تلہ گنگ میں گھڑولی اور میرے گھونگر والے بال


ہمارے ہاں جب بھی مشرقی اقدار کے بتدریج ختم ہونے کا رونا رویا جاتا ہے اور مغربی اقدار کی یلغار پر آواز اٹھائی جاتی ہے تومجھے اچھا لگتا ہے ۔

اس جنگ کے لیے لڑنے والی فوج کے ہراول دستے میں ، میرے دائیں کاندھے کے ساتھ وہ ہیں کہ جن کا دایاں بازو زیادہ متحرک رہتا ہے۔

جب بھی گھمسان کا رن پڑا، تو آنکھیں میچ کر میں دشمن پر ایسا قہر بن کر ٹوٹا کہ میرے دائیں بازو والے ساتھی سپاہی داد دیے بنا نہ رہ سکے۔

میں نے مشرقی اقدار کی خاطرویلنٹائن جیسی درآمدات پر احتجاج کیا۔

ہم جنگ میں اس قدر مصروف رہے کہ وہ اصطلاحات کہ جن کے لیے جنگ لڑی جا رہی تھی ان کی شرح کا وقت تھا نہ دماغ….

اور جب مشرقی اقدار کی شرح میں اختلاف سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ مجھے چومکھی لڑائی لڑنی پڑے گی۔

میں تو ’گھڑولی ‘ کی بحالی کے لیے جنگ میں شامل تھا، بعد میں معلوم ہوا گھڑولی کی بحالی میرے ساتھی جنگجو ﺅں کے ایجنڈا میں شامل نہیں ہے۔

ہمارے گاﺅں میں گھڑولی کی رسم میری یاد میں ہے ۔ اس وقت میں چھٹی یا ساتویں میں تھا جب گھڑولی پر پابندی لگی۔ رسم یہ تھی کہ گاﺅں میں جب کوئی خوشی کا موقع ہوتا جیسے کسی بچے کی پیدائش وغیرہ تو گاﺅں کی خواتین ، گلیوں میں گانے گاتیں ایک کھلے میدان میں اکٹھی ہوتیں اور لڈی ڈالتیں۔ لڈی ڈالنے والیوں میں نوجوان لڑکیوں کے ساتھ دادیاں نانیاں بھی ہوتیں اور چھوٹی بچیاں بھی۔

یہ رسم، خواتین کی رسم خیال کی جاتی اور مرد کسان حضرات اگر وہاں سے گزر بھی رہ ہوتے ایک اچٹتی سی نگاہ ڈال کر روانہ ہو ۔۔اتے۔ خوشی منانے پر گاﺅں کی معاشرتی سوچ میں کوئی مخالفت نہیں تھی۔ اور خواتین کو اس طرح خوشی مناتے دیکھ کر خوش ہوا جاتا۔

ہمارے سکول میں ایک استاد تھے جنہوں نے سب سے پہلے تبلیغی مشن میں شمولیت اختیار کی۔

انہی کو اس رسم کے غیر اسلامی ہونے کا سب سے پہلے ادراک ہوا۔ انہوں نے اسکول میں آٹھویں کے بچوں کو سختی سے کہا کہ اپنی ماﺅں بہنوں کو اس بے حیائی سے روکیں ۔

بچوں نے کہا بھی ہو گا اور ماؤں سے گالیاں بھی کھائی ہوں گی۔ کہ بچہ گھر میں بچہ ہی ہوتا ہے۔

لیکن معاملہ شدت اختیار کر گیا جب ، خواتین گھڑولی کے لیے آتیں تو استاد گرامی سکول کے بچوں کو ان کے پیچھے روانہ کرتے اور اس بے شرمی کی تقریب کو پتھر مارنے کا کہتے ۔

میرے آٹھویں جماعت پہنچنے تک گاﺅں اس بے حیائی اور بے راہ روی سے پاک ہو چکا تھا۔

صدیوں پرانی رسم ایک سال بھی مخالفت کی تاب نہ لا سکی اور ایسی ختم ہوئی کہ اب صرف بڑی عمر کی خواتین کی حسین یادوں تک رہ گئی۔

بڑے بزرگ عید جیسے تہواروں پر اونچے درختوں سے پینگیں لٹکاتے۔ مجھے اپنے دادا یاد ہیں کہ کیسے ضعیف العمری کے باوجود وہ صحن میں لگے اونچے بیری کے درخت پر چڑھ جاتے تھے اور ہمارے لیے پینگ تیار کرتے۔ گاﺅں میں بھی ایک مخصوص جگہ تھیں جہاں مشترکہ پینگیں لگتیں تھیں ۔ پھر معلوم نہیں اس دھرتی کو کس کی نظر لگ گئی ۔ ہمارے زمین سے جڑے تہوار اور خوشیاں غائب ہو گئیں۔ سرسوں کے رنگ ویسے ہی رہے لیکن جوان چہروں پر جذبات کی سرخی غائب ہو گئی۔ بسنت غائب ہوئی، میلہ مویشیاں کی کچھ خبر نہیں ۔ ان تہواروں پر پہرے لگانے والے بھول گئے کہ اپنے تہواروں پر پابندی لگے گی تو تہوار باہر سے درآمد ہوں گے۔

گاﺅں میں گانا گانے کا ایک رواج تھا ۔ عورتیں شادی بیاہ کے موقع پر گیت گاتیں ۔ ان گیت یا گاﺅں کی زبان میں یوں کہیے کہ ’کلیوں‘ میں جا بجا اپنے پوتوں اور بیٹوں کے نام ٹانک دیتیں۔ وہ گیت اگر اردو میں ترجمہ کیے جائیں تو تشبیہات اور استعارات سے سجی اس شاعری سے آپ دنگ رہ جائیں۔ یہ کلیاں یونہی وجود میں نہ آتیں تھیں بلکہ ہر گھر کے طویل و عریض صحنوں میں جھاڑو دیتی خواتین کا دماغ قافیے ملانے میں مصروف رہتا، بالخصوص اگر کوئی شادی کی تقریب نزدیک ہوتی ۔۔

اور پھریہ مترنم انکشافات اس شادی کی تقریب میں ڈھولک کی تھاپ پر کیے جاتے تو داد سمیٹی جاتی۔

ڈھولک کی بھی بس ایک مخصوص تال تھی ۔۔تھپا تھپا تھپا۔۔اور سر سے کوئی خاص واقفیت نہیں تھی۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ خواتین کا زیادہ دھیان شاعری اور اس میں تشبیہات وغیرہ میں تھا۔

ابو اس شغل کو خاص پسند نہیں کرتے تھے۔ امی مجھے اور میری چھوٹی بہن کو لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں گھس جاتیں اور وہاں ڈھولک پر گانے گاتیں۔ مجھے اس وقت کچھ زیادہ یاد نہیں لیکن کچھ شعر پیش خدمت ہیں۔۔

شعر: قاری مینڈھا پڑھن گیا ، کوئی نوا سکول ہووے
بستہ چاندی دا ۔۔۔۔سونے دا رول ہووے

ترجمہ: میرا قاری (یعنی وقار) پڑھنے گیا ہے اور اس کا اسکول نیا ہو
اس کا بستہ چا ندی کا ۔۔اور اس کا پیمانہ (فٹ سکیل) سونے کا ہو

شعر: وقار احمد نی بودی کنڈل مرینی آ
اکھ نخریلی ، صورت تکن ناں دیندی آ
ترجمہ: وقار احمد کے بال کنڈل کھاتے ہیں (یہاں شاعرہ یعنی والدہ محترمہ نے فقط قافیہ ملانے کی غرض سے حد درجہ مبالغہ سے کام لیا ہے)
اس کی آنکھ نخریلی اور اس کی صورت کو دیکھنے کی تاب نہیں (استغفراللہ، بہر حال شاعروں کو اجازت ہے)

پھر بڑے ہوئے تو تلہ گنگ خوشاب میانوالی کی جاندار اور خوبصورت شاعری پڑھنے کو ملی ۔
ذرا شاکر شجاع آبادی کا یہ شعر تو دیکھئے

72حور دے بدلے گزارہ ھِک تے کر گھنسوں
71حور دے بدلے سانوں رج تے روٹی دے

تلہ گنگ اور گردونواح کی شاعری ، دھرتی کے استعارے لیے ہوئے ہے ۔ بارانی اور ریگستانی زمینوں کا درد والا لہجہ ہے۔ محبوب کی دوری بڑا موضوع ہے ، اور محبت بھرے گلے شکوے جا بجا نظر آتے ہیں۔ عطاءاللہ تلہ گنگ اور میانوالی کی نمائندہ آواز ہے۔ آپ نے نیچے لکھے گانوں سے لطف اندوز ہونا ہو تو یو ٹیوب پر (Pail Papu Party)لکھ کر تلاش کریں۔ تلہ گنگ کی موسیقی میں ڈھول کا مقام آپ یہ گانے یو ٹیوب پر سن کر خود طے کریں۔

اڈا تلہ گنگ دا کولوں پئی لگدی آ بس ماہیا (تلہ گنگ کا بس اڈا جس کے پاس بس گزر رہی ہے)
کہیڑی ساڈی غلطی کول بہا کہ دس ماہیا (میری غلطی کیا ہے ، میرے محبوب مجھے پاس بٹھاﺅ اور بتاﺅ)
میں ایتھاں تے ڈھول چکوال اے ہائے ہائے (میں یہاں اور محبوب چکوال میں ہے ہائے ہائے)
ونجناں ڈھول دے نال اے ہائے ہائے (میں نے محبوب کے ساتھ جانا ہے ہائے ہائے)
نکا جئیا چوچا ، ککڑی ایٹھ لکائی رکھیا (چھوٹا سا مرغی کا بچہ جسے مرغی نے نیچے چھپایا ہوا ہے)
اج ساڈا دشمن کل اساں ہتھا ں اتے چائی رکھیا۔۔۔(آج ہمارا دشمن بنا پھرتا ہے جسے ہم کل ہتھیلی پہ اٹھائے رکھتے تھے)

درج ذیل گانا ، میشا شفیع نے چکوال گروپ کے ساتھ مل کر کوک سٹوڈیو میں گایا ہے لیکن نہ جانے کیوں مجھے یہ صرف اکیلے ڈھول کے ساتھ ہی لطف دیتا ہے ۔ اس کو جس طرح پیل پارٹی لہرا لہرا کر گاتی ہے وہ سننے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

عشق آپ بھی اولا (عشق خود بھی عجیب)
اودے کم وی اولے (اور اس کے کام بھی عجیب)
جیندے پیش پئے جاوے ( وہی جانتا ہے جسے سامنا کرنا پڑ جائے)

ککھ چھڈدا نئی پلے (اس کے پاس کچھ نہیں رہتا)
اس عشق اچ یارو کجھ کیا وی نئی جاندا (اس عشق میں یارو کچھ کیا بھی نہیں جاتا)
رولا پایا وی نئی جاندا (نہ شور مچایا جا سکتا ہے)
چپ رہیا وی نئی جاندا (خاموش بھی نہیں رہا جا سکتا)
نی میں جھول جھول کہ گھڑا بھریندی آں (میں جھول جھول کے گھڑے کو بھرتی ہوں)
گھڑا چواویں آ (گھڑا اٹھانے میں میری مدد کرو)
سر تے رکھاویں آ (اس کو میرے سر پر رکھو)
گھڑا چویندا نئیں او ڈھول وے (میرے محبوب مجھ سے گھڑا نہیں اٹھایا جاتا)
نی میں جھول جھول کہ گھڑا بھریندی آں (میں جھول جھول کے گھڑے کو بھرتی ہوں)

درج ذیل گانا سنئے۔ اس میں نئیں آیا کی تکرار کیا خوبصورت ہے ۔ آپکو گانا سنتے شعر سمجھ نہ بھی آئیں تو بھی ڈھول اور گائیکی کے انداز کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔

نئیں آیا نئیں آیا ۔۔کوٹھے تے چڑ ھ تکیا وے ماہیا نئی آیا (نہیں آیا ۔نہیں آیا۔۔چھت پر جا کر دیکھا ہے محبوب نہیں آیا)
چٹی ہوواں کلبوتری وے (میں سفید کبوتری ہوں)
اُڈی اُڈی پھراں اداس وے (اداس اڑی اڑی پھرتی ہوں)
ٹٹ گئی ماہیے دی آس وے (محبوب کے آنے کی امید دم توڑ چکی ہے)
نئیں آیانئیں آیا۔۔کوٹھے تے چڑ ھ تکیا وے ماہیا نئی آیا (نہیں آیا ۔نہیں آیا۔۔چھت پر جا کر دیکھا ہے محبوب نہیں آیا)

پھر جب تلہ گنگ کی فضا سے نکلا تو دیکھا کہ پنجاب میں کیا کیا جاندار لہجہ ہے اسلوب ہے سادگی ہے گہرائی ہے۔ ۔۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر مذہبی رواداری ہے

توں کیوں ڈھاویں مسجد میری
میں کیوں ڈھاواں مندر نوں
آجا۔ دوویں بہہ کہ پڑھیے
اک دوجے دے اندر نوں

بابا وارث شاہ کے یہ شعر یاد آ جائیں تو پورا دن گنگناتا رہتا ہوں۔۔

کونجاں وانگ ممولیا دیس چھڈے اساں ذات صفات تے بھیس کہیا
وطن دماں دے نال تے جوگی سانوں ساک قبیلڑا خویش کیہا۔۔

اور پھر بابا شاہ حسین کی شاعری ۔شاعری کی توصیف میں کوئی کیا کہے اور کیسے کہے۔

رات اندھیری بَدّل کنیاں ، ڈَاڈھے کیتا سڈّ وے اَڑیا
عشق محبت سو ای جانن پئی جنیہاں دے ہڈ وے اَڑیا
کلر کٹھن کھوہڑی چینا ریت نہ گڈ وے اَڑیا

نت بھرینائیں چھٹیاں اک دن جا سیں چھڈ وے اَڑیا
کہے حسین فقیر نمانا، نین نیناں نَال گڈ وے اَڑیا

ترجمہ: محبوب نے ہمارا بازو پکڑ لیا ہے میں کیوں کہوں کہ چھوڑ دے ، رات اندھیری ہے ، بادل گھنا ہے ، بلاوا بھی آچکا ہے
عشق اور محبت وہی جانتے ہیں جن کی ہڈیوں میں رچ بس جاتا ہے ، سیم و تھور اور ریتلی زمین کنواں کھودنے اور اناج اگا نے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تو روز و شب مال ودولت اکٹھا کرنے میں مگن ہے مگر ایک دن سب یہیں چھوڑ کر چلا جائے گا۔ حسین، رب کا عاجز فقیر کہتا ہے کہ تو نگاہوں سے نگاہیں ملا یعنی عشق کر

بس یہی جنگ ہے، چومکھی لڑ رہا ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ تھر کے دورافتادہ گاﺅں میں گائی جانے والی لوری مٹ جائے گی۔ وہ گیت جو زمین سے جنم لیتے ہیں ختم ہو جائیں گے ۔ ہم ان گیتوں ، گیتوں کی زبان کو اگلی نسل تک منتقلی میں شرمندگی محسوس کر رہے ہیں۔ یہ کیا بات ہے ہمارے بچے اتنے اچھے اسکولوں میں پڑھ کر بھی پنجابی بولیں۔میں نے فیس بک پر ایک دفعہ کچھ یوں اظہار کیا تھا اور یہی میری ساری بات کا مدعا ہے۔

پنجابی ‘ دنیا کی دسویں سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان۔پنجابی ، دس کروڑ لوگوں کی زبان

مڈل کلاس اپر کلا س اردو سے شرمندہ۔۔بیٹا یہ دروازہ نہیں۔Door ہے

لوئر مڈل کلاس۔پنجابی سے شرمندہ۔۔۔بیٹا یہ بوہا نہیں۔۔دروازہ ہے ۔ لوئر کلاس دنیا کی سب سے تاثراتی زبان پنجابی کی غیر ارادتاََ محافظ ہے۔

وارث شاہ ، شاہ حسین ، بلھے شاہ ، بابا فرید، بابا گرو نانک، گرو ارجن دیو، امرتا پریتم ، شو کمار، منیر نیازی ، شریف کنجاہی ..ہائے ہائے

جس قوم کو سائنس انگریزی زبان میں اور ادب اپنی زبان پڑھنے کی ضرورت تھی۔وہ سائنس اردو زبان میں اور ادب سات سمندر پار کا پڑھ رہی ہے۔

رہے نام اللہ کا۔

شکر ہے میری بھانجی تلہ گنگ کے مخصوص لہجے کی حامل پنجابی میں ٹر ٹر کرتی ہے۔
یقین ہے ، وقاص بھی گاڑھی پنجابی کی پیچیدہ گالیوں پر عبور حاصل کرے گا۔
مَینوں پاگل پن درکار
مَینوں پاگل پن درکار
لکھاں بھیس وَٹا کے ویکھے
آسن کِتے جما کے ویکھے
متھے تِلک لگا کے ویکھے
کدھرے مون مَنا کے ویکھے
اوہو ای رستے، اوہو ای پَینڈے
اوہو ای آں میں چلن ہار
مَینوں پاگل پن درکار

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments