قائداعظم سے متعلق اوریا مقبول جان کی ایک اور غلط بیانی


\"\"

اوریا مقبول جان کا تازہ ترین شوشہ ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ریکنسٹرکشن کے حوالے سے ہے جو موصوف فرماتے ہیں کہ واحد ادارہ ہےجو قائداعظم نے بنایا۔ موصوف متعدد ٹی وی شوز میں یہ صاف غلط بیانی ایک پرچہ لہرا لہرا کر بیان کرتے ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ ایسی غلط بیانیوں پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔

میں نے جناح پیپرز کا بغور مطالعہ کیا ہے اور میں اوریا مقبول جان اور دیگر حضرات کو جو اس صریح غلط بیانی کو سچ تسلیم کئے ہوئے ہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ ان میں سے اس بارے میں کوئی حوالہ پیش کریں۔ قائداعظم کا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ادارہ ایک نیم سرکاری دفتر تھا جو نواب ممدوٹ نے لاہور میں کھولا تھا اور قائداعظم کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا نہ وہ علامہ اسد نامی شخصیت سے متعارف تھے۔ ان کے پاس تو وقت ہی نہیں تھا اس طرح کے ادارے قائم کرنے کا۔ تقسیم ہند کے وقت بے پناہ اور مسائل تھے۔ اور نہ ان کا مزاج اس قسم کا تھا۔ جناح ایک پریکٹیکل آدمی تھے جن کے لیے مسئلہ خالص سیاسی تھا۔ مسلمانوں کا ایک ووٹ تھا اور ہندوؤں کے تین۔ ان کے لئے مذہب تاریخ کا ایک اتفاق تھا جس نے مسلمانان ہند کو ایک قومی تشخص دیا مگر اس سے زیادہ نہیں۔ قائداعظم کی تمام تر کوشش مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک عمرانی معاہدے کے لئے تھی۔ اسی عمرانی معاہدے کی ہی کوشش جناح نے تمام زندگی کی تھی۔ 1916 میں ہونے والے لکھنؤ پیکٹ سے لے کر قیام پاکستان تک قائداعظم کی ہر کاوش اسی تناظر میں دیکھی جاسکتی ہے۔

قائداعظم سے جب بھی یہ سوال پوچھا جاتا کہ کیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگی تو قائد کا جواب ہوتا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہوگی جہاں اس کا فیصلہ عوام کریں گے کہ قانون سازی کس قسم کی ہوگی۔ البتہ چند بنیادی اصولوں پر سودا نہیں ہو سکتا تھا۔ اول تو تمام پاکستانی برابر کے شہری ہوں گے اور دوئم اس ریاست کو چلانے والے کسی الوہی مشن کے تابع نہ ہوں گے۔ ریاست رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ جب ان کے قریبی ساتھی راجہ صاحب آف محمود آباد نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو اسلامی ریاست کے طور پر مارکیٹ کیا جائے تو قائد سخت طیش میں آکر کہنے لگے \”کیا آپ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں ہیں ؟ مسلمانوں میں ستر سے زیادہ فرقے ہیں۔ کیا اس ریاست میں شروع سے فرقے بازی نہیں ہوگی اور ریاست تباہی کے دہانے پر جا کھڑی ہوگی؟ نہیں، میں ایک لبرل جمہوری مسلم ریاست چاہتا ہوں۔ \” پھر جب مسلم لیگ کے 1943 میں دلی میں ہونے والے اجلاس میں کچھ لوگوں نے اسلامی حکومت کو منشور کا حصہ بنانے کی کوشش کی تو قائداعظم نے اس کو ویٹو کر دیا۔ 1940 سے 1948 میں مسلم لیگ کے منشور یا سرکاری دستاویزات میں اسلامی حکومت کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ اسی طرح قائداعظم کی صدارت میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں بھی اسلام کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس سے یہ ہرگز مطلب نہیں کہ قائد اسلام سے خائف تھے بلکہ یہ کہ قائد تفرقہ نہیں چاہتے تھے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ قوانین کو سب کے لئے برابر دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے وزارت قانون کا قلمدان ایک ہندو کو سونپا۔

لفظ سیکیولر وطن عزیز میں ایک گالی بن چکا ہے۔ بہرحال قائد کا تصور ریاست برطانیہ سے متاثر تھا۔ اگرچہ برطانیہ ایک اینگلیکن کرسچن ریاست ہے پر وہاں ہر شہری کو شخصی اور مذہبی آزادی ہے اور ہر شہری چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو برابر ہے۔ برطانیہ کی مذہبی تاریخ کا حوالہ جناح صاحب نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں بھی دے رکھا ہے۔

پاکستان میں ایک ٹولہ ان خود ساختہ لبرلز کا بھی ہے جو قائداعظم کے نام سے بیزار ہیں۔ ستم یہ کہ جس اوریا کو یہ عام طور پر گالیاں دیتے ہیں اس کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ اوریا صاحب دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں اور ساتھ ایک پرچہ بھی لہراتے ہیں اس لئے شاید سچ ہی بول رہیں ہوں گے۔ مگر جناب وہ پرچہ دیکھنے کی زحمت کرلیں۔ اس میں قائداعظم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور علامہ اسد کی آپ بیتی میں بھی قائد کا کوئی ذکر نہیں۔ پھر یہ کہ ادارہ لاہور میں قائم ہوا کراچی میں نہیں اور مغربی پنجاب حکومت کی سرپرستی میں ہوا حکومت پاکستان کی نہیں۔ تو پھر قائداعظم کہاں سے آگئے؟

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ جناح پیپرز میں نہ تو علامہ اسد کا کوئی ذکر موجود ہے اور نہ ہی اس ادارے کا۔ البتہ اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا کا ایک خط موجود ہے جو انہوں نے قائد کو 14 نومبر 1947 کو بھیجا۔ وہ قاہرہ میں ایک تنظیم قائم کرنا چاہتے تھے جس کے لئے قائد کا آشیرباد چاہتے تھے۔ قائد نے اس کا جواب 29 نومبر کو کچھ یوں دیا۔

“I hope you do appreciate that it is not possible for me, as head of the Pakistan Government, to allow my name to be associated, directly or indirectly, with this Association.”

’’میرے خیال میں آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کے سربراہ کے طور پر ایسی کسی بھی انجمن کے ساتھ میرے نام کا جڑنا چاہے براہ راست یا بلواسطہ ممکن نہیں ہے‘‘۔

یہ دونوں خط جناح پیپرز جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 315 اور 361 پر موجود ہیں۔

عرض یہ ہے کہ آپ اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں سو بسم اللہ پر قائد اعظم کے کندھے پر رکھ کر بندوق نہ چلائیے۔ اور غلط بیانی سے گریز کیجیے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان میں قائداعظم پر پی ایچ ڈی منع ہے۔ وجہ تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments