جعلی خوشحالی کی بے نقاب حقیقت


\"\"پورا پاکستان نہیں بھی تو کم از کم پنجاب بالخصوص لاہور ترقی کی شاندار مثال بن کر ابھر رہا ہے۔ میٹرو جیسا شاہکار منصوبہ بھی اورنج ٹرین کے سامنے گہنا سا گیا ہے۔ کینال روڈ، مال روڈ اور بہت سی اور سڑکوں سے گزریں تو جنت کا سماں لگتا ہے۔ یہ ترقی نہیں تو کیا ہے؟ رہی بات سروسز ہسپتال سے لے کر جناح ہسپتال تک لاہور کے تمام ہسپتالوں میں ادویات اور بستروں کی کمی سے مریضوں کی اموات کی تو غریب کو مر ہی جانا چاہیے۔ ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کم از کم ان کے جنازے میں ٹریفک جام نہیں ہوتا اور وقت پر قبرستان پہنچ جاتے ہیں۔ چلیں ٹھہریں ایک کہانی سناتا ہوں۔
ایک زمیندار کے تین بیٹے تھے۔ جب تھوڑے بڑے ہوئے تو زمیندار نے انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر بھیج دیا۔ کچھ ایکڑ زمین سے سخت محنت کے بعد زمیندار کی خون پسینے کی کمائی اتنی نہ تھی کہ اس کے بیٹے آسائش بھری زندگی گزار سکتے۔ ادھر شہر میں ان لڑکوں کے دوستوں نے جب سنا کہ ان کا باپ زمیندار ہے تو وہ ان کو ہر وقت یہ طعنہ دیتے رہتے کہ زمیندار ہو کر بھی تمہارا باپ تم لوگوں کو آسان زندگی مہیا نہیں کر رہا۔ لڑکوں کی سوچ پر اس کا اثر تو ضرور ہوتا مگر وہ اسے زیادہ سر پر سوار نہ کرتے مگر کب تک….؟ آہستہ آہستہ ان کے لاشعور میں یہ بات نقش ہوتی رہی کہ یا تو ان کا باپ کاہل ہے یا پھر کنجوس۔ کبھی کبھی انہیں اپنے لیے باپ کی محبت پر بھی شک ہونے لگتا۔
کچھ سال گزرنے کے بعد باپ بوڑھا ہو گیا اور بڑے لڑکے نے گھر کا اختیار سنبھال لیا۔ ساری زندگی شہر میں گزارنے کے بعد اسے فصلوں کی کاشت کی الف،ب کا بھی علم نہیں تھا۔اس نے شہر میں مقیم لڑکوں کو بتائے بغیر زمین بیچ دی اور کاروبار کا سوچنے لگا۔ زمین بیچنے سے جو خطیر رقم حاصل ہوئی اس پر سب عیش کرنے لگے اور کاروبار کی سوچ بس سوچ تک ہی محدود رہی۔ شہر میں مقیم لڑکوں کو اپنے باپ پر تمام شکوک درست لگنے لگے کیونکہ بھائی کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد ان کی زندگی عیش و آرام میں گزر رہی تھی۔
کچھ مہینے بعد زمین کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ختم ہونے لگی تو اس نے مویشی بیچنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس طرح سے خوشحالی کچھ مزید دن کے لیے مہمان بنی۔ جب وہ رقم بھی ختم ہوئی تو ادھار کا سہارا لیا گیا۔ شہر میں مقیم بھائی اس سب سے بے خبر اٹھتے بیٹھتے بڑے بھائی کو دعائیں دیتے اور باپ کو کوستے رہتے تھے۔ کچھ دن مزید گزرے تو ادھار ملنا بھی بند ہو گیا۔ شہر میں بجھوانے کے لیے تو درکنار گھر چلانے کو بھی رقم میسر نہیں تھی۔ کچھ دن جب شہر رقم نہیں پہنچی تو چھوٹے بھائی حالات کی خبر لینے گاﺅں پہنچے مگر وہاں تو منظر ہی اور تھا۔ بوڑھا باپ چارپائی پر بے ہوش لیٹا تھا اور بڑا بھائی گھر سے غائب تھا۔ چونکہ ہم لٹریچر تو پڑھ نہیں رہے اس لیے کہانی کو یہیں ختم کرتے ہیں۔
پاکستان کے قرضے پچھلے تین سالوں میں سات ہزار ارب سے بڑھ کر بیس ہزار ارب کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ سرمایہ کاری کے نام پر جو قرضے ملے وہ اس سے الگ ہیں۔ یو بی ایل سے لے کر حبیب بینک تک تمام بینکوں کے جو تیس فیصد کے قریب شیئرز حکومت کے پاس تھے وہ سب بک چکے ہیں۔ او جی ڈی سی ایل منافع میں ہونے کے باوجود آدھے شیئرز بیچ چکا ہے۔ پی آئی اے اور ریلوے سمیت بہت سے ادارے بکنے کے بالکل قریب ہیں۔ سٹیل کے کاروبار کے ماہر حکمران پاکستان سٹیل ملز نہیں چلا سکتے اس لیے اس کی فروخت کا عمل بھی مکمل ہونے والا ہے۔ ان تمام اداروں کی فروخت اور قرضوں سے اربوں روپے تو ضرور حاصل ہوئے ہیں مگر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔آپ کہانی پڑھیے اور سوچتے رہیے۔
(حکومتی ترجمان اگر مناسب سمجھیں تو یہ بات سمجھا دیں کہ حکومت نے اگر اداروں کو چلانے کی ذمہ داری نہیں لینی اور انہیں نجکاری کی نظر ہی کرنا ہے تو پھر حکومت کا کام کیا ہے؟)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments