ہم سب کے وزیر اعظم اور حفیظ اللہ نیازی کا طلسمی انڈا


\"\"تاریخی مندر کٹاس راج کی بحالی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نوازشریف نے قائد اعظم محمد علی جناح کی اس سوچ کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا قومی تشخص یہاں بسنے والے شہریوں کا بلاامتیاز احاطہ کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے فرمایا،”مذہب اپنا اپنا‘ لیکن انسانیت سب کا مشترکہ اثاثہ ہے…. میں صرف مسلمانوں کا وزیراعظم نہیں ہوں‘ بلکہ پاکستان کی حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کا وزیراعظم ہوں “۔ اس سے اچھی بات کوئی رہنما کیا کہہ سکتا ہے۔ یہی کہا تھا،مری آنکھ دیکھ سکتی ہے…. وزیراعظم پر نابینا شہر بری طرح ٹوٹ پڑا ہے۔ اپنے برادر محترم حفیظ اللہ نیازی ہی کو لیجئے۔ نیازی صاحب کی ذات میں محبت ہے ، لہجہ استوار ہے، جذبہ فراواں ہے ۔ پانی وہاں مرتا ہے جہاں شاعر نے کہا تھا ’لیکن وہ مرے خواب ، مرے خواب ، مرے خواب ….‘۔ میاں نواز شریف کے فرمودات میں انسانیت کی اصطلاح محبی نیازی صاحب پر ایسی گراں گزری ہے کہ صوفی شاعر بلھے شاہ کو آئینی تصریحات کی ٹاپوںتلے روند ڈالا۔ نیازی صاحب بجا فرماتے ہیں کہ صوفی شاعر کے جذب اور واردات قلبی کو مملکت چلانے کا رہنما اصول نہیں بنایا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ 1926ءمیں پیدا ہونے والے اصغر سودائی کا 1944 ءمیں کہا گیا مقبول عام مصرع کیا مملکت چلانے کا رہنما اصول قرار پاتا ہے۔ وجہ بتائی جائے کہ اٹھارہ سالہ اصغر سودائی کے کلام معجز نگار کو بانی قوم کے اس ارشاد پر کیونکر فوقیت دی جائے کہ عقیدے کا کاروبار مملکت سے کوئی تعلق نہیں ۔ 14 دسمبر 1947 ءکو آل پاکستان مسلم لیگ کونسل کا اجلاس خالق دینا ہال کراچی میں منعقد ہوا تھا۔مسلم لیگ کی تاریخ پر سند کا درجہ رکھنے والے ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کی فکری دیانت سے پوری توقع ہے کہ اس اجلاس کے مباحث کو قوم کے سامنے ضرور لائیں گے۔
بھائی حفیظ اللہ نیازی نے وزیراعظم کو ان کی فکری گمراہی پر الوہی گرفت کی وعید دی ہے ۔ جاننا چاہیے کہ ریاست نیازی صاحب کے ماورائی گمان کی پابند نہیں، شہریوں کی جمہوری تائید کی روشنی میں چلائی جاتی ہے۔ معروف ماہر روحانیات قدرت اللہ شہاب نے ایوان صدر کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ نائیٹی نامی ایک نامعلوم بزرگ کی طرف سے کاغذ پر لکھے ہوئے جامع احکامات صدر کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی میز پر رکھے ملتے تھے۔ جاننا چاہیے کہ شہاب صاحب کے موہوم نوے سالہ نوجوان کے فرمودات مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک نہ کر سکے۔مشرقی اور مغربی پاکستان میں افتراق کی اینٹ 21 فروری 1952 ءکو ڈھاکہ میںرکھی گئی تھی جب سپرنٹنڈنٹ پولیس مسعود محمود نے بنگالی زبان کے نام لیوا طالب علموں پر گولی چلائی تھی۔ محترم حفیظ نیازی نے پان، چھالیہ، چونے اور کتھے کی جو ترتیب جما رکھی ہے، وہیں اردو کی ڈلیا بھی رکھی ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ یہ عاجز حروف اردو ہی میں لکھے جا رہے ہیں ۔ پاکستان کے رہنے والوں کی مادری زبانوں کی طرح اردو زبان بھی ہمارے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ پوچھنا چاہیے کہ 1972ء کے سندھی اردو فسادات اور 1984ء میں اردو شناخت کے نام پر شروع ہونے والی سیاست کا خون بہا کیا ابھی باقی ہے؟ اردو زبان کسی عدالتی فیصلے، دفتری حکم یا انتظامی اقدام کی مدد سے ترقی نہیں کرے گی ۔ اردو کا مستقبل وہی ہو گا جو اردو کا علمی سرمایہ ہو گا۔ کیا اچھی بات حسرت صاحب کہا کرتے تھے۔ ’علم میں ہم سب کوتاہ ہیں‘۔ اردو بولیے یا پنجابی، سندھی کا میٹھابول بولیں یا پشتو میں گرم جوشی کا اظہار کریں ۔ زبان سیاسی مو¿قف نہیں ہوتی۔ کسی زبان کے بولنے والوں کی علمی ، تمدنی اور معاشی صلاحیت سے متعلقہ زبان کا مقام طے ہوتا ہے۔ اردو یا پاکستان کی کسی دوسری زبان کا انسانیت پر اجارہ نہیں۔ مگر ’انسانیت‘ کی اصطلاح ہی سے صاحبان بصیرت کو کھٹکا ہے۔ ہمارے دوستوں کو معاشی ترقی اور دس ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار غیر حقیقی معلوم ہوتی ہے ۔ ہماری رہنمائی کی جائے کہ اگر معاشی ترقی کی بنیاد پر سیاست کے خدوخال قبول نہیں تو کیا فرقہ واریت کی بنیاد پر سیاست کی جائے۔
یاران سرپل کو شکوہ ہے کہ قائداعظم کی ایک ہی تقریر کیوں ؟ پوچھنا چاہیے کہ اس تقریر میں ایسا کیا ہے جو طبع نازک پر گراں گزرتا ہے؟ اور صاحب قائداعظم کی یہ ایک تقریر نہیں ۔ مارچ 1940 ءمیں قرارداد پاکستان منظور کی گئی ۔اپریل 1941 ءمیں مطالبہ پاکستان کو مسلم لیگ کا نصب العین قرار دیا گیا۔ جولائی 1946 ءمیں راست اقدام کا فیصلہ کیا گیا۔ قائداعظم 3جون 1947 ءکو ریڈیو پر قوم سے مخاطب ہوئے۔ کیا کسی ایک دستاویزی موقف میں قائداعظم یا مسلم لیگ نے عندیہ دیا کہ پاکستان میں کاروبار مملکت مذہبی پیشواﺅں سے پوچھ کے چلایا جائے گا؟ پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت اسلام کی پیروکار ہے۔ پاکستان میں اسلام کی اقدار اور شعائر سے انحراف ممکن ہی نہیں۔ مسئلہ مسلمانوں کے حقوق کا نہیں، سوال کاروبار مملکت پر گروہی اجارے کا ہے۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر مذہبی پیشوا کے دعوﺅں کی نفی کرتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی کٹاس راج والی تقریر سے اس بیانئے کی نفی ہوتی ہے جسے آمریتوں نے پاکستان پر مسلط کیا۔ پاکستان کے رہنے والے 1973 ءکے دستور کے پابند ہیں ۔ ہمارے مہربان چاہتے ہیں کہ 1985 ءمیں آٹھویں آئینی ترمیم کے نام پہ ضیاالحق نے دستور کے ساتھ جو کھلواڑ کی تھی اسے تقدیس کا درجہ دیا جائے۔ اس مطالبے سے اتفاق ممکن نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کدال لے کر مسجد یا مندر ڈھانے نہیں نکلے۔ انہوں نے صرف یہ فرمایا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے کسی مسلمان ، ہند و ، مسیحی یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے شہری کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے مہربانوں نے اسلام ، ریاست ، نظام عدل ، معیشت اور جمہوریت کا ایک خانہ ساز نمونہ تیار کر رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں انتالیس ملکوں کے فوجی اتحاد کے بارے میں رائے عامہ کا جوردعمل سامنے آیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کا خمیر فرقہ واریت سے ماورا ہے۔ ہمارے دریاﺅں میں رواداری موجزن ہے۔ اخاہ معیشت! یہ فرمائیے کہ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے جو معاملات طے پائے ہیں کیا ان میں کہیں صراحت کی گئی ہے کہ سودی معیشت سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔ سرد جنگ ختم ہوئے ربع صدی گزر چکی۔ مذہب ، اردو زبان اور مضبوط مرکز کی سیاسی ریڑھی کا وقت گزر چکا ۔ اب جمہوریت ، معیشت اور علم کی تکون سے رجوع کرنا ہو گا۔ محترم حفیظ اللہ نیازی کے طلسمی انڈے سے زندگی کی نمود ممکن نہیں۔ پاکستان کو آگے بڑھانے کے لئے یہاں بسنے والوں کے عقیدوں کا ایک جیسا احترام کرنا ہو گا۔ سب زبانوں کو مساوی عزت دینا ہو گی۔ سب شہریوں کو ایک جیسا تحفظ دینا ہو گا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ملک کا وزیراعظم ہم سب کا وزیراعظم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments