سائنس اور آج کا نوجوان


\"\"

ریاضیات و طبیعات سے وابستہ اہل علم و قلم کے نزدیک اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس کائنات کے اندر کثیر جہتی (Multi Dimensional)اجسام کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ لیکن انسان اپنی محدود بینائی کے سبب سہ ابعادی اجسام کو دیکھنے پر قادر ہے۔ انسان کی اہلیتوں کے اوپر یہ قدغن فطری ہے۔

روز مرہ مشاہدات اور سائنسی تجربات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوئی کہ اس کائنات کے اندر اجسام کانظر آنا یا تو ان اجسام سے نکلنے والی شعاوؤں کی بدولت ہے اور یا پھر سورج اور دوسرے ذرائع سے آنے والی روشنی کے اجسام سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہونے کے سبب ہے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ انسان کی بصارت کے حوالے سے یہ استعداد صرف اجسام کے طول و عرض (Dimensions) تک ہی محدود نہیں بلکہ اجسام کی موجودگی سے متعلق معلومات سے پردہ اٹھانے کے اندر کردار ادا کرنے والی برقی مقناطیسی موجوں کے حوالے سے بھی ہے۔ ایکس ریز اور زیریں سرخ اشعاع کے انسان کے ارد گرد ہوتے ہوئے بھی انسان اس کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ جب کہ ان اشعاع کا عملی مشاہدہ خود کار طریقے سے کھلنے والے دروازوں کے بیچ گذرنے سے کیا جا سکتا جو زیریں سرخ اشعاع سے متعلق ڈیٹکٹرز کے بنیادی اصولوں پر کام کر رہے ہوتے ہیں جب کہ ایکس ریز کے استعمال سے بھی ہر بندہ واقف ہے۔

تحقیق سے ثابت ہوا کہ عام نظر آنے والا مادہ (یعنی آرڈنری میٹر) بشمول چاند، ستارے، تمام اجرام فلکی اور کہکشائیں کل کائنات کا 4فی صد ہے اور 26 فیصد نظر نہ آنے والا مادہ (ڈارک مَیٹر) ہے جو کہ نا تو روشنی جذب کرتا ہے اور نا ہی خارج کرتا ہے۔ جب کہ بقیہ 70 فی صد حصہ نظر نا آنے والی توانائی (Dark energy) پر مشتمل ہے۔

میٹرک تک سائنس اور خصوصاً طبیعات پڑھنے والے طلباء اس حقیقت سے واقف ہیں کہ انسان کی سماعت کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہیں۔ انفرا سانک اور الٹرا سانک کی اصطلاحات اس بات کی دلیل ہیں کہ اشرف المخلوقات 20 ہرٹز سے کم اور 20000 ہرٹز سے زیادہ کی آواز نہیں سن سکتے۔ جب کہ جانوروں میں سے بعض کو اس صلاحیت سے نوازا گیا ہے کہ وہ زیادہ فریکوئنسی والی آوازوں کو بھی سن سکیں۔

کشش ثقل انسان کے چار سو موجود ہے جس کو دیکھا تو نہیں جا سکتا لیکن اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے انسان خلاء میں سیٹلائٹ بھیجنے اور معلومات اکھٹی کرنے کے قابل ہوا۔ الیکٹران اور باقی بنیادی ذرے بھی انسانی بصارت کے حدود سے باہر ہیں لیکن بجلی اور باقی برقی ایجادات کی بدولت انسان اس کی موجودگی کا پوری طرح قائل ہے اور بھر پور یقین رکھنے والا ہے۔

ماضی قریب میں ایک سے زیادہ کائناتوں کا نظریہ سائنس دانوں کی دلچسپی اور فکری اڑان کو اونچا کرنے میں مدد گار ثابت ہوا جس کی بدولت محقیقین کئی کائناتوں کی تھیوری سے متعلق شواہد اکھٹے کرنے میں سر گرم عمل ہیں۔

ڈارک مَیٹر کیا ہے؟ ڈارک اِنرجی کسے کہتے ہیں؟ اور اس کو مستقبل میں کیسے انسان کی فلاح کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اَلٹرا سانک اور اِنفراسانک آوازوں کو کیسے سنا جائے؟ ایک سے زیادہ کائناتوں (ملٹی ورس) کا تصور کیا بتاتا ہے؟ اور مزید بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات ہماری توجہ کے منتظر ہیں۔ جب کہ مذکورہ تمام دلائل اور سائنسی حقائق اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کائنات کی اوجھل چیزوں کو سامنے لانے کا اہل سائنس ہی بدولت ہوا۔

نوجوان نسل کو نظر انداز کرنے اور باقاعدہ ذہن سازی نا کرنے کی بدولت آج کا نوجوان میدان کا انتخاب کسی تجسسی مادے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخصوص مضمون کے دائرہ کار (scope) کو دیکھ کر کرتا نظر آتا۔ سائنس کے اندر دلچسپی لینے کی بجائے وہ سائنس کو خشک مضمون قرار دے کر خوف محسوس کرتاہے۔ انتخاب کے یہ پیمانے پہلے ہی بگاڑ پیدا کر چکے ہیں لہٰذا یہ مملکت اس وقت مزید بگاڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

نئی نسل کو یہ بات سمجھائی جائے کہ سائنس ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک لمبے سفر کی طرف انسانی توجہ مبذول کرانے کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ ابھی بہت کام کرنے کو رہتا ہے۔ بہت سے منازل ہمارے منتظر ہیں اور مزید پیش رفت ابھی باقی ہے۔

حالات کا تقاضہ ہے کہ نئی نسل کو مثبت سوچ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی سائنسی اور معاشرتی حوالے سے تربیت کو زیر بحث لایا جائے اور تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایسے پروگرام وضع کرنے کی سفارش کی جائے تا کہ اس کے معاشرے کے اوپر براہ راست اثرات مرتب ہوں۔ نوجوان نسل کی توانائیوں اور اہلیتوں پر بھروسہ کر کے اور حقیقی معنوں میں مستقبل کا معمار سمجھ کر صحیح ڈگر پر چلایا جائے تا کہ ہم بھی سالوں کے اسفارِ ترقی مہینوں میں طے کرنے والی اقوام کی فہرست میں شامل ہو سکیں۔

محمد نعمان کاکا خیل
محمد نعمان کاکا خیل کینگ پوک نیشنل یونیورسٹی جنوبی کوریا میں پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر جب کہ یونیورسٹی آف واہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments