیے تھی۔

 مجھ میں ابھی والد کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی ہمت پیدا نہ ہوئی تھی، اس لیے تشہیرکے متاثرین میں سے ہونے کے باوجود فلم نہ دیکھ سکا صرف اپنے دوست کپل سے پوچھ لیا کہ کیسی ہے اوریوں فرض ادا کر لیا۔کپل نے بتایا کہ ”پھیکی پھیکی سی ہے۔ بات کچھ بن نہیں سکی۔“

”چلواچھا ہوا میں گناہ بے لذت سے بچ گیا۔ کیا منٹو کو دیکھا؟“

”ہاں، آدھے منٹ کا رول ہوگا۔ بالکل فالتو سا۔“

”یہ بتاﺅ تم نے کبھی اسے امرتسر کی گلیوں میں گھومتے پھرتے دیکھا تھا۔“

 ”وہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے امرتسر چھوڑ کر جا چکا تھا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments