سٹیفن ہاکنگ – جنبش رخسار سے تسخیر کائنات


وہ اپنے دائیں گال کو جنبش دیتا ہے اور لوگوں کو کائنات کی سیر کروا دیتا ہے۔ دنیا کے سپر پاور کہلانے والے ممالک کے سربراہ اسے دیکھ کر تعظیم میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ ذکر ہے گلیلیو کی وفات اور نیوٹن کی پیدائش کے 300 سال بعد جنم لینے والے عظیم ماہر فلکیات، طبعیات دان اور ریاضی دان اسٹیفن ولیم ہاکنگ کا….جو 8 جنوری 1942ء کو آکسفورڈ برطانیہ میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین کا مکان شمالی لندن میں تھا مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران آکسفورڈ کو نسبتاً محفوظ علاقہ سمجھا جاتا تھا لہٰذا انہوں نے وہاں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ہاکنگ نے ابتدائی تعلیم سینٹ البنز کے ایک سکول سے حاصل کی۔ جب آئن سٹائن اس دنیا سے رخصت ہوا تو اسٹیفن ہاکنگ تیرہ برس کا تھا۔ پندرہویں صدی کے بعد سے یہ روایت بن چکی ہے کہ ہر بڑا سائنسدان دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے پیچھے کسی دوسرے عظیم سائنسدان کو چھوڑ کر جارہا ہے۔ خدا کرے کہ یہ روایت چلتی رہے اور دنیا آگے بڑھتی رہے۔ سکول اور کالج کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد اسٹیفن ہاکنگ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کیمبرج یونیورسٹی پہنچ گیا۔ 1962ءمیں ڈاکٹروں نے ہاکنگ کو بتایا کہ وہ ایک لاعلاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کا جسم مفلوج ہوتا جائے گا اور بہت جلد وہ زندگی کی بازی ہار جائے گا۔ یہ خبر ہاکنگ پر بجلی بن کر گری۔

اس نے سوچا کہ جب موت اس کا مقدر ٹھہری تو پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ۔ ایک جانب موت اس کا انتظار کر رہی تھی تو دوسری جانب اس کے خواب تھے۔ اس کی زندگی کا یہ مشکل ترین دوراہا اس کے لئے نقطہ انقلاب ثابت ہوا۔ ہاکنگ نے فیصلہ کرلیا۔ اس کا فیصلہ یہ تھا کہ موت تو اس کا مقدر بن چکی کیوں نہ اس مختصر عرصے میں کوئی بڑا کام کیا جائے۔ ایسا کام جو اسے موت کے خوف سے بھی نجات دلادے اور اس کام میں بنی نوع انسان کی بھلائی بھی ہو۔ ہاکنگ نے بالکل اس فلسفی کی طرح سوچا تھا جس کی ماں کا انتقال ہوا تھا تو اس نے غم بھلانے کے لئے ایک مشکل ترین موضوع پر ضخیم کتابیں پڑھنا شروع کردی تھیں۔

فلسفی کتابوں میں ڈوبتا چلا گیا اور اس کا غم بھی کسی ان دیکھے سمندر میں ڈوب گیا۔ ہاکنگ نے بھی ایک مشکل کام کا انتخاب کیا۔ اس نے آئن سٹائن کے پیچیدہ ترین نظریہ اضافت پر غور کرنا شروع کردیا اور اس کی گتھیوں کو سلجھانے لگا۔ سلجھاتے سلجھاتے وہ کائنات میں موجود بلیک ہولز سے الجھ بیٹھا۔ ہاکنگ آج تک بلیک ہولز سے الجھا ہوا ہے اور یہ دنیا سلجھتی جارہی ہے۔ ’وقت کی مختصر تاریخ‘ لکھنے والے کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ وہ سب کچھ بھول کر اپنے کام میں مگن رہنے لگا۔ یہاں تک کہ اس نے نہ صرف پی ایچ ڈی مکمل کی بلکہ بیسویں صدی کے ذہین ترین شخص آئن سٹائن کا جانشین کہلانے لگا۔ ڈاکٹروں کی پیش گوئی کے برعکس ہاکنگ آج تک زندہ سلامت ہے مگر اس کا جسم مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے۔

وہ نہ سن سکتا ہے نہ بول سکتا ہے نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی اپنے ہاتھوں پیروں کو حرکت دے سکتا ہے۔ عزم و حوصلے کے نانگا پربت کی زندگی ایک ویل چیئر پر بسر ہورہی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ خدا کا بنایا ہوا کمپیوٹر ہے۔ جب ہم کسی کمپیوٹر پر کام کرتے ہیں تو وہ خود کوئی حرکت نہیں کرسکتا مگر ہمارے سوالات کے جواب ضرور دیتا ہے۔ ہمیں معلومات مہیا کرتا ہے۔ ہاکنگ بھی خود حرکت نہیں کرسکتا مگر اس کا دماغ دورحاضر کے چند ذہین ترین افراد میں سے ایک ہے۔ 1979ء سے 2009ء تک ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی کے اس عہدے پر فائز رہا جس پر کبھی مشہور سائنسدان آئزک نیوٹن فائز تھا۔ ہاکنگ دور حاضر کا افلاطون ہے۔ آج بھی ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی کا اثاثہ ہے اور اپنے تحقیقی کاموں میں مصروف ہے۔ ہاکنگ کی دلچسپی کا موضوع کائنات میں موجود بلیک ہولز ہیں۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں اسے لیکچر کے لئے مدعو کرتی ہیں۔

وہ ایک خود کار جدید قسم کی ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے اپنی زبان ہلائے بغیر لیکچر دیتا ہے۔ اس کی ویل چیئر پر ایک جدید قسم کا کمپیوٹر نصب ہے جس میں سے ایک تار نکل کر ہاکنگ کے دائیں گال سے چسپاں رہتی ہے۔ وہ اپنے گال کو حرکت دیتا ہے اور کمپیوٹر بولنا شروع کردیتا ہے۔ یوں جنبش رخسار سے تسخیر کائنات ہونے لگتی ہے۔ ہاکنگ جو بھی سوچتا ہے کمپیوٹر وہی بولتا جاتا ہے۔ ہاکنگ ہمیں بتاتا ہے کہ بلیک ہول کس طرح وجود میں آتے ہیں۔ زمان و مکاں کی کیا حقیقت ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اگر کوئی انسان کسی بلیک ہول میں گر جائے تو وہ سایہ بن کر اس میں رہنے لگے گا یا وہ بلیک ہول کو پار کرکے کسی دوسری بالکل نئی کائنات میں جانکلے گا۔ ہاکنگ کے مطابق بلیک ہول تب بنتے ہیں جب کوئی فلکی جسم اپنی ثقلی کشش کی وجہ سے اپنے آپ کو تباہ کرلیتا ہے۔ جس کے بعد وہ کائنات میں ایک بلیک ہول کی مانند رہنے لگتا ہے۔

ہاکنگ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’وقت کی مختصر تاریخ‘ میں ہمیں بتاتا ہے کہ وقت کب پیدا ہوا تھا۔ گزرتے وقت کو کیوں نہیں روکا جاسکتا۔ ماضی، حال اور مستقبل کیا ہے۔ ابھی تک مسقبل کے زمانے سے کوئی شخص ہم سے ملنے کیوں نہیں آیا۔ ہر شخص حال میں کیوں آتا ہے اور ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہاکنگ کے حالیہ بیان نے ساری دنیا کو پریشان کردیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ مختلف وجوہات کے باعث آنے والے ہزار سالوں کے دوران یہ دنیا تباہ ہوجائے گی۔ لہٰذا ہمیں دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کرنی چاہئے اور وہاں گھر بسانے چاہئیں۔ عزم، ہمت، حوصلہ یہ الفاظ بنے ہی بہت کم لوگوں کے لئے ہیں۔ اِن الفاظ کا زیادہ استعمال کرکے انہیں بے معنی کردیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے جب ہم کسی ایسے شخص کی بات کریں جس کے لئے یہ الفاظ تخلیق کئے گئے ہیں تو ہمیں مجبوراًکہنا پڑتا ہے کہ ہمیں الفاظ نہیں مل رہے۔ یہی صورتحال اسٹیفن ہاکنگ کے معاملے میں بھی پیش آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اس عظیم سائنسدان سے یہ سوال کیا گیا کہ کائنات میں بلیک ہول، ثقلی کشش، مصنوعی ذہانت وغیرہ میں سے آپ کے لئے وہ کونسی چیز ہے جو ہمیشہ معمہ رہی؟ ہاکنگ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ عورت۔ اور ہاکنگ نے یہ بات بالکل سچ کہی تھی کیونکہ ان کی دو شادیاں ناکام ہوچکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments