چند سوالات کا جواب


\"\"

محترم عامر رانا صاحب

بہت شکریہ۔ ممنون ہوں کہ آپ نے اس قابل سمجھا کہ مخاطب کیا۔ سوالات کے جواب سے پہلے میں تمہید کے طور پر دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا تاکہ ان سوالات کا جواب دینا میرے لئے بھی آسان ہو۔

پہلے تو اس بات کا اظہار لازمی ہے کہ میں کمیونسٹ مکتب فکر سے فری مارکیٹ کیپیٹلزم کی طرف آیا ہوں۔ اس لئے ان تمام مسائل سے واقف ہوں جو ایک سوشلسٹ کو انسانی ہمدردی کے تحت پریشان کرتے ہیں

۔ غربت فری مارکیٹ کیپٹلزم کے مداحین کے نزدیک بھی معیشت کا سب سے بڑا چلینج ہے اور معاشی انصاف بھی فری مارکیٹ لبرلز کے لئے بنیادی ہے۔ ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ انسان بہترین معیار زندگی سے مستفید ہو۔ مگر جیسا کہ سوشل سائنس بالخصوص معیشت کے مطالعہ سے آپ بھی جانتے ہوں گے کہ محض حسن نیت سے بہترین نتائج حاصل نہیں ہوتے بلکہ حسن نیت کے ساتھ حسن خیال (Best idea) اور حسن عمل بھی لازم ہے تب ہی جا کر حسن نتیجہ ممکن ہو پاتا ہے۔ کیپیٹلزم اور کمیونزم کے درمیان فرق حسن نیت کا نہیں، فکری طور پر دونوں کی منزل ایک ہی ہے کہ انسان کامیاب ہو۔

مارکس بھی انفرادیت پسند تھا اور لبرل کیپیٹلزم بھی انفرادیت پسند ہے۔ مارکس نے اول ریاست کے جبر یعنی ڈکٹیٹر ازم کو اس لئے ناگزیر قرار دیا کہ اس کے نزدیک معاشی انصاف اس کے بغیر ناممکن ہے۔ مگر اس کی خواہش تھی کہ ریاستی آمریت کے بعد ریاستی جبر جب ٹوٹے تب سوسائٹی ازم (میں سوشلزم اصطلاح اس لئے استعمال نہیں کر رہا کہ عہد حاضر میں سوشلزم دراصل اسٹیٹ ازم کے معانی میں لیا جاتا ہے ) قائم ہو جس میں رضاکارانہ تعاون و تبادلہ کی ثقافت پائی جائے اور انسان شخصی آزادی کی سربلندی میں جئے۔ دلچسپ بات یہ کہ مارکس بھی انسان کی شخصی آزادی کا سب سے بڑا دشمن ریاست کو قرار دیتا ہے اور کلاسیکل لبرل ازم بھی، مارکس کا بھی یہی کہنا ہے کہ ریاست بالادست طبقات کے مفادات کی محافظ بن جاتی ہے، دلچسپ بات یہ کہ خود لبرل کیپیٹلزم بھی ریاست کو اپنی عمومی حالت میں سٹیٹس کو کا ترجمان سمجھتا ہے (ہاں مارکس طرز کی جامد کلاس سسٹم جیسا تصور لبرل ازم میں نہیں )۔ مارکس چاہتا ہے کہ ریاست ختم ہو جائے اور صرف فرد اور معاشرہ باقی رہے مگر لبرل ازم ریاست کو ایک ناگزیر برائی قرار دے کر اسے محدود نوعیت کے انتظامی معاملات سونپ کر فرد و سوسائٹی کو آزاد اور رضاکارانہ بنیادوں پر قائم رکھنا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ مارکس دی کمیونسٹ مینی فیسٹو میں دس مراحل کے انقلاب کے بعد اپنی منزل کے خواب دیکھتا ہے، جب کہ لبرل ازم اسی دنیا میں ایسے انتظامی بندوبست کا قائل ہے جس سے یہ منزل آسان ہو جائے۔ منزل کیسی ہو اس کے بارے میں مارکس خود لکھتا ہے : کہ جب اس کی مفروضہ جنت قائم ہو گی تو اس میں فرد ویسی زندگی جئے گا جیسی وہ چاہتا ہے۔ الفاظ ہیں :

As individuals express their life, so they are. What they are.
The German Ideology. Lawrence & Wishart, 1965, London.

لبرل ازم اور کمیونزم دونوں آزاد انسان اور آزاد سوسائٹی چاہتے ہیں جس میں ریاست کے جبر سے انسان آزاد ہو اور وہی زندگی جئے جیسی وہ چاہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مارکس بھی وہی الفاظ استعمال کرتا ہے جو کلاسیکل لبرلز استعمال کرتے ہیں ”reason to value “ ایسی زندگی جسے انسانی ذہن سب سے اہم سمجھے اور لبرل ازم اسی قدر کو سب سے بڑی قدر سمجھتا ہے ۔ (بدقسمتی سے ریاست کے جابرانہ کردار کو عہد حاضر کے سوشلسٹوں کی اکثریت سمجھتی ہے اور نہ نیو لبرل اس بنیادی نکتہ کو سمجھتے ہیں کہ سماج کے اکثر شر خود آزاد سماجی حرکیات سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ انہیں ریاستی عناصر بذریعہ جبر و آمریت پیدا کرتے ہیں ۔ ہاں کلاسیکل مارکس ازم اور لبرل ازم کو جاننے والے احباب اس بات کو خوب سمجھتے ہیں )۔ لبرل ازم اور کمیونزم میں فرق محض طریقہ کار اور حالات زمانہ کے ادراک (understanding) کا ہے۔ لبرل کیپیٹلزم کے مخصوص طریقہ کار سے متعلق آپ کے سوال دینے کی کوشش کروں گا۔

دوسری بات یہ کہ صنعتی انقلاب نسل انسانی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ مارکس بھی اس کا بڑا مداح تھا۔ اس کے الفاظ ہیں کہ یہ محض صنعتی انقلاب کی قوت تھی جس نے مغرب میں جاگیرداری نظام کو اٹھا کر پھینک دیا۔ مارکس کا کمیونزم ہو یا لینن کا سوشلزم دونوں کے ذرائع پیدوار میں صنعتکاری کو ترجیح حاصل ہے ۔ صنعتی انقلاب کے بعد تحریک احیاءالعلوم کے نتیجے میں لبرل ازم کو نظریاتی بنیادیں ملیں۔ اس دور کے تقریبا سب مفکر فری ٹریڈ اور فری مارکیٹ کے پوجوش حامی تھے کیونکہ ان کے نزدیک مارکیٹ میں آزادی اور سیاسی و سماجی آزادیاں باہم مشروط ہیں۔ پاکستان میں خاص طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ صنعتی انقلاب کے فورا بعد فری مارکیٹ کیپیٹلزم قائم ہو گیا تھا یا وہ پورا عہد لبرل عہد تھا (جیسے آج کل کے مغرب کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وہاں ہر گورا اور ہر مغربی حکومت لبرل ہوتی ہے )۔ ایسا ہر گز نہیں۔ یہ آہستہ آہستہ ہوا ہے۔ لبرلز کو اس عہد میں بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں سے ایک مرچنٹ ازم، نیشنلزم اور کالونیل ازم ہے، اس کے خلاف ایڈم سمتھ کی تقریبا پوری کتاب وقف ہے۔ فری مارکیٹ کا نظام وہ مرچنٹ ازم کے مقابلے میں لاتا ہے، گلوبلائزیشن کو نظریاتی بنیادوں وہ نیشنلزم کے مقابلے میں پیش کرتا ہے، اور کالونیل ازم کے خلاف وہ پورا ایک باب اس گھن گرج کے ساتھ لکھتا ہے کہ اس کے احساسات آسانی سے سمجھے جا سکتے ہیں۔ میں یہاں اس کا ایک حصہ نقل کرنا چاہوں گا۔ باقی تفصیل آپ میری آنے والی کتاب میں پڑھ سکیں گے جس میں میں نے تقریبا پچیس صفحے اس موضوع پر لکھا ہے۔

“برطانوی حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنی تمام نو آبادیات چھوڑ دیں اور رضاکارانہ طور پر اختیارات مقامی لوگوں کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اپنی حکومت منتخب کر سکیں، اپنے لئے قانون بنا سکیں، اور ان قومی پالیسیوں پر عمل کریں جو وہ اپنے لئے مناسب سمجھتے ہیں ” (ویلتھ آف نیشن )

دلچسپ بات یہ کہ اسی کتاب میں سمتھ ان دو وجوہات کا بھی ذکر کرتا ہے جو اس کے خیال میں نو آبادیات کے قیام و تسلسل کی وجہ ہیں۔

1۔ نو آبادیات بدقسمتی سے یورپی اقوام کا فخر بن گئی ہیں۔ یہ طاقتور اقوام اس بات پر اتراتی ہیں کہ کتنے علاقے اب تک انہوں نے اپنے قبضے میںکیے ہیں اور ان پر اپنی نو آبادیاتی قائم کی ہے۔

2۔ سیاست دانوں اور حکومت کے بھی اس میں مفادات ہیں کیونکہ جن کمپنیوں کو ان نو آبادیات پر اجارہ داری دی گئی ہے وہ اس کے بدلے ان سیاست دانوں بیوروکریٹس اور شاہی درباریوں کو رشوت سے نوازتی ہیں۔ اسی لئے سمتھ کہتا ہے کہ جب معیشت پر ریاستی اہلکاروں کو مداخلت کا اختیار ملتا ہے تو وہ اسی طرح رشوت اور کرپشن کے ذریعے اپنی ذاتی مفادات (جسے جدید معیشت کی اصطلاح میں Rent Seeking کہا جاتا ہے) کو Pursue کرتے ہیں۔ سمتھ کہتا ہے کہ اگر مارکیٹ آزاد نہ ہوئی تو ان نو آبادیات کو آزاد کرانا ممکن نہیں رہے گا۔

اسی طرح غلامی کا خاتمہ ایک چیلنج رہا ہے، زرعی ثقافت کے جراثیموں سے لڑنا ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ جمہوریت، سول آزادیوں، شہریت میں مساوات، قانون کی حکمرانی، مارکیٹ کی آزادی سمیت یہ سب تصورات عملی طور پر بالکل نئے تھے اور ان کے خلاف بہت زیادہ نظریاتی مخالفتیں مغرب میں پیدا ہوتی رہی ہیں۔

گزشتہ صدی کی ابتداء مزید نئے چیلنجز لے کر آئی تھی ۔ نیشنل ازم اور فاشزم ایک بھرپور قوت کے ساتھ اہل مغرب میں پھر بیدار ہوئے جس کی بنیاد پر دونوں بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ مغرب کی وہ تمام قوتیں جو انٹی لبرل تھیں وہ نیشنلزم اور فاشزم کی آڑ میں آگے بڑھیں۔ آپ اس دور کا لٹریچر دیکھئے کہ برطانیہ تک کے دانشورانہ مکالمہ میں مسولینی کے ہیرو ازم کا عنصر غالب ہے اور فاشزم کو کیپیٹلزم کا بہترین متبادل پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سوویت یونین کے سوشلزم کا اثر بھی زور شور سے لیا جاتا ہے۔ مغرب میں کمیونزم کبھی بھی مقبول نہیں ہوا مگر سوشلزم مقبول رہا ہے۔ مغربی سوشلزم پاکستانی یا روسی سوشلزم سے مختلف ہے جو فاشزم اور لینن کے سوشلزم دونوں سے اثرات لیتا ہے مگر اس میں مسولینی کے فاشزم کے معاشی اثرات وافر مقدار میں موجود ہیں۔

مغربی سوشلزم کے یہ لوگ مارکیٹ کے مخالف نہیں مگر اس کی ریگولیشن اور کنٹرول کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ریاست کو فرد پر مقدم سمجھتے ہیں۔ پرائیویٹ پراپرٹی کو یہ انسانی حق سمجھتے ہیں مگر زیادہ سے زیادہ ٹیکسز کے حامی ہیں اور پبلک سروس کے اداروں کی نیشلائزیشن کے حامی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ سوشل ویلفیئر کے حامی ہیں مگر مقابلہ کی مارکیٹ کے بھی مخالف نہیں ۔ ریاستی مناپلی کے بہت بڑے حامی ہیں۔ معیشت میں یہ mix اکانومی کی اقدار کو پسند کرتے ہیں اس لئے لبرل کیپیٹلزم سے نفرت کرتے ہیں مگر سیاست و ثقافت میں یہ لبرل اقدار کے مداح ہیں ۔ جنگ عظیم اول اور دوم کے درمیان مشہور ترین معیشت دان جان کینز سے انہیں معیشت میں نظریاتی بنیادیں ملیں اور اس وقت سے اب تک مغرب میں فری مارکیٹ کیپیٹلزم اور کینزین ازم کے درمیان ایک بھرپور کشمکش ہے جو جاری ہے۔

امریکہ میں وہ سب لوگ جو فری مارکیٹ کیپیٹلزم کے حامی ہیں وہ ریاست کے جبر کے خلاف ہیں، چاہے وہ جبر امریکی کالوں کے خلاف ہو، یا کسی اور طبقہ کے خلاف۔ مارٹن لوتھر کی تحریک کا ہر اول دستہ یہی لوگ تھے ، سول نافرمانی کے حق کو اب بھی تسلیم کرتے ہیں اور امریکی آئین میں موجود گن رائٹس کے یہ بہت بڑے حامی ہیں۔ امریکی جنگی جنون کے انتہائی مخالف ہیں۔ ملٹری ازم کے مخالف ہیں۔ امیگریشن کو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہیں اور اس پر ریاستی کنٹرول کے نقاد ہیں۔ گزشتہ صدی میں ان کی نظریاتی رہنمائی فریڈرک ہائیک اور جوزف شمپٹر نے کی جو کہ دونوں آسٹرین تھے۔ جب کہ ان کے حزب مخالف میں جو طبقہ موجود ہے جس کی قیادت امریکہ میں خاص طور پر ڈیمو کریٹ کرتے ہیں، جس کی نظریاتی شدت برنی سینڈر ہے، جس کو ہم نے حالیہ امریکی انتخابات میں دیکھا وہ معیشت میں کینزین ہیں، ان کے اردگرد سارے معیشت دان جو اکٹھے تھے جیسے جیفری سیچ، پال کرگمین، جوزف سٹگلٹز، اور تھامس پکیٹی وغیرہ یہ سب کٹر کینزین ہیں۔ فری مارکیٹ کیپیٹلزم اور کینزین ازم کے اس اختلاف کو ہم تین مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مغرب کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

۔ پلاننگ : لبرل ازم نے معاشی بندوبست میں ہمیشہ سنٹرل پلاننگ کی مخالفت کی ہے۔ لبرل ازم وسائل کی تفویض میں پرائیویٹ اور ڈی سینٹرلائزڈ پلاننگ کا قائل ہے۔ اسی سبب سے فی مارکیٹ اکنامکس کے تمام مفکرین بشمول فریڈرک ہائیک، جوزف شمپٹر اور ملٹن فریڈمین وغیرہ نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی بنیادی اہمیت کا انکار کیا ہے اور ان کے خیال میں یہ سنٹرل پلاننگ سے بھی بری منصوبہ بندی ہوتی ہے جو یہ بین الاقوامی مالیاتی یا ترقیاتی ادارے نافذ کرتے ہیں۔ ۔ مارکیٹ میں سنٹرل پلاننگ کا قائل سوشلزم ہے، اسی سبب سے ان مالیاتی اداروں کے وجود دینے میں جس معاشی نظریہ نے مدد کی اور جس کے تحت آج بھی یہ ادارے کام کرتے ہیں وہ منصوبہ بند تصور کینزین ازم کا ہے، ان دونوں اداروں نے آزاد مارکیٹ کے بجائے ریاستی منصوبہ بند (Centrally planned) مارکیٹ کی حمایت کی ہے۔ فریڈرک ہائیک کو مارکیٹ میں نالج اور کوآرڈینشن کے باہمی تعلق پر نوبل انعام ملا تھا، اس تصور کی رو سے مارکیٹ میں نالج پرائیویٹ ہی رہتا ہے اسی سبب سے کوآرڈینیشن کی واحد صورت بھی پرائیویٹ پلاننگ ہے۔

۔ معاشی بحران : جوزف شمپٹر کو جس معاشی تصور کی بنیاد پر عالمگیر شہرت ملی وہ creative destruction کا تصور ہے۔ اس تصور کی رو سے جب مارکیٹ میں کوئی کمپنی ناکام ہو جاتی ہے یعنی گھاٹے میں چلی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وسائل کے مفید استعمال میں ناکام رہی ہے اس لئے اس کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہے۔ شمپٹر کے نزدیک اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو مارکیٹ میں نقصان پر چلنے والے ادارے مارکیٹ پر بوجھ پر بن جائیں گے اور مارکیٹ میں جمود طاری ہو جائے گا۔ مارکیٹ میں ارتقاء کی واحد صورت یہی ہے کہ نقصان میں چلنے والے ادارے پیچھے رک جائیں اور نفع میں چلنے والے ادارے آگے بڑھتے رہیں۔ ۔ دوسرا یہ کہ مارکیٹ اکنامکس کی رو سے مارکیٹ میں بحران جیسا کہ گریٹ ڈپریشن اور 2008 کا بحران مارکیٹ میں حکومتی مداخلت کے سبب ہے اور حکومت کے کردار بطور Lender of last resort کے سبب روایتی فنانشل مارکیٹ میں رسک مینجمنٹ کا عنصر کمزور ترین ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ جب بنک رسک لیتے ہیں، اگر نفع میں آئیں تو ٹھیک اور اگر نقصان میں آئیں تو حکومت آگے بڑھ کر انڈسٹری کو فیل ہونے سے بچانے کے لئے (تاکہ لاکھوں لوگ بے روزگار نہ ہوں ) انہیں لیکویڈیٹی اور آسان قرض مہیا کر کے اور ملکیت کے شیئرز خرید کر تباہ ہونے سے بچاتی ہے اس طرح تو انڈسٹری میں Creative destruction ناممکن ہے۔

کینزین ازم اس تصور کو پسند نہیں کرتا۔ اس کا خیال میں مارکیٹ کو حکومت manipulate کرے اور بحران کی صورت میں آگے بڑھ کر ڈوبتی ہوئی انڈسٹری کو بچائے۔ بحران کے دوران بھرپور قرضے اور بجٹ خسارے کی پالیسی جاری کرے تاکہ نقصان میں چلنے والے ادارے ان سستے قرضوں سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔ فری مارکیٹ کیپیٹلزم بجٹ خسارے کو اکانومی کا انتہائی بدکار عمل سمجھتا ہے۔

۔ لبرل کیپیٹلزم ریاست کو ایک ناگزیر برائی قرار دیتا ہے۔ اس کی ذمہ داری اس کے نزدیک صرف انتظامی ہے۔ مگر کینزین ازم میں ریاست بڑے بھائی جیسی ہے جو چھوٹے بھائی کے فائدے کے لئے ضروری سمجھے تو اسے تھپڑ مار سکتی ہے۔

۔ بین الاقوامی سیاست میں مداخلت پسندی یعنی Interventionism جس کی انتہائی حالت جنگ ہے کی libertarian آج بھی مخالفت کرتے ہیں اور کل بھی انہوں نے مخالفت کی، مگر یہ کینزین طبقہ ہے جس کے خیال میں دنیا میں امن و استحکام کے قیام کے لئے امریکہ کا بطور سپر پاور ایک لازمی کردار ہے جسے وہ بھرپور طور پر ادا کرے۔

۔ فارن ایڈ اور دیگر معاملات پر کلاسیکل لبرلز کا موقف تحریر کے اگلے حصے میں دیا جائے گا۔

اس ساری تمہید کا مطلب یہ بتلانا ہے کہ مغرب میں ہر سرکاری معاشی منصوبہ بندی کیپٹلزم کی نمائندگی نہیں کرتی، جس طرح مغرب کا ہر سیاسی و سرکاری فیصلہ لبرل ازم کی نمائندگی نہیں کرتا نیز وہاں ہر فرد بھی لبرل نہیں۔ وہ متنوع سوسائٹی ہے اور یہ تنوع زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments