امید کا انڈہ توڑنے والی سرکار


\"\"

بچوں نے گھر میں کچھ پرندے ایک مرغی پال رکھی ہے۔ اس بار پشاور جانا ہوا تو پرندوں کا اضافہ اچھا لگا گھر میں۔ جب بھی گھر سے نکل کر کہیں آتا جاتا بچوں کو پرندوں کے سامنے قطار باندھے ہی دیکھا۔ پرندوں سے یہ پیار دیکھ کر خوشی ہی ہوتی رہی۔ اپنے کمرے سے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ بچوں نے اچانک اٹھ کر پرندوں کے ڈربے کے سامنے ناچنا شروع کر دیا۔ حیرت ہوئی اٹھ کر باہر نکلا کہ دیکھوں کیا ہوا ہے۔

موجو (بھتیجا) او یس او یس کے نعرے لگاتا ایک ٹانگ پر ناچ رہا تھا۔ پوچھا کیا ہوا ہے بچوں نے جواب دیا کہ بابا مرغی نے انڈا دیا ہے۔ دل تو کیا کہ مرغی کی پرائیویسی تباہ کرنے پر سب کو مرغا بناؤں۔ ابھی لاٹھی چارج کی نیت ہی باندھی تھی کہ ایک ڈائلاگ سنا کہ جیسا بابا ویسے اس کے بچے بھتیجے۔ سب یاد آ گیا۔

ہم چھوٹے تھے بہت پنڈ گئے ہوئے تھے۔ ابھی شاید سکول بھی داخل نہیں کرایا گیا تھا۔ سارا دن مرغیوں بکریوں کے گرد دوڑ لگاتے۔ سویرے اٹھ کر پہلا کام یہ کرتے کہ مرغیوں کو ڈربے سے نکالتے۔ شام کو انہیں ٹوکرے کے نیچے تاڑنا ہوتا تھا۔ زیادہ جوان جہان مرغیوں کو ڈربے میں بند کیا جاتا تھا۔ اسی ڈربے سے ہم نوکروں کو انڈے اکٹھے کرتا دیکھا کرتے تھے۔ یہ تو پتہ لگ گیا تھا کہ انڈہ ڈربے سے ملتا ہے۔ یہ نہیں پتہ تھا انڈہ مرغی دیتی ہے۔

ایک دن شاید ناشتے میں انڈہ نہ ملا ہم لوگوں کو۔ افسوس ہوا اسی دکھ میں اپنے بھا سے پوچھا کہ انڈہ کیسے دیا جاتا۔ بھا آج تو پورا سائینسدان ہے تب بھی تھا۔ اس نے کہا ڈربے میں سے نکلتا ہے۔ وہاں مرغی کو بند کیا جاتا ہے تو وہ غصے میں انڈہ دے دیتی ہے۔ اسے کہا غصے میں تو ہم بھی ہیں۔ آج خود ہی انڈہ دیتے ہیں دونوں بھائی۔

\"\"

صلاح مشورہ کر کے ہم دونوں کسی نہ کسی طرح ڈربے میں گھس کر بیٹھ گئے۔ گھر والوں کو جب ہم دونوں دکھائی نہ دیے تو ڈھونڈیا پڑ گئی کہ کدھر گئے۔ وہ سارے پنڈ میں ہمیں ڈھونڈتے پھریں۔ ہم لوگ نہایت اطمینان سے ڈربے میں آسن جما کر بیٹھے رہے۔ امید یہی تھی کہ بس انڈہ کہیں سے آتا ہی ہو گا۔ صبح کے بیٹھے ساری دوپہر اسی انتظار میں وہیں گزار دی۔

انڈے کے انتظار میں ہم لوگ رونے والے ہو گئے تھے۔ لیکن دونوں بھائی جم کر بیٹھے تھے۔ اک دوسرے کو حوصلہ دے رہے تھے کہ بس کسی بھی وقت انڈہ آیا چاہتا ہے۔ ہماری باتیں نوکرانی نے سن لیں۔ دونوں کو ڈربے سے برامد کر لیا گیا۔ ہم دونوں ککڑ حال تھے پوری طرح دھول مٹی سے اٹے ہوئے۔ دادی کا دل کیا کہ ہماری اچھی لتریشن کرے دادا نے روک دیا۔

دادا نے پوچھا کہ اتھے کی کر دے سی یعنی یہاں کیا کر رہے تھے۔ انہیں بتایا کہ انڈہ دے رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا کوئی دتا تو شرمندگی سے رونا آ گیا کہ نہیں دیا گیا۔ کزن پکا تھا وہ نہ رویا۔ ہمیں دھو دھلا کر کھانے پر بٹھایا گیا۔ کھانے کو ابلے ہوئے انڈے دیے گئے۔

بھا کو جب دادا نے انڈہ چھیل کر پکڑایا کہ کھا لے وہ رونے لگ گیا۔ دادا کو غصہ آیا پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو تو بھا نے تاریخی جواب دیا۔ دادا اے آنڈہ وڈا وا دادا یہ انڈہ بڑا ہے۔ انڈے کے ساتھ اک شرمندہ سی کہانی ہماری فیملی میں اب تیسری نسل میں آ گئی ہے۔

سوچتا ہوں کہ لوگ بھی اور ان کی امید بھی تو بچوں جیسی ہی ہوتی ہے۔ اپنی سرکار کی طرف دیکھتے رہتے ہیں کہ انڈہ دے گی۔ پر ہمیں سرکار بھی تو کڑک مرغی جیسی ہی ملتی ہے۔ امید کا انڈہ ہی توڑ دیتی ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments