لیڈر کی پہچان میں کتنے برس درکار ہیں؟


\"\"غور کیجئے جناب، غور کیجئے۔ یہ اپنے اسی پاکستان کا ذکر ہے۔ بہت پرانی نہیں چند سال پہلے کی بات ہے۔ اسی ملک میں ایک سیاسی لیڈر تھے جن کی سیاسی قوت سب کو مرعوب کرتی تھی۔ جن کی خوشنودی سب کو عزیز تھی۔ میڈیا، سیاسی جماعتیں، اور سیاستدان سب ان کی خوشنودی کے خواہاں تھے۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت نہیں چلتی تھی۔ ان کی منشا ء سے ایوان کے اہم فیصلے ہوتے تھے۔ ان کی حلقہ ارادت اگرچہ پورے پاکستان پر نہیں پھیلا تھا مگر پاکستان کے ہرفیصلے میں وہ دخیل ضرور تھے۔

جی ہاں میں اسی لیڈر کا ذکر کر رہا ہوں جن کی بے سروپا تقریر چینلوں پر گھنٹوں چلتی تھی۔ کسی چینل کی جرات نہیں تھی کہ تقریر کے ایک لفظ کو کاٹ دے۔ کئی کئی گھنٹے ہم ان کے ہذیان کو سنتے تھے۔ بدزبانی کی داد دیتے تھے، بدکلامی پر سر دھنتے تھے۔ مفروضہ یہ پیش کیا جاتا تھا کہ اگر ایک لفظ بھی قطع کرنے کی کسی نے جرات کی تو ریٹنگ ڈوب جائے گی، چینل بند ہو جائیں گے، ادارے ختم ہو جائیں۔ کمرشل رک جائیں گے۔ قیامت آجائے گی۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی جناب۔ صاحب کی تقریر کے اگلے دن ان کے متوالے چینلوں کی سکرینوں پر سینے تان کر جم جاتے تھے۔ گئی رات کے ہذیان کی ایسی ایسی نادر توجیہ لاتے تھے کہ یہ قوم منہ دیکھتی رہ جاتی تھی۔ اگر صاحب نے تقریر کے عالم میں مخمور سی ہچکی لی تو یہ متوالے اس لچکی کو قوم کے لئے باعث سعادت قرار دیتے تھے۔ بے سری آوازمیں گیت کو فن موسیقی کی انتہا بتاتے تھے۔ اگر صاحب نے کسی کو گالی تو سارا دن اس گالی کے اسرارورموز اور نزاکتیں قوم کو سمجھائی جاتیں تھیں۔ اگر کسی کی بوری بنانے کا نام لیا تو مصاحب بوری پر نقش و نگار کی فرمائش کر ڈالتے تھے۔ اگر کسی کی تضحیک کی تو ساری قوم کو اس تمسخر کی توجیح رٹائی جاتی تھی۔

جی ہاں یہ وہی صاحب ہیں جن کے مطبخ کی حلیم کے قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ جس میں ڈالے جانے والے مصالحوں پر نظمیں لکھی جاتی تھیں۔ جن کی موٹر سائیکل کی پوجا کی جاتی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی اس موٹر سائیکل کے دیدار کا وقت معین تھا۔ ان کے فن تقریر پر کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ ان کی شخصیت کے قلابے خدا جانے کس کس محترم شخصیت سے ملائے جاتے تھے۔ یہ انہی صاحب کا تذکرہ ہے جن کے آستانے پر ہر پارٹی الیکشن کے بعد حاضری دیتی تھی۔ ہر لیڈر ان کے در پر جا کر ان کی دوستی پر فخر کا اظہار کرتا تھا۔ ان کے شہر میں کوئی جلسہ ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ کوئی پرندہ ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تھا۔ اب یہ صاحب کی منشا ہوتی تھی کہ چاہیں تو اپوزیشن کے احتجاج کے لیے لاکھوں کا مجمع کھڑا کر دیں اور مرضی ہو تو حکومت کی خاطر لاکھوں افراد کا اجتماع منعقد کروا دیں۔ ہروہ پارٹی جو ان کے شہر میں جلسہ کرتی تھی اس کے لیے لازمی تھا کہ جلسے کے بعد صاحب کا شکریہ ادا کریں۔ ان کے دربار پر ان کی غیر موجودگی میں بھی حاضر ہوں۔ نادیدہ قدم بوسی کی سعادت حاصل کریں۔

اجی یہ انہی صاحب کا ذکر ہے جو جب چاہتے شہر بند کروا دیتے تھے، جب چاہے ہنگامے کروا دیتے تھے، جب چاہے قانون کی دھجیاں اڑا دیتے تھے۔ جب چاہے کارکنوں کو لیڈر بنا دیتے تھے اور جب چاہے لیڈروں کو کارکنوں سے سرعام پٹوا دیتے تھے۔ امن بھی ان کی مرضی سے ہوتا تھااور ہنگامے بھی ان کی منشاء سے ہوتے تھے۔ یہ وہی لیڈر تھے کہ جن کے منہ میں جو آتا وہ کہہ دیتے تھے۔ کبھی کسی کی بیٹی کی عزت تار تار کر دی، کبھی عورت مرد کے تعلقات کی باریکیوں پر سرعام بحث کی۔ کبھی اپنے ملک کی برائی کی، کبھی پڑوس کے ملک کو مدد کے لیے پکارا۔ کبھی اپنوں پر لعنت بھیجی اور کبھی دشمنوں کی بلائیں لیں۔ کبھی کارکنوں کو تشدد پر ابھارا کبھی اسمبلیوں کو للکارا، کبھی جمہوریت کے درپے ہو گئے کبھی مارشل لاء کو آواز دی۔ کبھی فوج کو پارلیمنٹ کے خلاف ابھارا کبھی اسی فوج کی ہرزہ سرائی شروع کر دی۔

صاحب تو جو کرتے تھے سو کرتے تھے مگر ان کے مصاحب تو کما ل ہی کر دیتے تھے۔ اگر آج انہوں نے جمہوریت کو لعنت قرار دیا تو مصاحبین کی ایک فوج اگلے دن بیانوں میں، ایوانوں میں جمہوریت کے خلاف صف آرا ہو جاتے تھے۔ اس کو لعنت قرار دیتے تھے۔ اس کے مضمرات قوم کو گنواتے تھے۔ اس سے اگلے دن صاحب کو کچھ ہوش پڑتا تو وہ اپنے پہلے بیان سے مکر جاتے تھے۔ رو، رو کر معافی مانگتے تھے۔ جمہوریت کو لازمی قرار دیتے تھے۔ اب اس سے اگلے دن ان کے چیلے چا نٹے جمہوریت کے حق میں رطب اللسان ہو جاتے تھے۔ اس نظام کے حق میں دلیلیں دیتے پھرتے تھے۔

جیسا کہ ہر عروج کا زوال ہے اسی طرح اس لیڈر کے عروج کو بھی زوال آگیا۔ جن نادیدہ ہاتھوں کے سہارے وہ سارے پاکستان کو للکارتے پھرتے تھے انہوں نے بیساکھیاں چھین لیں اور اچانک دو دہائیوں کے بعد ہم پرا نکشاف ہوا کہ یہ شخص تو پاگل ہے۔ را کا یجنٹ ہے۔ غدار ہے۔ منکر ہے۔ قاتل ہے۔ مجرم ہے۔ اس کی تقریر تو ہذیان ہے۔ اس کی ذات تو بہتان ہے۔ اس کی پارٹی ایک بڑا ملکی نقصان ہے۔ بس پھر کیا تھا تقریر پر پابندی لگ گئی، تصویر وں کو جلا دیا گیا۔ تقریریں چھپا دی گئیں۔ دو دہائیوں کی سلطنت چند دنوں میں دھڑام سے گر گئی۔ مصاحبین فرار ہو گئے۔ میڈیا سے ان کا نام غائب ہو گیا۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی ان صاحب کو بھلا دیا گیا۔

شطرنج کی بساط پر بہت سے مہرے ہوتے ہیں ایک کے پٹ جانے سے کھیل ختم نہیں ہوتا۔ آج بھی ہمارے درمیان ایک لیڈر ہیں جو ہیں تو پیادے مگر وزیر بننے کی بے پناہ خواہش رکھتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو آج کبھی جمہوریت کو لعنت قرار دیتے ہیں۔ کبھی اسی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں کبھی اسمبلیوں سے استعفے دے دیتے ہیں کبھی اسمبلیوں میں جانے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔ کبھی عوام کو سول نا فرمانی پر اکساتے ہیں کبھی صوبوں کو لڑواتے ہیں۔ کبھی اپنے کہے سے مکر جاتے ہیں۔ کبھی جوش میں گالی دے جاتے ہیں کبھی خمار کے لمحوں میں معافی مانگ لیتے ہیں۔ ان کو بھی مصاحبین کا ایک انبوہ میسر ہے۔ جو ان کی ہر بات پر امنا صدقنا کہتے ہیں۔ میڈیا ان کے بھی تابع دکھائی دیتا ہے۔ ریٹنگ بھی انہی کے دم سے آتی ہے۔ میری بس اتنی سی تمنا ہے کہ ہمیں ان کی اصلیت جاننے کے لیے دو دہائیوں نہ لگیں۔ ان کی نادیدہ بیساکھیاں گرنے میں بیس سال نہ لگیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ کوئی آج سے بیس سال بعد لکھ رہا ہو۔ غور کیجئے جناب، غور کیجئے۔ یہ اپنے اسی پاکستان کا ذکر ہے۔ بہت پرانی نہیں چند سال پہلے کی بات ہے۔ اسی ملک میں ایک سیاسی لیڈر تھے جن کی سیاسی قوت سب کو مرعوب کرتی تھی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments