حکومت پاکستان کا احسن اقدام


\"\"

حکومت پاکستان نے ویژن 2025 کے تحت ملکی مسائل حل کرنے کے لیے مختلف پالیسیاں تشکیل دیں تاکہ ملک جن بحرانوں کا شکار ہے ان سے ملک کو نکالا جائے۔ انہی پالیسیوں میں ایک پالیسی کا اضافہ کیا گیا کہ سیرت چئیر بھی قائم کی جائے سیرت کی روشنی میں ہم اپنے مسائل کس طرح حل کر سکتے ہیں؟ اخلاقی و سیاسی بحران کے جس دور سے ہم گذر رہے ہیں سیرت ان حالات میں ہماری رہنمائی کس طرح کرتی ہے؟

دوہزار چودہ میں اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا کام شروع ہوا حکومت نے نو چئیرز قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور پچیس جولائی دوہزار سولہ کو انٹرویوز لینا شروع کیے تو سلیکشن بورڈ نے ایک تقرری کی سفارش کی باقی آٹھ کو دوبارہ مشتہر کرنے کی ہدایت کی اس ایک چئیر پر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کی تعیناتی کی گئی۔ پھر اسی ماہ کی ابتدائی تاریخ میں ایچ ای سی کے زیراہتمام ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کے میزبان و مہربان جناب قبلہ ایاز صاحب تھے جبکہ تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر جناب احسن اقبال تھے ملک بھر سے چالیس لوگوں کو جمع کیا گیا جس میں اس ناچیز کو بھی یاد رکھا گیا دو دن کی اس خوبصورت کانفرنس میں مختلف پہلوؤں پہ غور و فکر کیا گیا۔ نئے نئے سوالات سامنے آئے۔

ایک بنیادی سوال جو سامنے آیا وہ یہ کہ یہ دور قومی ریاستوں کا ہے مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہ رہے ہیں کہیں مسلمان اکثریت میں ہیں اور کہیں اقلیت میں۔ جو مسلمان اقلیت میں ہیں شریعت اس حوالے سے کیا رہنمائی کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں قبلہ ایاز صاحب نے انڈیا کے ایک عالم دین مولانا یسین مظہر صدیقی کی کتاب کا حوالہ دیا کہ انہوں نے ہجرت حبشہ کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں تمام تفصیل موجود ہے۔ صحابہ کرام نے جب حبشہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں نجاشی کی حکومت تھی جو مسیحی حکمران تھا۔ صحابہ مہاجر بھی تھے اور اقلیت میں بھی تھے۔ دور حبشہ کے احکامات کو سامنے رکھا جائے تو اقلیتی مسلمانوں کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ ان کی غم خوشی میں شریک ہوا جائے یا نہیں اسلام اس حوالے سے کیا کہتا ہے معاشرہ اس حوالے سے بھی منتشر ہے۔

ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ دنیا بھر میں اسلام کا چہرہ بدنما بنا دیا گیا ہے اس کی خوبصورتی کو دنیا بھر کے سامنے کس طرح پیش کیا جائے؟ دنیا کو بتایا جائے اسلام محبت والا دین ہے نفرت والا نہیں اور دنیا کے تمام مسائل کا حل سیرت میں موجود ہے یہ دین جامع و مانع ہے۔

ان سوالات سے ہٹ کر بھی دیگر سوالات سامنے آئے جن پہ بحث کی ضرورت ہے۔

کانفرنس کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر جناب احسن اقبال نے بہت ہی عمدہ گفتگو کی میں دیگر موضوعات پہ تو انہیں سنتا رہا لیکن سیرت کے حوالے سے ان کی گفتگو کبھی نہیں سنی تھی سیرت سرور عالم جب بیان کرنا شروع کی تو کئی علماء حیران رہ گئے اگر احسن اقبال وزیر نہ ہوتے تو یقینا ان کی تعریف کرتا لیکن حاکموں کی تعریف اچھی بھی نہیں لگتی اور نہ ہی یہ قوم تعریف سننا پسند کرتی ہے۔

البتہ ان کی گفتگو سے جو چند نکات یاد ہیں وہ پیش خدمت ہیں پڑھ کے آپ فیصلہ کیجئے کہ احسن اقبال صاحب کس سوچ کے مالک ہیں؟

پہلے تو انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے ہاں نقل ہے اصل نہیں تحقیقات سے ہم منہ موڑ چکے ہیں ہم اس نبی کے امتی ہیں جنہیں سب سے پہلے کہا گیا اقراء۔

پہلے انبیاء کو مختلف معجزات دیے گئے لیکن آقا کو علم کا معجزہ دیا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کا معجزہ دینے کا مقصد دنیا کو بتلانا تھا کہ انسانیت علم کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نے گری انسانیت کو علم کی روشنی دے کر اوج ثریا پہ پہنچایا

احسن اقبال صاحب نے سوال کیا کہ لوگ تو کائنات کی تسخیر کے لیے مختلف تجربات کر رہے ہیں لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ کائنات میں غور فکر کرنے کا رب نے ہمیں حکم دیا تھا کائنات کو مسخر کرنے کے احکامات تو ہمیں دیے گئے تھے لیکن ہم گزشتہ کئی صدیوں سے اپنی سوئی تک نہ ایجاد کر سکے کیوں؟ کیا ہم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا حکم تو آپ کو دیا گیا اور آپ تفرقوں میں بٹ کے اپنی جماعتوں تک محدود ہو گئے؟ عشق رسول یہاں کیوں نہیں جاگتا؟ کیا نعرے بازی ہی عشق رسول ہے؟ جہالت کے خاتمے کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا جاتا؟

ایک واقعہ سنایا کہ جب میں امریکہ میں تھا تو وہاں کے دکاندار خریدی گئی اشیاء مہینے تک خوشی سے واپس لیتے جبکہ پاکستان میں بڑا بورڈ لگا ہوتا ہے خریدی گئی اشیاء واپس نہیں ہوں گی

حلانکہ اللہ کے محبوب نے فرمایا تھا جو دکاندار مال واپس کرے گا اللہ اسے جنت میں موتیوں سے بنا ایسا محل دیں گے جس میں کوئی جوڑ نہیں ہوگا یہ حدیث سن کے ایک صحابی نے دکان کھول لی۔ کئی دنوں بعد جب ایک شخص خریدا مال واپس کرنے آیا تو آپ نے اس کی دعوت کی اور کہا آپ کی وجہ سے میں جنت خریدنے بیٹھا ہوں۔

کہنے لگے جب یہ حدیث اسلام آباد کے ایک دکاندار نے سنی تو اس نے لکھ کر لگا دیا کہ خریدا مال واپس ہو گا اس اعلان کے ساتھ ہی خرید بڑھ گئی۔ وہ اس طرح کہ پہلے لوگ ایک ہی قسم کے جوتے خریدتے تھے لیکن اب لڑکیاں دو دو جوڑے خریدتی ہیں اور کہتی ہیں پسند نہ آیا تو واپس لائیں گی پھر اکثریت واپس نہیں آتیں اور دونوں جوڑے رکھ لیتی ہیں۔

ایک حدیث سنائی کہ اگر آپ کے ہاتھ میں بیج ہے اور قیامت آجاتی ہے تب بھی اسے زمین میں لگا دو

پانی کے متعلق فرمایا کہ دریا کنارے وضو کرتے ہو تب بھی ضائع نہ کرو

جنگ کے متعلق فرمایا کہ درختوں کو نقصان نہ دو

میثاق مدینہ قائم کر کے تمام مدینہ کے باسیوں کو ایک قوم قرار دے کر نیشن اسٹیٹ کی بنیاد رکھی

جو اسلام قدم قدم پہ رہنمائی کرتا ہے اسے بھلا دیا گیا ہمیں سیرت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

یقینا احسن اقبال صاحب کی گفتگو خوبصورت تھی مجھے خوشی ہے کہ ریاست نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے آج تک قوم کو صرف مغازی کے ابواب ہی پڑھائے گئے ریاستی فیصلوں نے پوری قوم کو جنگجو بنا دیا تھا

حالانکہ ہم فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لیتے ہوئے انہیں یہ کریڈٹ دیتے ہیں کہ انہوں نے ادارے قائم کیے تھے جہاں انہوں نے دیگر شعبے قائم کیے وہیں فوج کا شعبہ بھی قائم کیا اس شعبے کو قائم کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ پوری قوم لڑاکا نہ بنے لڑائی ریاست کا ادارہ کرے

قوم کی اخلاقی تربیت کے لیے سیرت کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرنا نہایت ہی ضروری ہے جنہیں آج تک چھپایا گیا ہے نوجوان کنفیوژ ہیں انہیں جو کچھ سمجھایا گیا وہ اب کہیں لاگو نہیں ہو سکتا

میں اس فیصلے پہ حکومت پاکستان کو مبارک باد دیتا ہوں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالی قبلہ ایاز صاحب اور ان کی ٹیم کو کامیاب کرے دیر آید درست آید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments